ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگ وطن
سازش کا مقابلہ دانش مندی اور تدبیر سے کیا جاتا ہے۔ ننگِ آدمیت کے تصور کو بہت پہلے علامہ اقبالؒ نے ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگ وطن کے خوب صورت شعر میں سمجھا دیا تھا ۔جو لوگ پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ، ایسے ننگِ پاکستان لوگ ہی اصل میں علامہ اقبالؒ کے بتائے ہوئے ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگ وطن ہیں۔ گذشتہ سات دہائیوں کی طرح ایک مرتبہ پھر وطنِ عزیز سازشوں کے نرغے میں ہے ، بیرونی و اندرونی سازشوں کے نتیجے میں عوام کی طاقت سے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو گھر بھیجا جا چکا ہے، ہمیشہ کی طرح میاں محمد نواز شریف کا واحد قصور ان کی عوامی مقبولیت ہے جو ان بیرونی و اندرونی عناصر کو بری طرح کھٹکتی ہے۔ 1993ء اور 1999ء میں بھی انہیں اسی لئے گھر بھیجا گیا تھا اور 2017ء میں بھی، کیونکہ ڈگڈگی بردار سیاست دان اپنی تمام تر کوششوں کے باوجودمیاں محمد نواز شریف کو سیاسی طور پر تسخیر کرنے میں بری طرح ناکام ہو رہے تھے، اس لئے اس بار یہ لوگ سازشیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کو عدالتی عمل کے ذریعے نا اہل کروا دینا سازشوں کا نقطہ آغاز ہے، اختتام نہیں ۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کو سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا گیا ہے، بہت جلد انہیں اپنی اس غیر ذمہ دارانہ حرکت کا احساس ہو جائے گا۔ غلطی کا احساس ہوتے ہی نہ صرف سازشوں میں اضافہ ہو جائے گا،بلکہ وہ آل آؤٹ کشیدگی کی طرف بھی جائیں گے، کیونکہ تمام تر کوششوں کے باوجود میاں محمد نواز شریف اس وقت بھی نہ صرف سیاسی منظر نامے پر اسی آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہوں گے، بلکہ ان کی تمازت میں کئی گنا اضافہ بھی ہو چکا ہو گا۔ جیسے کوئی بھی جنگ جیتنے کے لئے ایک مضبوط قلعہ کی اہمیت ہوتی ہے، اسی طرح سیاسی جنگ جیتنے کے لئے ایک مضبوط سیاسی قلعہ چاہئے ہوتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کا سیاسی قلعہ پنجاب ہے۔ اس لئے ان کے لئے وفاق سے زیادہ پنجاب میں مضبوط ہونا اہم ہے۔ ویسے بھی پاکستان کا تقریباً 60 فیصد حصہ پنجاب ہے، اگلا سال الیکشن کا سال ہے اور یہ وہ وقت ہو گا، جب میاں محمد نواز شریف کو انتہائی مضبوط پنجاب کاقلعہ چاہئے ہو گا، جہاں ان کی مکمل اور ناقابلِ چیلنج سیاسی اور انتظامی گرفت ہو۔
سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد صوبہ پنجاب کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور اگلا سیاسی معرکہ پنجاب میں ہی ہو گا۔ اگر میاں محمد نواز شریف پنجاب میں ناقابلِ تسخیر رہتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں وفاقی حکومت سے دور نہیں رکھ سکتی، اسی لئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میاں محمد شہباز شریف کی پنجاب میں موجودگی کی اہمیت پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں میاں شہباز شریف کا سیاسی اور انتظامی رول وفاق سے زیادہ پنجاب میں درکار ہو گا۔ یہ درست ہے کہ عدالتی عمل کے ذریعے میاں محمد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے ہٹائے جانے کے بعد اعلان کیا گیا کہ 45 دن کی عبوری مدت کے لئے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم ہوں گے، اس کے بعد میاں محمدشہباز شریف قومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر مستقل وزیر اعظم بن جائیں گے، لیکن جب ایک مخلص اور قابل اعتماد ساتھی وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھال چکا ہے تو اسے وہاں سے ہلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ بہتر سیاسی حکمت عملی یہ ہوگی کہ آئندہ انتخابات تک شاہد خاقان عباسی ہی وزیر اعظم رہیں اور میاں شہباز شریف پنجاب کا قلعہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط کریں۔ میاں نواز شریف کی خالی ہونے والی سیٹ پر مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر جو بھی الیکشن لڑے گا، اس کی الیکشن میں جیت تقریباً یقینی ہے، اس لئے یہ سیٹ جیتنا تو مسئلہ ہے نہیں، اصل چیلنج تو پنجاب میں میاں محمد نواز شریف کی مکمل سیاسی اور انتظامی گرفت ہے، جس کے لئے پنجاب کی صوبائی حکومت کا میاں محمد شہباز شریف کے پاس رہنا ضروری ہے۔ یوں بھی حکومت کی موجودہ مدت کا آخری سال ان سینکڑوں پراجیکٹس کی الیکشن سے پہلے تکمیل کا سال ہے، جو میاں محمد نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف نے شروع کر رکھے ہیں، اس مرحلے پر ان پراجیکٹس کی بروقت تکمیل بہت ضروری ہے تاکہ اگلے سال کا الیکشن مسلم لیگ (ن) اپنی کارکردگی کی بنیاد پرجیتے۔ کیس اور وہ تمام عدالتی عمل، جس کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف کو محض ایک اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا ہے، اس پر بات کرنا وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ فیصلہ میرٹ پر نہیں آیا، بلکہ قانونی ماہرین کے نزدیک متنازعہ ہے۔
