تفہیمِ اقبال: بانگِ درا (3)

تفہیمِ اقبال: بانگِ درا (3)
 تفہیمِ اقبال: بانگِ درا (3)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گلِ رنگیں
یہ بانگ درا کی دوسری نظم ہے اور شعری ہیئت کے اعتبار سے مسدس ہے۔ یعنی چھ مصرعوں والی نظم۔۔۔ اس میں پہلے چار مصرعوں کے قافیے ہم وزن اور ہم صوت ہوتے ہیں اور ردیف بھی یکساں ہوتی ہے۔ اقبال کی کئی مشہور نظمیں مسدس ہیں اور ان کی بحور اور اوزان تقریباً یکساں ہیں اور مترنم بھی ہیں۔ جو بحراقبال نے پہلی نظم ’’ہمالہ‘‘ میں استعمال کی ہے، وہی بحر اس دوسری نظم ’گلِ رنگیں‘ میں بھی استعمال ہوئی ہے۔ اس کی وجہ شائد یہ ہو کہ مناظرِ فطرت کی منظرکشی کرتے ہوئے ہر منظر کو چھ مصرعوں پر مشتمل ایک الگ صورت دی گئی ہے اور اس کی تشریح و تفصیل میں شعری لطافتوں کے ساتھ فلسفیانہ رنگ کی آمیزش کی گئی ہے۔ کلامِ اقبال تمام کا تمام زندگی آموز اور فلسفیانہ افکار و خیالات کا آئینہ دار ہے۔ اس نظم میں مغربی شعراء کے افکار کا رنگ بھی جھلکتا ہے۔ اس کے باوجود کہ ان نظموں کی خارجی ہیئت غزلوں کی سی نہیں لیکن ان کے داخل میں رنگِ تغزل صاف چھلکتا معلوم ہوتا ہے۔ ان نظموں کا دوسرا وصف نغمگی اور ترنم ہے جو ان کو پڑھ اور سن کر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔اقبال مناظر فطرت کے شیدائی ہیں۔ اس وسیع کائنات کے ظاہر میں جو حسن اور خوبصورتی پائی جاتی ہے اس کو اقبال نے بڑے گہرے فلسفیانہ انداز سے دیکھا اور شعر کی زبان میں بیان کیا ہے۔ گلِ رنگیں کو ہم سب نے بارہا دیکھا ہے لیکن اقبال نے جس نظر سے دیکھا اور محسوس کیا ہے، اس کے اظہار کا حسن، قابلِ صد ستائش ہے۔ نظم کے چاربند ہیں۔ پہلا بند یہ ہے:


(1)
تُو شناسائے خراشِ عُقدۂ مشکل نہیں
اے گُلِ رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیبِ محفل ہے، شریکِ شورشِ محفل نہیں
یہ فراغت بزمِ ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں مَیں سراپا سوز و سازِ آرزو
اور تیری زندگانی بے گدازِ آرزو
کسی بھی شعر کو سمجھنے کا آسانِ طریقہ یہ ہے کہ پہلے اس کو نثر میں ڈھال لیا جائے، پھر اس کے مشکل ٹکڑوں کو سلیس اردو میں تبدیل کر لیا جائے اور آخر میں اس کی تشریح، تفسیر یا تعبیر کی طرف توجہ دی جائے۔ مثال کے طور پر اس بند کے پہلے شعر کی نثر یہ ہوگی:’’اے گلِ رنگیں! تو (چونکہ) شناسائے خراشِ عقدۂ مشکل نہیں( اس لئے) شائد ترے پہلو میں دل نہیں‘‘۔۔۔اس کی سلیس اردو یہ ہوگی:’’اے رنگین پھول! تو چونکہ کسی مشکل گرہ کی خراش سے کبھی دوچار نہیں ہوا اس لئے میرے خیال میں تمہارے پہلو میں دل نہیں ہے‘‘۔


