کیا دہشت گردی روکی جا سکتی ہے؟ (1)
ایگری کلچرل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (زرعی تربیتی ادارہ) پر یکم دسمبر کو جو حملہ ہوا یہ اس اعتبار سے بھی قابلِ نفرت تھا کہ اس روز12ربیع الاوّل تھی جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت بھی تھا۔
کسی کو سان گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس یومِ مبارکہ پر کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو خاک و خون میں تڑپا دے گا۔ اس روز حملہ آور بھی باریش کلمہ گو تھے اور جو 9افراد شہید ہوئے وہ بھی تمام کے تمام کلمہ گو مسلمان تھے۔ تازہ ترین خبر یہ دی گئی ہے کہ پولیس کی تحقیقات کے مطابق تینوں حملہ آور دہشت گردوں کو بتایا گیا تھا کہ یہ زرعی تربیتی ادارہ دراصل انٹیلی جنس ایجنسی کا کوئی دفتر ہے اور اس کو نشانہ بنانا عینِ اسلام اور حقیقی مسلمانی کی روح ہے، کیونکہ انٹیلی جنس کا تعلق پاک فوج سے ہے اور پاک فوج ہی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہے! تحریکِ طالبانِ پاکستان کا موقف بھی یہی ہے اور اسی موقف نے پاکستان کو عرصۂ دراز سے مبتلائے عذاب کر رکھا ہے۔
ایک ہی سین ہے جو بار بار مختلف وقفوں سے قوم کے سامنے آتا رہتا ہے۔ کسی بھی جگہ، کسی بھی ادارے پر جب حملہ ہوتا ہے تو خود کش بھی ہلاک اور معصوم اور بے گناہ جانیں بھی ضائع۔۔۔۔ کس کس سانحے کو یاد کروں؟ آپ سب جانتے ہیں کہ اب اس قسم کے سانحات پر قوم کا ردعمل ایکSOP(سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر) بن چکا ہے۔
ٹی وی کی سکرینیں گھروں میں بیٹھے ناظرین و سامعین کے سامنے مقامِ حادثہ کی رئیل ٹائم روئیداد نشر کر رہی ہوتی ہیں۔پھر ایک دو روز تک تبصرے اور تجزیئے کئے جاتے ہیں،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر طرح طرح سے اظہارِ افسوس کیا جاتا ہے،حکومت کے بیانات آتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، مٹھی بھر دہشت گرد پاکستان کے 22 کروڑ عوام کا عزم متزلزل نہیں کر سکتے، سب کے سب ادارے اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک آخری دہشت گرد کو جہنم رسید نہیں کر دیا جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس کے بعد اعلان ہوتا ہے کہ شہید ہونے والوں کے ورثا کو دس دس لاکھ روپے اور زخمیوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے خزانۂ عامرہ سے نقد امداد دی جائے گی۔۔۔۔ یہ کارروائی وقوعِ حادثہ سے 72گھنٹوں کے اندر اندر مکمل کر لی جاتی ہے اور پھر چوتھے روز ساری قوم بھول جاتی ہے کہ شہید ہونے والے کون تھے اور حملہ آور جو مارے گئے وہ کون تھے،ان کو لانے والے کون تھے،پناہ دینے والے کون تھے، ٹریننگ کون دیتے تھے، اسلحہ اور سرمایہ کون فراہم کرتے تھے۔۔۔۔ اگر کوئی ان سانحات کے شہیدوں کو یاد رکھتا ہے تو وہ شہدا کے والدین اور وہ عزیز و اقارب ہوتے ہیں جو جانے والوں کے غم میں خود بھی یا تو جلد چلے جاتے ہیںیا عمر بھر چلے جانے کی دُعائیں مانگتے ہیں۔۔۔۔ جوان بیٹے آنکھوں سے دور ہوجاتے ہیں لیکن ماں باپ کی باطنی آنکھیں ان کو عمر بھر دور نہیں کر سکتیں۔
جب سے دہشت گردی کا یہ آسیب پاکستان پر طاری ہوا ہے ہم نے اس کے سامنے (تقریباً) ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ سات ہزار فوجیوں اور63ہزار سویلین کی قربانی دے کر بھی گزشتہ17 برسوں سے ہم نے اس سوال پر کبھی غور نہیں کیا کہ کیا یہ آسیب لا علاج ہے، کیا یہ آئے روز درجنوں بلکہ سینکڑوں گھرانوں کو ماتم کدہ بناتا رہے گا اور کیا اس کا توڑ واقعی ناممکن ہے؟۔۔۔ میں بھی آپ کی طرح اس موضوع پر غور کرتا رہا ہوں۔
