جنوبی پنجاب میں بڑھتا ہوا سیاسی شعورا ور پنجاب حکومت کی ترجیحات

جنوبی پنجاب میں بڑھتا ہوا سیاسی شعورا ور پنجاب حکومت کی ترجیحات
 جنوبی پنجاب میں بڑھتا ہوا سیاسی شعورا ور پنجاب حکومت کی ترجیحات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سانحہ احمد پور شرقیہ جب جلی ہوئی لاشوں کے ساتھ ساتھ زندہ بچ جانے والے زخمیوں کو زندہ لاشیں بنا کر رخصت ہوا تو ہر طرف سے یہ سوال کیا جانے لگا کہ صوبائی حکومت نے صوبے کے مختلف شہروں میں برن یونٹس بنانے کی طرف کیوں توجہ نہیں دی اور پھر ساتھ ہی تنقید کا یہ تڑکا بھی لگایا جاتا رہا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو میٹروبس اور اورنج ٹرین منصوبوں کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔ یہ الزامات بھی دہرائے گئے کہ جن منصوبوں میں بھاری کمیشن ملنے کا امکان ہوتا ہے صرف وہی بنائے جاتے ہیں، ان شعبوں پر قطعاً توجہ نہیں دی جاتی جو انسانی ضرورتوں کے حوالے سے انتہائی ناگزیر ہیں، لیکن ان میں سرمایہ کاری سے کمیشن ملنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اگرچہ یہ سب باتیں الزامات کی حد تک ہیں، انہیں کسی مصدقہ فورم پر ثابت نہیں کیا گیا۔ مگر چونکہ یہ سامنے کی حقیقتیں ہیں کہ سنگ و خشت کے منصوبوں پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے اور علاج معالجے، نیز تعلیم کے شعبوں پر توجہ کم ہے، اس لئے تنقید کے نشتر استعمال کرنا تو بنتا ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جنوبی پنجاب میں صرف نشتر ہسپتال ہی میں ایک برن سنٹر قائم ہے۔ یہ برن سنٹر بھی نام کا ہے، کیونکہ اس میں نہ تو اس شعبے کا تربیت یافتہ عملہ تعینات ہے اور نہ ہی اس کے لئے بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ مجھے ڈاکٹروں نے بتایا کہ جلے ہوئے مریضوں کو فوری طور پر ایک انجکشن لگانے کی ضرورت ہوتی ہے، جو ساڑھے آٹھ ہزار روپے کا آتا ہے، لیکن جب احمد پور شرقیہ کے زخمیوں کو یہاں لایا گیا تو یہ انجکشن موجود ہی نہیں تھا۔ اپنی مدد آپ اور چند مخیر حضرات کے تعاون سے یہ انجکشن منگوا کر مریضوں کو لگائے گئے۔ جہاں تک نشتر ہسپتال کے اس برن یونٹ میں سہولتوں کا تعلق ہے تو اس کا اندازہ آپ اس امر سے لگائیں کہ اب تک احمد پور شرقیہ کے 50 زخمی اس برن یونٹ میں جاں بحق ہو چکے ہیں جو ابھی داخل ہیں، ان کے بارے میں بھی ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس برن سنٹر میں نہ تو تربیت یافتہ عملہ ہے اور نہ ہی وہ اعلیٰ معیار کی ادویات یا آلات دستیاب ہیں جو ستر یا اسی فیصد جلے ہوئے مریضوں کی جان بچانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔


حکومت پنجاب نے جاں بحق افراد اور زخمیوں کے لئے جو امدادی رقم منظور کی ہے، وہ کم از کم پچاس کروڑ روپے بنتی ہے۔ گویا ہم مرنے والوں کے لواحقین کو کروڑوں روپے دے سکتے ہیں، ہسپتالوں میں زندہ افراد کے لئے اسی رقم سے برن یونٹ قائم نہیں کر سکتے۔ جنوبی پنجاب کی آبادی کم و بیش 6 کروڑ ہے۔ دنیا میں اس آبادی کے حامل چند ہی ملک ہوں گے۔ اتنا بڑا صوبہ اور اختیارات صرف لاہور تک محدود۔ پھر ترجیحات بھی ایسی کہ جو آبیل مجھے مار کے مصداق پنجاب حکومت کے لئے تنقید کے در کھول دیتی ہیں۔ سانحہ احمد پور شرقیہ جیسے واقعات ایک فلاحی حکومت کا دعویٰ کرنے والی حکمرانی کو بے نقاب کر دیتے ہیں۔ اب کہا یہ جا رہا ہے کہ بہاولپور وکٹوریا ہسپتال میں چودھری پرویز الٰہی نے ایک برن یونٹ بنانے کا منصوبہ شروع کیا تھا جو وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے آکر رکوا دیا۔ ہو سکتا ہے یہ الزام ہی ہو، لیکن اس وقت تو زمینی حقائق یہی ہیں کہ شہباز شریف کے دور میں یہاں کے کسی ہسپتال میں کوئی نیا برن یونٹ قائم نہیں کیا گیا۔ اگرچہ اس سانحہ کے بعد انہوں نے نشتر ہسپتال کے دورے میں یہ اعلان ضرور کیا کہ جنوبی پنجاب کے ہر ڈویژنل صدر مقام پر برن یونٹ قائم کیا جائے گا۔ گویا وہ چار برن یونٹ قائم کرنے کا اعلان کر گئے۔ کاش یہ بات پہلے ان کی ترجیحات میں ہوتی۔ ملتان میں جب 28 ارب روپے کی لاگت سے میٹرو بس منصوبہ بنایا جا رہا تھا، تب بھی ہر شخص کی زبان پر یہی مطالبہ تھا کہ اس کی بجائے یہ خطیر رقم نئے ہسپتال اور یونیورسٹیاں بنانے پر خرچ کی جائے۔ اس رقم سے جنوبی پنجاب میں نشتر ہسپتال جیسے کم از کم چھ ہسپتال بن سکتے تھے، مگر کسی کی نہ سنی گئی اور یہ منصوبہ جاری رہا۔ عجلت کا یہ عالم تھا کہ اس کا روٹ بھی ڈھنگ سے نہ بنایا گیا۔ ایک ایسا روٹ بنایا گیا جس کی افادیت دوپہر دو بجے کے بعد صفر رہ جاتی ہے۔ شہر کی مرکزی جگہوں، یعنی ہسپتال، ریلوے سٹیشن، ایئر پورٹ اور کارڈیالوجی سنٹر سے تقریباً دس میل دور واقع میٹرو بس اسٹیشن سر شام منہ چڑا رہے ہوتے ہیں اور مسافر ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ پھر جلد بازی میں بنائے گئے اس منصوبے کا معیار بھی گھٹیا ثابت ہوا۔ ابھی چند ماہ نہیں ہوئے کہ اس کے روٹ پر سڑکیں اُدھڑنے لگی ہیں اور گڑھے پڑ گئے ہیں۔