اور اب اس کی مختصر سی تشریح ملاحظہ کیجئے: پھول میں گرہیں نہیں ہوتیں۔ اس کی پتیاں، زردانہ اور رگ ہائے گُل وغیرہ صاف نظر آتی ہیں۔ ان میں کوئی عُقدہ یا کوئی گرہ ایسی نہیں ہوتی جس کو کھولتے ہوئے پھول کو خراش آ جائے۔۔۔ پھول کی اصل خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس کی ترتیب میں حسن اور رنگینی صاف جھلکتی ہے۔ لیکن اگر اس کو کھول کر دیکھنے کی کوشش کی جائے تو یہ پتی پتی ہو کر بکھر جاتا ہے۔ مغربی شعراء نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جب پھول کو کھولتے ہیں تو گویا اس کو قتل کر دیتے ہیں۔کسی مغربی شاعر (شائد ورڈز ورتھ) کا مشہور مصرع ہے: We murder to disect ۔۔۔یعنی جب ہم پھول کی ساخت کو مزید جاننے کے لئے اسے کھولتے اور درہم برہم کرتے ہیں تو گویا اس کو قتل کر دیتے ہیں۔۔۔ اقبال اس کے بعد مغربی شعراء سے ایک ہاتھ آگے نکل کر اس کا مقابلہ انسانی دل سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دل ایک ایسی چیز ہے جس کو ہزاروں چرکے لگتے ہیں، لاکھوں خراشیں آتی ہیں لیکن وہ نہ بکھرتا ہے، نہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے۔ وہ داغ داغ ہونے کے باوجود سالم رہ کر جس پامردی اور استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ مظاہرہ پھول سے نہیں ہو سکتا۔ پھول تو ذرا سی خراش آنے پر پتی پتی ہو کر بکھر جاتا ہے۔ یہ گلِ رنگیں کی گویا ایک منفی صفت ہے جو انسانی گلِ رنگیں (دل) سے مقابلے میں شکست کھا جاتی ہے۔
اگلے شعر میں بھی تقریباً اسی قسم کا خیال باندھا گیا ہے۔ کہتے ہیں اے گل رنگیں! تو اگرچہ باغ میں اُگا ہوا ہے لیکن باغ کی شورشوں میں شریک نہیں۔باغ کی شورشوں میں آندھیاں، تیز ہوائیں، حبس، سردی گرمی سبھی شامل ہیں۔ اور آخر میں باغ کو خزاں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھول ان ہنگاموں سے بے نیاز رہتا ہے۔ اور جب خزاں آتی ہے تو اس کو برداشت نہیں کرتا اور مرجھا اور بکھر جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں انسانی باغ (دنیا) میں جو خارجی اور داخلی ہنگامے بپا رہتے ہیں، انسان ان کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ بند کے آخری شعر میں بیان کی گئی ہے ۔کہا گیا ہے کہ میں وہ پھول ہوں جو اس چمن (دنیا) میں سراپا آرزو اور سرتاپا سوز و ساز ہوں لیکن گلِ رنگیں کی زندگی کسی گداز، کسی تڑپ اور کسی خراش سے بے خبر اور ناآشنا ہے۔


(2)
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہِ چشمِ صورت بِیں نہیں
آہ! یہ دستِ جفا جُو اے گُلِ رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ میں گُل چیں نہیں
کام مجھ کو دِیدۂ حکمت کے اُلجھیڑوں سے کیا
دِیدۂ بُلبل سے مَیں کرتا ہوں نظّارہ ترا
شاعر کہتا ہے کہ شاخ سے کسی پھول کو توڑ لینا میری عادت نہیں۔ میں تو صرف پھول کی شکل و صورت اور بناوٹ کا نظارہ کرتا ہوں اور بس!۔۔۔ اے پھول! تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ میں تجھے شاخ سے توڑ کر اپنے ہاتھ آلودہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں جفا جُو نہیں۔ تجھ پر ظلم نہیں کرتا۔ میں ’گُل چیں‘ نہیں ہوں، صرف ’گُل بیں‘ ہوں۔ میں تجھے توڑ کر یہ نہیں دیکھنا چاہتا کہ تیری ساخت کیا ہے۔ تیری پتیوں کو توڑ کر شمار نہیں کرتا۔ نہ ہی جاننا چاہتا ہوں کہ تجھے یہ رنگ و بو کیسے عطا ہوتی ہے۔ میں تو صرف بلبل کی آنکھ سے تیرا نظارا کرتا ہوں جو تجھے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی اور چہچہاتی رہتی ہے!


