آرمی چیف اور پی ٹی آئی چیف کی ملاقات!
آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ سے پھوٹنے والی ایک تازہ خبر یہ بھی تھی کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور عمران خان کی ملاقات ہوئی ہے۔ اس دو سطری ٹویٹ کے مطابق عمران خان کی یہ ملاقات جنرل صاحب کی پروموشن (بطور آرمی چیف) پر انہیں مبارک دینے کے لئے تھی۔ لیکن یہ پروموشن تو گزشتہ برس کے اواخر میں ہوئی تھی، موجودہ برس کے اوائل میں مبارکبادکا یہ احیاء چار ماہ بعد ہوا تو یہ ایک بالکل نئی بات اور جدید تر اختراع ہی سمجھی جائے گی جس کا مفہوم مجھے کسی سول ملٹری ڈکشنری میں نہ مل سکا۔لیکن جنرل آصف غفور کے ٹویٹ میں تو یہی لکھا تھا۔ اسے پڑھ کر میرے ذہن میں دو ہی باتیں آ سکیں:ایک یہ کہ یا تو پاکستان آرمی مبارک بادیاں وصول کرنے کی ٹائمنگ بھول چکی ہے یا دوسری یہ کہ ملاقات کا سبب مبارکباد نہیں تھا، کچھ اور تھا۔ اور اگر کچھ اور تھا تو ’’مبارک سلامت‘‘ کا سہارا کیوں لیا گیا۔ اس قسم کے نحیف اساس سہارے پاکستان آرمی جیسے مضبوط اساس ادارے کی طرف سے نہیں آنے چاہئیں تھے۔ امید ہے ڈی جی آئی ایس پی آر، آئندہ ایسے ٹویٹ سے پرہیز فرمایا کریں گے جن کی اثابت کمزور بنیادوں پر استوار سمجھی جا سکتی ہو۔ اس ملاقات کی درجنوں وجوہات پروموشن کی مبارک دینے کے علاوہ بھی ہو سکتی تھیں۔
اس ٹویٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس ایک گھنٹے کی مبارکبادی ملاقات میں کئی اور ملکی اور بین الاقوامی موضوعات بھی زیر بحث آئے۔ میرے خیال میں اصل سببِ ملاقات یہی تھا اور پروموشن کی مبارک والا قصہ محض ایک فسانہ یا بہانہ تھا۔ پروموشن کی ہنستی کھیلتی اور مسکراتی فضاؤں سے ملکی یا بین الاقوامی موضوعات کی سنجیدہ فضاؤں کی طرف چھلانگ لگانے کے تصور سے ایک شعر ذہن میں آ رہا ہے۔۔۔ یہ شاعر لوگ بھی عجیب وغریب مخلوق ہوتے ہیں۔ نجانے لفافہ دیکھ کر خط کا مضمون کیوں بھانپ لیتے ہیں اور کہہ جاتے ہیں:
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا مجھے تو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ
میں سوچنے لگا عمران خان نے مسکرا کر مبارک باد دی ہو گی تو اس کے جواب میں جنرل صاحب نے کتنا طویل یا کتنا مختصر شکریہ ادا کیا ہوگا اور اگر اس شکریئے کو بہت طول بھی دے لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ دو تین منٹ لگے ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ باقی57، 58منٹ کس بات پر لگے؟ کیا کیا موضوعات زیر بحث آئے۔۔۔ اور مسکراہٹوں اور سنجیدگیوں کی ’’دیگر کیفیات‘‘ کیا رہیں؟
ایک ریٹائرڈ سینئر آرمی آفیسر سے کل ملاقات ہوئی جو مجھ سے بھی پہلے ریٹائر ہو چکے تھے۔ میں نے ازراہِ تعجب ان سے پوچھا کہ عمران خان کو تو چار چھ ماہ بعد اچانک مبارک باد دینے کا کیوں خیال آیا؟ کیا دال میں کچھ کالا ہے؟ کیا حالیہ ایام میں کسی حقیقتِ منتظر کے لباسِ مجاز میں نظر آنے کے کوئی آثار دکھائی دے رہے ہیں؟۔۔۔ آخر کچھ تو ہو گا جس کو مبارک بادی کی ’’پردہ داری‘‘ میں ملبوس کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے میرے سوال کو غور سے سنا اور عینک کے شیشوں سے جھانکتی ہوئی ان کی موٹی موٹی آنکھیں زیادہ موٹی نظر آنے لگیں۔ بولے: ’’جیلانی! فارسی میں ایک ضرب المثل یا محاورہ ہے ’من نکردم شما حذر بکنید‘۔۔۔ یہ ملاقات مجھے اسی محاورے کی تشریح نظر آتی ہے۔ یہ ملاقات جنرل راحیل شریف کے دور میں بھی ہو سکتی تھی۔ تب ایسا کیوں نہ ہوا؟20نومبر 2016ء سے پہلے راحیل۔ عمران ملاقات، اس حالیہ باجوہ ۔ عمران ملاقات سے کم تعجب خیز شمار کی جاتی۔‘‘
