عدالت کے باہر عدالتیں

عدالت کے باہر عدالتیں
 عدالت کے باہر عدالتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اگرچہ نئے سال کے آغاز میں ہی ملک کو پانامہ لیکس کے کیس کی ہیجان خیزی نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے ، پانامہ لیکس کا کیس اگرچہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن فریقین نے عدالت کے باہر سیاسی عدالتیں سجائی ہوئی ہیں ، دونوں اطراف سے شور شرابا اتنا زیادہ ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ،ہوش کی بجائے جوش سے کام لیا جارہاہے ، ایسا لگتا ہے کہ فریقین بالخصوص پاکستان تحریک انصاف پانامہ معاملے پر قانونی سے زیادہ سیاسی مفادات کی خواہاں ہے قانونی نکات پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جارہی ہے ، یہ گمان ہوتا ہے کہ اس اہم اور حساس نوعیت کے ہائی پروفائل کیس میں سیاسی بیان بازی کے ذریعے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے جوانصاف کے تقاضوں کے منافی ہے ، ایک ایسی صورتحال پیدا کی جارہی ہے کہ جس فریق کے خلاف فیصلہ آئے عوامی عدالت میں متنازعہ بنا سکے، اگراس رجحان کو روکا نہ گیا تو پانامہ لیکس کا کیس ملک کو سیاسی لحاظ سے انتشار کا شکار کردے گا ،جبکہ 2016ء کا پورا سال ہی ہنگامہ خیزی اور مہم جوئی کا شکار رہا ، حکومت کے لئے بہت سی تلخ یادیں چھوڑ گیا ، حکومت کو بیک وقت کئی محاذوں پر مہم جوئی کا سامنا کرنا پڑا ، ایک طرف پانامہ لیکس کا طوفان اور اسلام آباد کا لاک ڈاؤن تو دوسری جانب کنٹرول لائن پر ہندوستان کی جارحیت ، اندرونی وبیرونی مخدوش صورتحال کے تناظر میں فوجی کمان کی اہم ترین تبدیلی کا مرحلہ بھی گزرا ، سال کا بیشتر عرصہ افواہوں اور بے یقینی کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں گزرا ، کئی بار الٹی گنتی بھی گنے جانے کے اشارے ملے لیکن حکومت ان تمام اعصاب شکن مراحل سے گزر گئی ، پاور پالیٹکس کے اس بے رحم کھیل میں حکمران اشرافیہ کا تو کوئی نقصان ہوا یا نہیں لیکن جمہور یت کا ضرور نقصان ہوا ، پاور پالیٹکس کی بساط بچھانے کا ذمہ دار کون ہے ؟ اس کا تعین کرنا مشکل کام ہے، کہا جاتاہے کہ وزیراعظم محمد نوازشریف نے اس بساط پر اپنے کارڈ احسن طریقے سے کھیلے ، ان کی حکومت اور جمہوریت تو ضرور بچ گئی لیکن اس کھیل میں جمہوری اقدار کو ضرور نقصان پہنچا۔


گزشتہ سال کا ہر روز سیاسی لحاظ سے ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا میچ تھا ، حتیٰ کہ سال کا آخری دن بھی اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا ، اس روز ایوان صدر میں ایک تقریب میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اپنے عہدہ کا حلف اٹھایا ، ان کے حلف کے روز ایوان صدر میں ملک کی تمام اعلیٰ ترین قیادت موجود تھی اور سب کے چہروں پرطمانیت بھی تھی ، اس تقریب کی اہم ترین بات یہ تھی کہ صدر مملکت ممنون حسین ، وزیراعظم محمد نوازشریف اور چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سب کی باڈی لینگویج بہت ریلیکس تھی بلکہ تقریب میں شریک بیشتر شرکاء کا خیال تھا کہ 2017ء کاسال حکومت کیلئے انتہائی کٹھن ثابت نہیں ہوگا جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار پہلے سے ہی انصاف کے اعلیٰ ترین معیار ات کی شہریت کی حامل شخصیت کے طورپر جانے جاتے ہیں اس تقریب میں وہ بھی خوشگوار موڈ میں تھے لگتا تھا کہ وہ پانامہ لیکس کے چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کیلئے تیار ہیں اگرچہ بد قسمتی سے ان کی آمد سے قبل ہی سوشل میڈیا پر قابل مذمت مہم چلائی گئی ہماری ان سے ایوان صدر میں ملاقات میں ان کے رویہ سے لگ رہا تھا کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے پر عزم ہیں اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائیں گے ، انہوں نے نہایت بے تکلفانہ انداز میں شرکا تقریب کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں او ر ہر شخص سے فراخدلی سے ملے ، جبکہ قبل ازیں صدر اور وزیراعظم کے ہمراہ چبوترے پر تمام مہمانان سے باری باری مصافحہ بھی کیا ، وزیراعظم کی تقریب سے رخصتی کے بعد بھی وہ شرکاء کے ساتھ تقریب کے آخر تک گھلے ملے رہے ان کے اہل خانہ بھی ہمراہ تھے ان کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ سول لاء پر دانش ورانہ حد تک دسترس رکھتے ہیں عدالتی ڈسپلن کو یقینی بنانے اور انصاف کی فوری فراہمی کے حوالے سے غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہیں ، وہاں پر موجود بعض اعلیٰ قانونی شخصیات کا خیال تھا کہ اب انصاف بھی ہوگا اور انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آئے گا ، اس حوالے سے انکا سب سے پہلا اقدام پانامہ لیکس کے بنچ کا حصہ نہ بننے کا سامنے آیا اور اس حوالے سے انہوں نے تمام شکوک و شبہات کو رد کردیا حالانکہ یہ شکوک و شبہات بھی غیر اخلاقی اور ناجائز تھے۔


اس تقریب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ بھی تمام مہمانوں سے اپنے فرینک روایتی انداز میں ملے ،راقم کا پاک فوج کے ان اعلیٰ ترین سپہ سالاروں سے ایک ذاتی حوالہ تھا اور دونوں شخصیات نے اسے تسلیم کیا ، یوم دفاع کے موقع پر راقم کی اتفاقا جنرل قمر جاوید باجودہ سے گپ شب ہوئی تھی ، انہیں نہ صرف وہ گفتگو یاد تھی بلکہ انہوں نے اس کا حوالہ بھی دیا اور پھر سینے سے لگاتے ہوئے بے تکلفانہ انداز میں غیر رسمی طورپر کہا کہ یار آپ لوگوں سے (صحافیوں سے )بات چیت کرنا خطر ناک ہے بلکہ ہنستے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں سے تو آف دی ریکارڈ بھی بات چیت نہیں کی جاسکتی ، اس موقع پر جنرل زبیر محمود حیات نے بھی میرے ساتھ اپنی پرانی ملاقاتوں کو یاد رکھا ہو ا تھا، مجموعی طورپر اس تقریب کا ماحول دیکھ کر لگتا تھا کہ شائد 2017ء حکومت کیلئے پر سکون ہوگا ، لیکن سال بدل گیا ماحول بدلا نہ سیاسی رویہ ، باالخصوص عدالت کے باہر لگنے والی سیاسی عدالتیں عدلیہ کی آزادی پر حملے سے کم نہیں، ان سیاسی عدالتوں نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کررکھا ہے ،اگر یہی صورتحال رہی تو ہمیشہ یہی سننے میں آئے گا کہ پاکستان ایک نازک دور سے گزررہا ہے۔

مزید :

کالم -