(3)
سَو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے
میری صورت تُو بھی اِک برگِ ریاضِ طُور ہے
میں چمن سے دُور ہوں، تُو بھی چمن سے دُور ہے
مطمئن ہے تُو، پریشاں مثلِ بُو رہتا ہوں مَیں
زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جستجو رہتا ہوں مَیں
اس بند میں شاعر پھول اور انسان کا باہمی موازنہ کرتا ہے ۔کہتا ہے کہ پھول کی تو سو زبانیں (پتیاں) ہیں لیکن پھر بھی وہ کوئی زبان نہیں کھولتا اور خاموش رہتا ہے لیکن انسان کی صرف ایک زبان ہوتی ہے اور وہ چار دانگ عالم میں شور مچاتا اور ہاوہو بلند کرتا رہتا ہے۔۔۔ دوسرے شعر میں انسان اور پھول کی دو خوبیوں کو یکساں قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بھی کوہِ طور کے باغ کی ایک برگ (پتی) ہوں اور تو بھی اسی باغ کی پتی اور حصہ ہے۔ انسان اور پھول کو باغِ طور کی ایک پتی کہہ کر ان میں ’خاموشی اور حیرت‘ کے یکساں اوصاف کی تشبیہ موجود ہے۔ حضرت موسیٰ نے ریاض طور پر جانے کے بعد جب جلوۂ طور دیکھا تھا تو زبان بند ہو گئی تھی اور غش کھا کر گر گئے تھے۔ پھول کی زبان بھی خاموش ہے اور وہ بھی گویا ریاضِ طور کا حصہ ہے۔۔۔ اس بند کے آخری شعر میں انسان اور گل کا مقابلہ کرکے انسان کی رفعت کو اوجِ ثریا تک پہنچا دیا ہے۔ کہتا ہے کہ پھول تو اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے لیکن انسان، پھول کی خوشبو کی طرح ساری کائنات میں پھیل جاتا اور گھومتا رہتا ہے، اس کو نجانے کس ’’حقیقت‘‘ کی تلاش ہے؟ اس کا ذوقِ جستجو ہمیشہ تازہ رہتا ہے اور وہ ہر لمحہ کوئی نہ کوئی ’’ نیا گل‘‘ کھلاتا رہتا اور نئی دنیائیں دریافت کرتا رہتا ہے۔


