الٹی گنتی کا انتظار!
پنامہ اور ڈان لیکس کے نتیجہ میں اٹھنے والے پے در پے سیاسی طوفان وفاقی دارالحکومت کو مسلسل اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں جبکہ جے آئی ٹی کی کارروائی کے رد عمل میں پاکستان مسلم لیگ ن کے مستعفی سینیٹر نہال ہاشمی کے خود کش نما حملہ جیسے بیان کے نتیجہ میں اسلام آباد ایک نئے سیاسی گردباد کا شکار ہوگیا ہے ، یہ وقت بتائے گاکہ نہال ہاشمی نے نادان دوست کا کردار اداکیا یا انہیں حکومت یا پھر کسی ’’اورطرف‘‘سے اس اقدام کیلئے پلانٹ کیا گیا ہے ، تاہم حکومت کی جانب سے ان کے خلاف تادیبی کارروائی سے قبل گزشتہ دوپہر وزیراعظم ہاؤس کی ایک اعلیٰ ترین شخصیت نے راقم سے غیررسمی گفتگو میں بتایا کہ نہال ہاشمی کے اس بیان سے وزیراعظم ، پارٹی اور حکومت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے ، انکا خیال تھا کہ نہال ہاشمی کو کسی نے حکومت کے خلاف استعمال کیا ہے جبکہ وہ شخصیت اس واقعہ پر دل گرفتہ نظرآئی، بعدازاں گزشتہ سہہ پہر نہال ہاشمی کو وزیراعظم محمد نوازشریف کی تادیبی کاروائی کے نتیجہ میں سینیٹ سیکرٹریٹ میں اپنا استعفیٰ جمع کروانا پڑا، وزیراعظم محمد نوازشریف اور حکومت نے نہال ہاشمی کے بیان سے نہ صرف لاتعلقی کا اظہار کیا بلکہ اس امر کو ثابت کرنے کیلئے نہال ہاشمی کے خلاف کارروائی بھی کردی لیکن اس کے باوجود یہ طوفان تھما نہیں کیونکہ اپوزیشن پہلے ہی سے نہال ہاشمی کے اس اقدام کی ذمہ داری وزیراعظم محمد نوازشریف پر ڈال رہی ہے۔
مزید برآں عدلیہ نے نہال ہاشمی کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی میں ریمارکس دیتے ہوے اٹارنی جنرل کو مافیا کا نمائندہ قرار دیا ، جس کے نتیجہ میں حکومتی جماعت کے بعض حلقوں میں سخت ردعمل پیدا ہوا قبل ازیں پانامہ کیس میں ایک فاضل جج صاحب کی جانب سے حکومت کیلئے ’’گاڈ فادر‘‘کا لفظ استعمال کیاگیا تھا جس کے نتیجہ میں حکومت پہلے ہی سے سیاسی طور پر ہدف تنقید بنی ہوئی تھی ، تاہم گزشتہ روز ایک فاضل جج کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو مافیا کا نمائندہ کے ریمارکس پر حکومتی صفوں میں پیدا ہونے والے ہیجان سے تحمل کا پیمانہ چھلک گیا اور حکومت کے اندر ایک گروپ کے دباؤ کے نتیجہ میں حکومتی ترجمان کی جانب سے گزشتہ شام جاری ہونیوالے بیان میں ایک فاضل جج کے مذکورہ ریمارکس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ، یوں دارالحکومت میں جہاں پہلے ہی سے سیاسی آتش جواں تھا ، صدر ممنون حسین اور وزیراعظم محمد نوازشریف کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ناپسندیدہ نعروں کا سامنا تھاوہاں تپے ہوئے جذبات میں گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں سیاسی اور عدالتی عمل و ردعمل کے بعد یکے بعد دیگرے مظاہرے دیکھنے میں ملے ، جس کے نتیجہ میں بظاہر ایسا لگ رہاہے کہ معاملات ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘کی طرف جارہے ہیں ، تاہم اگر کہا جائے کہ معاملات ابھی شائد اس نہج پر نہیں پہنچے کہ انہیں ناقابل واپسی قرار دیا جائے لیکن اسلام آباد پر بے یقینی کے سائے گہرے ہوتے ہوئے ضرور نظر آرہے ہیں سیاسی تنازعات عدلیہ کو بھی متنازعہ بناتے ہوئے نظر آرہے ہیں ، جبکہ مختلف اہم شعبوں میں سیاسی تقسیم عیاں ہے ایسا لگتا ہے کہ اگر جوش کے بجائے ہوش سے کام نہ لیا گیا تو اہم ترین ملکی اداروں کے مابین ٹھن جائیگی ملک میں سیاسی تفریق اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اپنے مفادات کیلئے قومی اداروں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جارہاہے ،وفاقی دارالحکومت میں بڑھتی ہوئی سیاسی محاذآرائی اور تفریق کو دیکھ کر تو لگتاہے کہ حکومت کا مسلسل پانچواں بجٹ پیش کرنا اور صدر پاکستان کا چوتھی بار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی سیاسی و جمہوری نظام کے استحکام کی ضمانت قرار نہیں دیا جاسکتا۔
ایک طرف حکومت اور عدلیہ میں ٹکراؤ کا تاثر بن رہاہے تو دوسری جانب پارلیمنٹ میں صدر ممنون حسین کے خطاب کے موقع پر جب ایوان میں وزیراعظم محمد نوازشریف اپوزیشن رہنماء سید خورشید شاہ سمیت تمام رہنما ء زعماء موجود ہوں اور گیلریوں میں اہم ترین غیر ملکی سفارتکار اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت مسلح افواج کے سربراہان موجود ہوں تو ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے سینماء ہال کی مانند سیٹیاں بجانے اور غل غپاڑہ سے کیا پیغام جائے گا، صدرممنون حسین جو کہ مسلح افواج کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ عمومی طور پر وفاق کی علامت اور غیرسیاسی کردار کی شہرت کا حامل ہونے کے باوجود گزشتہ روز خطاب کے دوران انہیں سیاسی اختلاف کا نشانہ بنایا گیا،بپھری ہوئی اپوزیشن کے رویے کے باعث انکی تقریر تقریباً ایک گھنٹہ تاخیر سے ہوئی،صدر نے اپنی تقریر میں پاکستان کو درپیش تمام قومی و بین الاقوامی امور کا احاطہ کیا اور تعلیم وصحت کے میدان میں مزید بہتری کیلئے حکومت کی توجہ بھی مبذول کرائی،تاہم انکی متوازن تقریر حکومت اور عدلیہ کے مابین پیدا ہونیوالے تناؤ کی بہت حد تک نذرہوگئی،سیاست دان اپنے اختلافات کے حل کیلئے تھرڈ امپائر کی جانب دیکھیں یا پھر انہیں عدالت میں لے کرجائیں تو اس سے سیاست اور جمہوریت کے استحکام کی توقع کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی ، ایسا لگتاہے کہ اگر تمام اطراف سے تحمل سے کام نہ لیا گیا تو دارالحکومت میں بہت سے لوگ الٹی گنتی شروع ہونے کے منتظر بیٹھے ہیں ۔