ان حالات میں میاں محمد نواز شریف کو تین محاذوں پر لڑائی لڑنا ہے ۔پہلا محاذ قانونی ہے، جہاں ان کے وکلا کی ٹیم اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کرے گی اور قانونی طور پر جو کچھ ممکن ہو، اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ دوسرا محاذ اخلاقی ہے، جس میں ان سیاست دانوں کا پردہ چاک کیا جائے گا جو خود توننگے ہیں، لیکن 63,62 کی برہنہ شمشیر سے شریف زادوں کا عمامہ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایسے سیاست دان اخلاقی طور انتہائی پستی میں گرچکے ہیں اور سازشیوں کا آلہ کار بن کر ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگ وطن کا گھناؤنا کردار ادا کر رہے ہیں۔اگر میر جعفر ننگِ بنگال اور میر صادق ننگِ دکن تھے تو آج کے سازشی ننگِ پاکستان ہیں۔ تیسرا محاذ سب سے اہم ہے اور وہ ہے سیاسی محاذ، میاں محمد نواز شریف کو اپنی 90 فیصد توانائی سیاسی محاذ پر ہی خرچ کرنی ہے۔
قانونی اور اخلاقی محاذ پر 10 فیصد سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت اس لئے نہیں ہے، اصل فیصلہ تو سیاسی میدان میں ہی ہونا ہے، دوسرے یہ کہ قانون اور اخلاق کا فیصلہ تو تاریخ نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قانونی لڑائی قانونی ماہرین اور اخلاقی لڑائی میڈیا مینجمنٹ کے حوالے کرکے اصل فیصلہ عوام اور آنے والے مورخین پر چھوڑ دینا چاہئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ریاستی اداروں کی طرف سے دلائی گئی، جیت عارضی اور عوام کی فتح مستقل ہوتی ہے، یقین نہ آئے تو دیکھ لیجئے کہ کیا غلام محمد کی فتح مستقل ہوئی یا خواجہ ناظم الدین اور مولوی تمیز الدین خان کی؟ تاریخ نے اسکندر مرزا کو زندہ رکھا یا حسین شہید سہروردی کو؟ فیلڈ مارشل ایوب خان کو ریاستی اداروں نے صدارتی انتخاب جتوایا، لیکن تاریخ نے محترمہ فاطمہ جناح کو زندہ رکھا، چاروں فوجی آمر ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ساتھ تاریخ کیا سلوک کر رہی ہے اور ان کا مقابلہ کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف آج عوام اور تاریخ کے نزدیک کس مقام پر ہیں؟ باقی کردار تو اب اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن میاں محمد نواز شریف آج بھی پاکستان کی سب سے بڑی زندہ تاریخی حقیقت ہیں۔ اگر میاں محمد نواز شریف کا سیاسی اور تاریخی قد کاٹھ دیکھنا ہو تو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اکٹھا کر لیں تووہ میاں محمد نواز شریف کے برابر بنتا ہے۔
بہت سیدھا سا حساب ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک بار اور بے نظیر بھٹو کو دو مرتبہ ریاستی اداروں نے عوام کے منتخب کرنے کے باوجود ہٹایا، لیکن یہی عمل تین مرتبہ تن تنہا میاں محمد نواز شریف کے ساتھ دہرایا گیا۔ آپ صرف پاکستان کی نہیں، بلکہ پوری دنیا کی موجودہ اور سابقہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ، کیا میاں محمد نواز شریف کے سوا پوری دنیا میں ایک بھی لیڈر ایسا ہے، جسے عوام نے تین بار دو تہائی اکثریت سے منتخب کیا اور تینوں بار انہیں بیرونی و اندرونی سازشوں کے ذریعے ہٹایا گیا ہو۔ میاں محمد نواز شریف کے خلاف سازشیں کرنے والے یہ چھوٹا سا نکتہ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے کہ عوام میں مقبول اور محبوب لیڈر کو ٹینکوں تلے روندا جاسکتا ہے اور نہ ہی قانونی درفنطینوں سے گھر بھیجا جا سکتا ہے۔یہاں 1993ء اور 1999ء کی تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس ملک کے بچے بچے کو ازبر ہے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ اولڈ پیپلز ہوم بھیجے جانے کے لائق صدر یا نام نہاد کمانڈو جیسی کی گئی غلطیوں کو 2017ء میں دہرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا،خواہ وہ بالواسطہ ہوں یا بلا واسطہ، اگر میاں محمد نواز شریف کو سازشوں کے ذریعے ہٹانے کا طریقہ کار کارگر ہوتا تو دو دہائیاں پہلے ہی کامیاب ہو چکا ہوتا۔ یہ وہ وقت ہے کہ ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگ وطن سازشیوں کو ناکام بنانے کے لئے میاں محمد نواز شریف مکمل تدبر اور حوصلے کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مضبوط قلعے پنجاب پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط کریں ۔ تاریخ تو اپنا فیصلہ کرتی رہے گی، میاں محمد نواز شریف اپنی قانونی اور میڈیا مینجمنٹ ٹیموں کو ان کے حصے کا کام ان کے حوالے کرکے پوری طاقت کے ساتھ پنجاب میں اپنی سیاسی لڑائی لڑیں، چونکہ وفاق میں انتہائی قابلِ اعتماد ساتھی وزیر اعظم ہے، اس لئے انہیں انتخابات تک برقرار رکھتے ہوئے پنجاب کی کمان میاں محمد شہباز شریف کیپاس ہی رہنے دیں، تاکہ پنجاب کے کام شہباز سپیڈ سے جاری رہیں اور میاں محمد نواز شریف پارٹی کے ساتھ وفاقی اور پنجاب حکومت کی قیادت جاری رکھیں تاکہ اگلے سال ہونے والے الیکشن میں ننگِ ملت، ننگِ دیں، ننگ وطن سازشیوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