(4)
یہ پریشانی مری سامانِ جمعیت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغِ خانۂ حکمت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوت نہ ہو
رشکِ جامِ جَم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو
یہ تلاشِ مُتصل شمعِ جہاں افروز ہے
توسنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے
پھر شاعر اسی پریشانی اور جستجو کو سامانِ اطمینان بھی قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنا جگر جلاتا ہوں تو تب جا کر کہیں اس حکمت و دانش کی دنیا میں چراغاں ہوتا اور روشنی پھیلتی ہے۔۔۔ دوسرے شعر میں اسی مضمون کا تسلسل ہے۔ کہتا ہے کہ انسان بظاہر مظاہرِ فطرت کے سامنے ناتواں اور کمزور نظر آتا ہے۔ چاند، سورج، ستارے، پہاڑ، دریا، صحرا اور جنگل اگرچہ خوفزدہ کرنے والے مظاہر ہیں لیکن انسان ان کی پرواہ نہیں کرتا اور اپنی ناتوانی کے باوجود ان پر غلبہ حاصل کرتا ہے ۔ انسان حیرت کی آنکھیں کھول کر کائنات کی گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف رہتا ہے اور سراپا آئینہء حیرت ہے(شعراء آئینے کو حیران باندھتے ہیں کیونکہ اس میں مختلف اشیاء کا عکس نظر آتاہے، جواتنی مختلف، گوناگوں اور رنگا رنگ ہوتی ہیں کہ آئینہ خود سراپا حیرت ہو کر ان کو تکتا رہتا ہے) ایران کے ایک بادشاہ جمشید نے ایک پیالہ ایجاد کیا تھا جس میں ساری دنیا نظر آتی تھی۔ اس پیالے کو جامِ جمشید (یاجامِ جم) کہتے تھے۔ شاعر نے انسان کی حیرت کے شیشے کو جمشید کے شیشے(جام) سے زیادہ وقیع قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انسانی آئینہ جمشید کے آئینے سے کہیں زیادہ حیرت انگیز اور قابلِ رشک ہے۔ اگرچہ جمشید بھی انسان تھا لیکن انسان کا وصف یہ ہے کہ وہ ہر زمانے میں ہر دم نئے پیالے تخلیق کرتا رہتا ہے اور یہ نئے پیالے پچھلے پیالوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ اس نظم کا آخری شعر حاصلِ نظم اور کلام کا نتیجہ ہے۔ کہتا ہے کہ انسان کی یہ مسلسل تلاش اور جستجو ایک ایسی شمع ہے جو کائنات کو روشن رکھتی ہے یعنی ’جہاں افروز‘ ہے ۔ یہ جستجو گویا انسانی شعور و ادراک کے گھوڑے (توسن) کو دوڑنا سکھاتی ہے۔خرام اگرچہ بالعموم ہرنوں اور غزالوں کی چال بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس کا معنی ہے بڑے فخر اور نازو انداز سے قدم اٹھانا لیکن گھوڑا بھی بعض اوقات خرام کرتا ہے جیسا کہ ہم میلہ اسپاں میں دیکھتے ہیں جب ڈھول کی تھاپ پر گھوڑا ناچتا اور فخرو ناز کا اظہار کرتا ہے۔ انسان بھی جب اپنی کسی جستجو کو کامیاب ہوتا دیکھتا ہے تو خوشی اور فخر سے اس گھوڑے کی مانند خراماں خراماں چلتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اقبال کی یہ نظم چونکہ ان کے ابتدائی دو ر میں کہی گئی منظومات میں سے ایک ہے اس لئے اس میں مشکل ترکیبات و تشبیہات کی بھرمار ہے۔ لیکن یہ بھرمار طبیعت پر گراں نہیں گزرتی۔ اس میں مرکب در مرکباتِ اضافی کی کثرت ہے۔ مثلاً شناسائے خراشِ عقدہء ’مشکل‘ شریکِ شورشِ محفل، سوز و سازِ آرزو، غیر ازنگاہِ چشمِ صورت بیں، برگِ ریاضِ طور ،زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جستجو، چراغِ خانہ ء حکمت، رشکِ جامِ جم، تو سنِ ادراکِ انساں اور خرام آموز ایسے مرکبات ہیں جن کو مشکل کہا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کا کوئی طالب علم جب اقبال کی اردو کی اس پہلی شعری تصنیف (بانگ درا)کی اولین پانچ نظمیں پڑھتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اسے ان کی قرأت (Recitation) مشکل معلوم ہوتی ہے بلکہ اس کی تشریح (Explanation) بھی خصوصی توجہ مانگتی ہے۔ لیکن ان نظموں میں شعر و فلسفہ کی آمیزش اور صوت و صدا کا جو حسین امتزاج ملتا ہے اس سے لطف اندوز ہونے کے لئے اگر قاری ذرا ہمت اور محنت سے کام لے تو مقامِ اقبال اس کی رسائی سے دور نہیں رہے گا؟

مزید :

کالم -