گورنر رفیق رجوانہ اور موروثی سیاست
موروثی سیاست کی ایک نئی مثال ملتان میں قائم ہو رہی ہے۔ گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ اپنے بیٹے کو آئندہ انتخابات میں ایم این اے بنوانے کے لئے پوری طرح متحرک ہیں۔ وہ اکثر ملتان کے دورے پر آتے ہیں، مگر اہل ملتان کو ان دوروں سے کوئی فائدہ نہیں مل رہا، کیونکہ وہ ابھی تک اپنے عرصہ گورنری میں ملتان کے لئے کوئی قابلِ ذکر ترقیاتی منصوبہ منظور نہیں کراسکے۔ انہوں نے جو واحد بڑا اعلان کیا تھا، وہ بھی وقت کی گرد میں بیٹھ گیا ہے۔ انہوں نے ملتان کے لئے الگ سیکرٹریٹ کے قیام کی نوید سنائی تھی اور چند دن میں اس پر عملدرآمد کی یقین دہانی بھی کرائی تھی، مگر اب اس اعلان کو چھ ماہ سے بھی زائد عرصہ بیت چکا ہے، اس پر عملدرآمد تو کجا اب تو گورنر صاحب اس بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب تک نہیں دیتے۔ سنا ہے بیورو کریسی نے اسے ناقابل عمل قرار دیا ہے اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس کی منظوری نہیں دی۔ گورنر رفیق رجوانہ جب بھی ملتان آتے ہیں، سرکٹ ہاؤس ملتان میں ان سے ملاقات کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ وہ ان کے ساتھ سیلفیاں بنواتے ہیں، فوٹو کھنچواتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ گورنر صاحب سے ملنے کے بعد کیا لے کر جارہا ہے۔ ملاقاتوں میں زیادہ تر قومی اسمبلی کے حلقہ 149 کے لوگ ہوتے ہیں، جس میں ان کی آبائی رہائش گاہ بھی موجود ہے اور جہاں سے وہ اپنے بیٹے ، آصف رجوانہ کو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن بھی لڑوانا چاہتے ہیں۔
جب تک ملک رفیق رجوانہ سینیٹر تھے، ان کے بیٹے آصف رجوانہ کا سیاسی حوالے سے کسی نے نام تک نہیں سنا تھا ، تاہم جونہی وہ گورنر بنے، ملک کی دیگر بڑی شخصیات کی طرح انہیں بھی یہ خیال آیا کہ سیاست میں ان کی اگلی نسل کو بھی ہونا چاہئے۔ اس طرح اچانک انہوں نے آصف رجوانہ کو میدان میں اتاردیا۔ آج ان کے نام کے ساتھ سینئر مسلم لیگی رہنما لکھا جاتا ہے۔ جو مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ہیں اور جنہوں نے مشکل وقت میں ماریں بھی کھائی ہیں، اس صورت حال کو بڑی تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ جب وزیر اعظم میٹروبس منصوبے کا ملتان میں افتتاح کررہے تھے تو ہال میں موجود مسلم لیگی کارکن یہ نعرے لگاتے رہے کہ ہم باہر سے آنے والے کسی آدمی کو قبول نہیں کریں گے۔ یہ لوگ طارق رشید زندہ باد کہتے رہے۔ یاد رہے کہ طارق رشید ملتان کے بزرگ مسلم لیگی رہنما شیخ محمد رشید مرحوم کے فرزند ہیں، اسی حلقے سے ایم این اے بھی رہ چکے ہیں اور گزشتہ انتخابات میں بھی انہیں مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹ دیا تھا اور وہ مخدوم جاوید ہاشمی سے ہار گئے تھے، بعدازاں جاوید ہاشمی مستعفی ہوئے تو ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) نے جاوید ہاشمی کی وجہ سے کوئی امیدوار نہیں کھڑا کیا، لیکن جاوید ہاشمی تحریک انصاف کے ملک عامر ڈوگر سے ہار گئے۔ گویا اس حلقے سے ملک رفیق رجوانہ نے اپنے کسی بیٹے کے لئے بھی ٹکٹ نہیں مانگی، مگر اب پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر اپنے بیٹے آصف رجوانہ کو ساتھ لے کر کلب روڈ لاہور جاتے ہیں اور وزیر اعلیٰ سے اس کی ملاقات کراتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو 3 کروڑ روپے کی ترقیاتی گرانٹ بھی جاری کروائی ہے، حالانکہ وہ عوامی نمائندے نہیں۔ یہ بات ملتان میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گورنر رفیق رجوانہ ہر اس قابل ذکر بندے سے رابطہ کر رہے ہیں جو قومی اسمبلی کے حلقہ 149 میں کوئی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ خوشی غمی کی ہر اس تقریب میں جاتے ہیں جو اس حلقے میں منعقد ہوتی ہے۔آصف رجوانہ کو وہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنے بیٹے کو انگلی پکڑ کر سیاست سکھا رہے ہوں۔