’’لیکن سر! یہ ملاقات وزیراعظم کی مرضی کے بغیر کیسے ممکن ہے؟ کیا جنرل راحیل کے زمانے میں یہ پرسپشن عام نہیں تھا کہ وزیراعظم کی حکومت جنرل صاحب کے ساتھ گھی کچھڑی نہیں؟ اور کیا یہ تاثر آج موجود نہیں کہ وزیراعظم اور آرمی چیف ایک ہی صفحے پر ہیں؟ لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ یہ ملاقات یا تو خود وزیراعظم کی ایماء پر کی گئی ہے یا خود جنرل باجوہ نے اپنے وزیراعظم کو اعتماد میں لے کر کی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آرمی چیف از خود اس ملاقات کا اہتمام کریں۔ ٹویٹ میں تو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ یہ ملاقات کہاں ہوئی۔ کیا جی ایچ کیو میں؟کیا کسی آرمی آفیسرز میس کے کمرے میں؟ کیا بنی گالہ میں؟ کیا کسی سیاسی شخصیت کے گھر میں؟ کیا کسی ایسی جگہ جو از بس غیر جانبدار ہو؟۔۔۔‘‘میں نے ایک سانس میں یہ سارے سوال داغ دیئے۔
یہ سن کر وہ کہنے لگے: ’’جیلانی! مجھے واقعی لگتا ہے وزیراعظم کو اعتماد میں لئے بغیر آرمی چیف اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اور دوسری بات اس ملاقات کا پبلک کرنا بھی ہے۔ سوال یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کیا یہ ملاقات پوشیدہ نہیں رکھی جا سکتی تھی؟ ایسی کیا مجبوری تھی کہ اس ملاقات کو پبلک کرنا پڑا؟ کیا آئی ایس پی آر کی اس ٹویٹ کو ارادی افشائے راز سمجھا جائے؟ کیا اس کا تعلق پاناما لیکس یا ڈان لیکس سے جوڑا جائے؟ کیا عمران خان کا یہ پبلک بیان کہ قوم کو خوشخبری ہو کہ فوج جمہوریت کے ساتھ ہے ایک کثیر الاطراف اور کثیر المعانی تبصرے کے علاوہ ذومعنی یا کثیر الشکوک تبصرہ نہیں تھا؟ اس کے کیا کیا مثبت یا منفی معانی نکالے جا سکتے ہیں؟ کیا آرمی چیف اس ماہ ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس میں ڈان لیکس کے سوال پر اپنے ساتھیوں کو کوئی ’’کلیئر کٹ‘‘ جواب دینے کے لئے اس ملاقات میں گئے تھے؟۔۔۔ یہ سارے سوال میرے اندازے اور تخمینے ہیں۔ اندازوں کا کیا ہے وہ بے سروپا بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کسی بدیہی سوال کا کوئی مسکت جواب دکھائی نہ دے تو اندازوں کا افق زیادہ وسیع ہو جاتا ہے۔ دیکھئے ناں! جیلانی صاحب! جنرل جہانگیر کرامت بھی آرمی چیف تھے۔ ان کی کسی غیر آئینی تجویز پر ہی وزیراعظم کا ناراض ہو جانا اور اس حد تک چلے جانا کہ اپنے آرمی چیف سے اس کی وضاحت مانگ لیں اور پھر آرمی چیف کا ان حالات میں مستعفی ہونے کو ترجیح دینا کیا ہماری تاریخ کا حصہ نہیں؟ کیا آج کے جنرل باجوہ کے وزیراعظم گزرے کل کے جنرل جہانگیر کرامت کے وزیراعظم نہیں تھے؟۔۔۔ اگر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے تو ہمارے جنرل باوجوہ کی عمران خان سے یہ ملاقات خالی از علت نہیں!‘‘
اسی ’’علت‘‘ کے حسن و قبح پر تادیر باتیں ہوتی رہیں۔ کسی بھی سروس چیف کا اول تو کسی سیاسی لیڈر سے ملنا ملٹری کلچر میں تقریباً Taboo سمجھا جاتا ہے اور حاضر سروس آرمی چیف کا ایک ایسے سیاسی لیڈر سے ملنا ایک انتہائی متنازعہ ’’ملاپ‘‘ نہیں سمجھا جائے گا جس نے ماضی ء قریب میں 126 دنوں کے ریکارڈ دھرنے میں وزیراعظم کے خلاف ریکارڈ منہ زوریوں کا مظاہرہ کیا ہو جو وزیراعظم کو سپریم کورٹ میں لے گیا اور کئی ماہ تک سپریم کورٹ کے پانچ فاضل جج دوران سماعت ایسے ایسے ریمارکس دیتے رہے ہوں کہ ان کے معانی و مفہوم کو مختلف لوگوں نے مختلف پیرائے میں لیا ہو۔ اس مسئلے پر دو تین دنوں سے میڈیا پرکئی ٹاک شو منعقد ہوئے اور جیسا کہ ہمارے ہاں دستور ہے ان کا کوئی حتمی تجزیہ سامنے نہ آ سکا۔ کل کلاں جب پاناما لیکس اور ڈان لیکس کا کوئی حتمی نتیجہ سامنے آیا تو نجانے کتنے دنوں بلکہ ہفتوں تک میڈیا والے انہی موضوعات کی جگالیاں کرتے رہیں گے۔