آپریشن رد الفساد اور پنجاب
پاکستان کی فوج نے وطنِ عزیز کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لئے پورے ملک میں آپریشن رد الفساد شروع کر دیا ہے۔اس سے پہلے ملک کے مختلف حصوں میں فوجی آپریشن ہوتے رہے ہیں، لیکن پہلی بار ہوا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی آپریشن کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلی بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پنجاب میں بھی آپریشن اتنا ہی ضروری تھا جتنا ملک کے دوسرے صوبوں یا علاقوں میں، مجھے نہیں معلوم کہ گذشتہ کئی برسوں میں جب بھی کہیں نہ کہیں فوجی آپریشن شروع کیا گیا تو پنجاب کو کیوں چھوڑ دیا جاتا رہا۔ گذشتہ برسوں کے دوران پنجاب میں بالخصوص لاہور میں دہشت گردی کی وارداتیں مسلسل ہوتی رہیں، لیکن یہاں آپریشن نہیں کیا گیا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ آپریشن رد الفساد پورے ملک میں شروع کیا گیا ہے ۔ دو سال سے زائد کا عرصہ گذر گیا جب پوری قوم نے متفق ہو کر نیشنل ایکشن پلان کو لبیک کہا تھا اور اسے پارلیمنٹ نے بھی متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اس کے 20 نکات میں سے زیادہ تر پر عمل درآمد شروع ہونے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے، سوائے اس بات کے کہ کبھی کبھی کبھار وزیر داخلہ پریس کانفرنس کرتے ہیں اور کسی کی طرف سے سوال پوچھے جانے پر بتاتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنا حکومت کی اولین ذمہ واری ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کا 15 واں نکتہ تھا کہ پنجاب میں شدت پسندی کے خلاف زیرو ٹالرنس روا رکھا جائے گا۔ وہ دن اور آج کا دن، شدت پسندی کے خلاف زیرو ٹالرنس تورہا ایک طرف،پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان کے کسی بھی نکتے پر عمل درآمد کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں گیا اور نہ ہی پنجاب میں کسی آپریشن کی اجازت دی گئی۔ خیر’’ دیر آئد درست آئد‘‘ کے مصداق اب پنجاب میں اگر آپریشن رد الفساد شروع ہو ہی گیا ہے تو ہمارا حسنِ ظن ہے کہ صوبائی انتظامیہ اسے کامیاب بنانے کے لئے ہر ممکن تعاون کرے گی، کیونکہ اگر صوبے میں دہشت گردی کو کنٹرول کر لیا گیا تو اگلے سال کا الیکشن جیت کر مسلم لیگ(ن) لگاتار تیسری حکومت بنانے کی ہیٹ ٹرک مکمل کر لے گی۔ آپریشن رد الفساد پاکستان کی فوج کر رہی ہے۔ اس بات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کہ افواجِ پاکستان انتہائی جذبے سے سرشار ہو کر ملک کو دہشت گردی سے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں،بلکہکئی برسوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردوں کوختم کر رہی ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے۔ اب اگر اس کے 20 نکات میں سے زیادہ تر پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تو اس کی ذمہ دار بھی بنیادی طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ان کے ادارے ہی ہیں۔ فوج کا رول ہمیشہ ایک مددگار کا ہوتا ہے، لیکن قیادت حکومتوں کو ہی کرنا ہوتی ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے خاتمے میں واقعی سنجیدہ ہوں تو ریاست میں امن و امان کے ذمہ دار پولیس اور انٹیلی جنس کے ادارے چوکس اور فعال ہوں، ملک کے تفتیشی اداروں ایف آئی اے اور نیب سے کوئی بچ نہ پائے، دہشت گردوں کی کمیونیکیشن پی ٹی اے ، پیمرا اور دوسرے متعلقہ اداروں سے چھپی نہ رہے، دہشت گردوں کی منی ٹریل، ٹرانزیکشنز اور مالی معاونت کے تمام ذرائع ملک کے فنانشل انسٹی ٹیوشنز، یعنی سٹیٹ بینک، کمرشل بینکوں اور ایف بی آر وغیرہ کو بائی پاس نہ کر سکیں اور سب سے بڑھ کر عدالتیں تیزی سے دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچا رہی ہوں۔
جب تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور ان کے ادارے آپریشن ردّالفساد میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک نہیں کریں گے، یہ آپریشن منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکتا۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ اور پورے ملک کا تقریباً 60 فیصد ہے۔ پہلے تو یہ بات ہی بہت افسوسناک تھی کہ پچھلے آٹھ دس سال میں ہونے والے کسی آپریشن کو پنجاب میں نہیں کیا گیا۔ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع، خاص طور پر سوات، بونیر، شانگلہ ، ملا کنڈ وغیرہ کے علاوہ فاٹا کی ایجنسیوں اور کراچی وغیرہ میں مختلف طرح کے مختلف ناموں سے آپریشن ہوتے رہے، لیکن پنجاب کو ہمیشہ چھوڑ دیا گیا۔اب جبکہ آپریشن رد الفساد پنجاب میں بھی ہو رہا ہے تو اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ صوبے کے تمام 36 اضلاع میں پوری شدت کے ساتھ کام کیا جائے، ورنہ صوبے میں شدت پسندی میں کوئی کمی نہ ہو سکے گی، صرف آٹھ دس یا بارہ اضلاع میں آپریشن کیا جائے اور باقی کو چھوڑ دیا جائے، ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ آپریشن رد الفساد اٹک سے لے کر رحیم یار خان اور راجن پور سے لے کر سیالکوٹ تک ایک ایک ضلع اور ایک ایک تحصیل میں پوری طاقت، کمٹنٹ، درست انٹیلی جنس اور کامیابی کے مصمم ارادے کے ساتھ کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔زیرو ٹالرنس کا مطلب صرف زیرو ٹالرنس ہی ہوتا ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ آپریشن رد الفساد میں ناکامی کا کوئی آپشن نہیں ہے۔