میں اگرچہ نہ تو جدید سائنس یا ٹیکنالوجی کا طالب علم ہوں اور نہ کسی ایسے ادارے کا فارغ التحصیل ہوں جو ایسے جرائم کی تفتیش کرنے کے بعد آخر میں ان کے ممکنہ علاج کی سفارشات وغیرہ کرتا ہے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ دُنیا میں جتنی بھی حیرت انگیز سائنسی ایجادات اور دریافتیں ہوئی ہیں وہ ایسے انسانوں کے اذہان میں پیدا ہوئیں یا اُبھریں جن کا تعلق موضوع سے دور دور تک بھی نہ تھا۔۔۔۔کس کس کا نام لوں؟۔۔۔ تاریخِ ایجادات بتاتی ہے کہ ہر ایجاد کا تصور کسی ڈگری یافتہ سائنس دان کے ذہن کی پیداوار نہیں تھا۔ انسان کا ذہن در حقیقت ایک ایسی لیبارٹری ہے جس میں اول اول ہر ایجاد کی دھندلی دھندلی تصاویر اُبھرتی ہیں اور پھر دوسرے لوگ جو زیادہ باعلم اور ہنر مند ہوتے ہیں، وہ ان میں رنگ بھر کر اسے اِس قابل بنا دیتے ہیں کہ دُنیا کی نمائش میں رکھی جائیں اور قبولِ عام کا شرف پائیں۔
مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اگر امریکہ، روس، چین یا کسی اور ترقی یافتہ ملک کو یہ چیلنج درپیش ہوتا جو آج پاکستان کو ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آتا۔ انسان کا تن بہ تقدیر ہو کر بیٹھ رہنا، اس کو درجہۂ انسانیت سے گرا کر درجہۂ حیوانیت تک لے آتا ہے۔
انسانی ذہن تو ہر دم نئے آفاق تلاش کرتا رہتا ہے۔اس کی کارگہِ فکر میں ہر آن نئے انجم تخلیق پاتے ہیں اور وہ ستاروں سے آگے نکل کریزداں پر بھی کمندیں ڈالتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر آج کا پاکستانی ، تحریکِ طالبان کے سامنے سربسجود کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم ایک جوہری قوت ہوتے ہوئے بھی ہر روز درجنوں پاکستانیوں کی قربانیاں دینے پر مجبور ہیں۔
میں نے کسی ٹی وی ٹاک شو پر یہ موضوع ڈسکس ہوتے نہیں دیکھا کہ اس آسیبِ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا کوئی مجرب نسخہ بھی کسی پاکستانی ذہن کے امکان میں آیا ہے یا نہیں؟
میں سوچتا رہا ہوں کہ دہشت گردی کا اصل سرچشمہ کہاں ہے؟۔کیا پاکستان کے اندر ہے یا باہر ہے؟ کیا اس کو روکا جا سکتا ہے،اگر روکا جا سکتا ہے تو کیا وجوہات ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرتے،ہماری اس ناکردگی کا اصل سبب کیا ہے،کیا حکومت واقعی اپنی نااہلی کی وجہ سے اس کی پرورش کر رہی ہے، کیا یہ افواجِ پاکستان کی دین ہے یا کیا واقعی یہ ایک ایسا جن ہے جس کو اب واپس بوتل میں بند نہیں کیا جا سکتا؟۔۔۔
بہت سے لوگ اور ادارے درج بالا سوالات پر غورو خوض کرتے رہے ہوں گے اور آج بھی شائد کر رہے ہوں گے،لیکن ایک گوشۂ فکر ایسا بھی ہے جس کو ابھی تک پوری طرح کھنگالا نہیں گیا، اس پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی اور اس گوشۂ فکر کے فروغ کے لئے جو اقدامات حکومتی یا نجی سطح پر اُٹھائے جا سکتے تھے وہ ہنوز اُٹھائے نہیں گئے۔۔۔ اس گوشۂ فکر کا تعلق دُنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی یعنی ’’ڈرون ٹیکنالوجی‘‘ سے ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے آفاق اتنے وسیع ہیں کہ دنیا بھر کے سائنس دانوں کو ابھی تک اس کی اصل قوت و تاثیر کا صرف دھندلا سا تصور ہی ہوا ہے۔لیکن افسوس کہ جس ملک کو اس ٹیکنالوجی کی شدید ترین ضرورت ہے، وہ شدید ترین سطح پر لاعلم ہے اور ہمارے جیسے جن ممالک کو اس کی کوئی فوری ضرورت نہیں، وہ اس پر شدید ترین عجلت اور احساسِ ذمہ داری سے عمل پیرا ہیں!
زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے
ارے غافل! جو مطلق تھا مقیدّ کر دیا تو نے
اب اس زرعی تربیتی ادارے کے حالیہ سانحے کے تناظر میں بات کرتے ہیں۔۔۔ فوج اور پولیس کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی فائنڈنگ (Finding) یہ ہے کہ اس حملے کے ماسٹر مائنڈ پاک افغان سرحد کے اُس پار بیٹھے تھے، حملہ آور ان کو اپنے موبائل(سمارٹ فون) کے کیمرے کی مدد سے لائیو اور رئیل ٹائم ویڈیوز بھیج رہے تھے اور سرحد پار سے ہدایات لے رہے تھے،۔۔۔ اگر یہ بات درست بھی ہو تو درجِ ذیل سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں:
-1 کیا حملہ آور سلیمانی ٹوپی پہن کر سرحد پار کر آئے تھے؟
-2 ان کو ٹریک کیوں نہ کیا گیا؟
-3 پاکستانی سرحد کے اندر ان کے سہولت کار کون تھے اور ان کو کیوں شناخت یا ٹریک نہیں کیا گیا؟
ان تینوں سوالوں کی ’’مادرِ مہربان‘‘ یہ سوال بھی ہے کہ کیا حملہ آوروں،ان کے ماسٹر مائنڈز اور سہولت کاروں کو بروقت پکڑ کر ’’جہنم رسید‘‘ نہیں کیا جا سکتا تھا؟۔۔۔ میرا موقف ہے کہ کیا جا سکتا تھا بشرطیکہ ڈرون ٹیکنالوجی کے ان ممکنات سے استفادہ کیا جاتا جو آج انسانی گرفت میں ہیں لیکن پاکستانی گرفت میں نہیں۔ درج ذیل سوالوں پر ذرا غور کیجئے:
-1 پاک افغان سرحد پر جو جنگلہ بندی (Fencing) ہو رہی ہے اور جو پوسٹیں (یا قلعے) تعمیر کئے جا رہے ہیں کیا ان کے اوپر فضا میں ڈرون نہیں اڑائے جا سکتے؟
-2 کیا یہ ڈرون، افغانستان سے پاکستانی سرحد عبور کرنے والوں کی ریئل ٹائم ریکی نہیں کر سکتے؟
-3 کیا یہ ریکی معلومات پاکستانی سرحد کے اندر واقع کسی کنٹرول روم میں دیکھی، سنی یا مانیٹر نہیں کی جا سکتیں؟
-4 کیا ان حملہ آوروں کو پاکستانی سرحد کے اندر داخل ہو کر ان علاقوں کی طرف آتا جاتا نہیں دیکھا جا سکتا جو پاکستان کا حصہ ہیں؟
-5 کیا ان حصوں/علاقوں کے باسیوں کو بروقت گرفتار نہیں کیا جا سکتا؟
-6 کیا ایسے مسلح ڈرون، ایجاد و استعمال نہیں کئے جا سکتے جو کسی بھی حملہ آور کو سرحد پار ٹریک کر کے اُسے میزائل مار کر وہیں ہلاک کر سکیں؟
قارئین کرام! ان تمام سوالوں کا جواب اثبات میں ہے۔۔۔۔آج ڈرون ٹیکنالوجی اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں درج بالا سارے سوالات کا جواب ’’ہاں‘‘ میں دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو ہم اِس طرف توجہ کیوں نہیں دیتے؟ کیا ایسا کرنے میں ٹیکنالوجی کی مشکلات حائل ہیں؟ کیا اس کے لئے جو سرمایہ درکار ہے وہ ہمارے پاس نہیں؟ کیا ہمارے سائنس دان اس قابل نہیں کہ ایسے ’’ریکی اور مسلح‘‘(Recce & Armed) ڈرون تیار کر سکیں جو دونوں کام بیک وقت کر سکیں۔اگر پاکستان اس سمت کوئی پیشرفت کر بھی رہا ہے تو اس کی کچھوے کی چال کو کون کنٹرول اور مانیٹر کر رہا ہے؟کیا اسے جنگی بنیادوں(War Footing)پر ڈال کر اور دن رات ایک کر کے ایسے ڈرون نہیں بنائے جا سکتے جو سرحد پار سے آنے والے حملہ آوروں کو سرحد سے پیچھے ٹریک کر کے ہلاک کر سکیں؟ کیا ملا منصور اختر کا کیس ہم بھول گئے ہیں جس کی گاڑی کو ایرانی سرحد کے اندر سے ٹریک کر کے پاکستانی علاقے(نوشکی کے قریب) میں آنے دیا گیا تھا اور پھر میزائل مار کر گاڑی اور گاڑی سواروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا؟۔۔۔ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ کون سا فوجی یا سویلین ادارہ ہے جس کے ذمے یہ کام لگایا جا سکتا ہے اور پاکستان کے بے گناہ شہریوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں؟ (جاری ہے)