وزیر اعلیٰ شہباز شریف ایک جہاندیدہ منتظم اور سیاستدان ہیں، نجانے انہوں نے یہ بات کیوں نظر انداز کر دی کہ احساس محرومی اب ملتان کا مسئلہ نہیں، جنوبی پنجاب کے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے کروڑوں افراد کا دکھ ہے۔ وہ اس منصوبے کی بجائے اگر اپنی ترجیحات کا دائرہ پورے جنوبی پنجاب کی ترقی تک پھیلا دیتے اور یہی تیس ارب روپے جنوبی پنجاب میں ہسپتال اور تعلیمی ادارے بنانے پر صرف کرتے تو آج ان کے اس دعوے میں بے پناہ سچائی ہوتی کہ انہوں نے جنوبی پنجاب کی ترقی کے لئے خزانے کا منہ کھول دیا ہے۔۔۔ ابھی کل ہی ایک خبر نظر سے گزری ہے، جس میں بتایا گیا تھا کہ حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی سکیموں کے لئے بے تحاشہ فنڈز فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس قسم کی ہڑبونگ یا لوٹ سیل کبھی ترقی کا باعث نہیں بنتی۔ اگر یہ معاملہ ارکان اسمبلی پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اجتماعی ترقی کے منصوبوں سے زیادہ اپنے سیاسی مفاد کے منصوبوں پر توجہ دیتے ہیں، پھر یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ وہ ایسے منصوبے منظور کراتے ہیں، جن سے ان کا مالی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ جب تک حکومتی سطح پر مختلف علاقوں کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھ کر منصوبے نہیں بنائے جاتے، اس وقت تک نہ تو احساسِ محرومی ختم ہو سکتا ہے اور نہ ہی حکومت پنجاب کوئی سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں تین شعبے ایسے ہیں جو پسماندگی اور محرومی کے احساس کو بڑھا دیتے ہیں۔ سب سے پہلے صحت کا شعبہ ہے،جو اس خطے کے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ دل، کینسر، امراضِ گردہ اور جلنے والے مریضوں کے علاج معالجے کی سہولتوں کو ہر ڈویژنل صدر مقام پر یقینی بنایا جانا چاہئے۔ دل کے امراض کا صرف ایک ہسپتال ہے، جو چودھری پرویز الٰہی نے ملتان کو دیا تھا۔ کینسر کے علاج کی سہولت یکسر ناپید ہے، برن یونٹس کی صورت حال پہلے ہی سامنے آ چکی ہے۔ جہاں تک امراض گردہ کے لئے کڈنی سنٹرز کے قیام کا معاملہ ہے تو بڑی مشکل سے ایک کڈنی سنٹر ملتان میں قائم کیا گیا تھا، اب اسے بھی ایک پرائیویٹ تنظیم کو دے دیا گیا ہے، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے ہسپتال ڈیرہ غازیخان اور بہاولپور میں بھی قائم کئے جائیں اور ملتان کے کڈنی سنٹر کو کمرشل بنیادوں پر چلانے کی بجائے عام مریضوں کی دسترس میں رکھا جائے۔اس ضمن میں اور بھی بہت سی باتیں کی جا سکتی ہیں، لیکن بنیادی بات یہی ہے کہ پنجاب جیسے بڑے صوبے کو چلانے کے لئے ترجیحات کا تعین بے حد ضروری ہے۔ خاص طور پر صوبے کی آدھی آبادی والے حصے کو نظر انداز کر کے گڈ گورننس کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا، پھر خود سیاسی حوالے سے بھی یہ بات بڑی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں لوگوں کا سیاسی شعور اور اپنے حقوق کا احساس دو چند ہو چکا ہے اب خالی خولی دعوؤں سے کام نہیں چل سکتا، بلکہ عملی اقدامات اور ان کے نتائج ہی عوام کو مطمئن کر سکتے ہیں۔ کیا یہ پہلو وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی نظر میں ہے؟

مزید :

کالم -