میرے خیال میں جو فیصلہ بھی ان دونوں مقدمات یا موضوعات پرآئے گا اس کے فوراً بعد آئی ایس پی آر کو ٹویٹ سے آگے نکل کر ملٹری کا موقف عوام کے سامنے رکھنا ہوگا۔ ٹویٹ کے ایک دو مختصر اور ناتمام سے فقروں سے بات نہیں بن سکے گی۔اس کے لئے ایک مشترکہ سول ملٹری میڈیا کانفرنس منعقد کرنی ہوگی۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو یعنی سول اور ملٹری استدلال یا موقف میں اختلاف ہو تو ملٹری کو اپنا موقف ظاہر اور ثابت کرنے کے لئے ایک مدلل اور جامع پریس کانفرنس منعقد کرنا پڑے گی۔ خدا کرے اس کی نوبت نہ آئے لیکن اس کا دارومدار فاضل عدالت عظمیٰ پر ہے۔ یعنی اس کا فیصلہ کتنا اجتماعی اور کتنا براہین قاطع پر استوار ہوتا ہے اور جہاں تک ڈان لیکس کا تعلق ہے تو اس پر ’’اتفاق رائے‘‘ کی جو قدغن لگا دی گئی ہے اس سے حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ آرمی کو اس حکومتی موقف کا کھوکھلا پن صاف نظر آ رہا ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک سے زیادہ ملٹری گریژنوں میں اپنے دوروں کے دوران ینگ افسروں کی جانب سے ڈان لیکس کے موضوع پر مشکل سوالوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی ایک سے زیادہ بار اس معاملے کی صدائے بازگشت سنائی دینے کی خبریں باہر آئیں۔ بالعموم کور کمانڈرز کانفرنس کے فیصلوں کی خبریں باہر نہیں آتیں۔ اگر یہ باہر لائی گئی ہیں تو ان کا ایک مقصد بھی ہوگا اور کیوں لائی گئیں اس کا جواب دینا بھی کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ چنانچہ خیال کیا جاتا ہے کہ آرمی چیف سے عمران خان کی ملاقات میں اس موضوع پر بھی ضروربات ہوئی ہوگی۔ لیکن اس کی تفصیل کیا تھی، کس فریق کا موقف کیا تھا اور کیا اونٹ کے کسی کروٹ بیٹھنے کا اشارہ بھی کسی فریق کی طرف سے آیا یا نہیں اس کی کوئی خبر لیک نہیں کی گئی۔ خود عمران خان نے جو خبرلیک کی ہے اور پاکستانیوں کو جو خوشخبری دی ہے کہ ملٹری جمہوریت کے ساتھ ہے اس کے کیا معنیٰ لئے جائیں ؟اس کی وضاحت کے لئے عمران خان کو زیادہ تفصیل بتانے پر تو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
آخر میں اپنی چھٹی (یا ساتویں) حس کا خلاصہ پیش کرنے لگا ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ:
1۔ پاناما لیکس کا فیصلہ جلد آنے کو ہے۔
2۔یہ فیصلہ پاکستان کی تاریخ بدل کے رکھ دے گا۔
3۔بہت سے اونچے برج زمین بوس ہو جائیں گے۔
4۔بہت سے شیر، بکری اور بہت سے عقاب، ممولے بن جائیں گے۔
5۔اسی ماہ اپریل کے وسط میں ماسکو میں جو کانفرنس ہونے جا رہی ہے اس کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان میں انڈیا کے اثر و رسوخ پر شدید زد پڑے گی بلکہ جو امریکی اور ناٹو فورسز ہمارے ہمسائے میں آکر بیٹھی ہیں اور بھارت کو چھتری فراہم کر رہی ہیں وہ 2017ء کے اواخر تک بوریا بستر گول کرکے اپنے اپنے وطن سدھار جائیں گی۔
6۔(2018ء تک) باجوڑ سے بلوچستان تک تعمیرِ دیوار (Fencing) مکمل کر لی جائے گی۔
7۔آپریشن ردالفساد، ضرب عضب سے بھی زیادہ کاری ثابت ہوگا جس میں پولیس، رینجرز اور آرمی کا جانی نقصان تو ہوگا لیکن 90سے 95فیصد ان دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جائے گی جو اس وقت پاکستان کے مختلف علاقوں کو محفوظ پناہ گاہیں (Safe Havens) بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
8۔ سوشل میڈیا کا نیٹ ورک توڑنے کے دوران بہت سے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیں گے تو ہم پاکستانیوں پر سخت حیرت (اور شائد ندامت بھی)طاری ہو ۔