مخدوم جاوید ہاشمی یہ سارا تماشا بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں، ان کا آبائی حلقہ تو 148 ہے،جو مخدوم رشید اور جہانیاں پر مشتمل ہے، تاہم اب وہ اپنے شہری علاقے میں سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ حلقہ 149 سے منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اس حلقے سے ہمیشہ الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ اب بھی وہ علی الاعلان کہتے ہیں کہ کسی سیاسی جماعت نے انہیں ٹکٹ دی یا نہ دی، وہ آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ ضرور لیں گے۔ وہ اس حلقے کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا چاہتے، لیکن گورنر رفیق رجوانہ جس سنجیدگی سے اپنے بیٹے آصف رجوانہ کو اس حلقے میں متعارف کرا رہے ہیں، اس کی وجہ سے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور عہدیداروں کا ردعمل کیا ہوگا۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس صورت حال کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) اس حلقے میں تقسیم ہو کر رہ جائے گی، جس کا فائدہ یا تو پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہوگا یا پھر جاوید ہاشمی کو۔۔۔ اس حلقے میں زیادہ تر ووٹ روہتک حصار سے تعلق رکھنے والے اردو سپیکنگ لوگوں کا ہے، جبکہ طارق رشید کے والد محمد رشید کو، جو خود بھی ایم این اے رہے ہیں، لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ طاہر رشید اور طارق رشید کو اپنے والد اور اردو اسپیکنگ ہونے کی وجہ سے ووٹ ملتا رہا ہے۔ ایسے میں اگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت گورنر صاحب کی درویشانہ خدمات کے اعتراف میں ان کے بیٹے کو امیدوار نامزد کر دیتی ہے تو مسلم لیگ (ن) کا یہ نشست جیتنا بہت مشکل ہوگا۔ یہ نشست یا تو جاوید ہاشمی کے حصے میں آئے گی یا پھر پی ٹی آئی دوبارہ لے جائے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سارا الزام خود گورنر صاحب کے سر آئے گا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو ایم این اے بنوانے کے لئے مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور رہنماؤں کو نظر انداز کیا جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) شہر کی اپنی یہ دیرینہ نشست ہار گئی۔
یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ گورنر ملک رفیق رجوانہ نے ملتان کے لئے ابھی تک کوئی گرانٹ منظور نہیں کرائی اور نہ ہی اپنی صوابدیدی گرانٹ میں سے کچھ دیا ہے۔ دو تقریبات کا تو میں خود گواہ ہوں، جہاں امید تھی کہ گورنر صاحب ترقیاتی گرانٹ جاری کریں گے، مگر انہوں نے ایک روپے کی گرانٹ کا بھی اعلان نہیں کیا۔ پہلی تقریب اولڈ ایمرسونین کی تھی جس میں پرنسپل ڈاکٹر محمد سلیم نے بڑی لجاجت سے صرف ایک کروڑ روپیہ مانگا تھا تاکہ کالج کی ناگفتہ بہ حالت کو بہتر بنایا جا سکے۔ گورنر صاحب نے اپنے خطاب میں اُلٹا یہ کہہ کر ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ پرنسپل صاحب کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے تھیں، کوئی مسئلہ ہے تو مجھے علیحدہ بتائیں۔ لوگ ان کی یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ دوسری تقریب اکادمی آف لیٹرز کے دفتر کے افتتاح کے موقع پر منعقد ہوئی۔ جب یہ کہا گیا کہ اکادمی کا دفتر چوتھی منزل پر ہے۔ بوڑھے اور نحیف ادیب و شعرا وہاں نہیں آ سکتے، اس لئے ایک لفٹ لگوا کر دی جائے۔ ایک معمولی سی رقم سے یہ کام ہو سکتا ہے، اس لئے گورنر صاحب لفٹ کے لئے فنڈز جاری کریں۔ یہ سن کر گورنر رفیق رجوانہ نے انتہائی ٹھنڈے ٹھار انداز میں کہا، اس کے لئے کسی مقامی صنعت کار سے رابطہ کرکے وہ لفٹ لگوانے کی کوشش کریں گے، لیکن دوسری طرف انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے تین کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کروانے میں دیر نہیں کی۔
گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ ذاتی طور پر ایک سادہ مزاج، درویش صفت اور درد مند دل رکھنے والے انسان ہیں۔ اپنے مشکل وقت کے ساتھیوں کو بھی پہنچانتے ہیں اور خود ان کے پاس جا کر ملتے ہیں۔ وہ خود کہتے ہیں کہ میں گورنری کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، مگر یہ وزیراعظم نوازشریف کی نظرِ کرم ہے کہ آج اس بڑے منصب پر بیٹھا ہوں۔ یہ سب باتیں تو ان کے حق میں جاتی ہیں، لیکن اپنے بیٹے کو سیاست کے میدان میں اتارنے اور اسے ہر قیمت پر ایم این اے بنوانے کے لئے وہ جس طرح اپنی ذات کے دائرے میں سکڑ گئے ہیں، وہ کہیں ان کے لئے خسارے کا سودا نہ بن جائے۔ انہیں سب سے پہلے سابق امیدوار شیخ طارق رشیدکو اپنے حق میں دستبردار کرانے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ کم از کم مسلم لیگ (ن) اس حلقے میں تقسیم نہ ہو۔ اس کی بجائے انہوں نے آصف رجوانہ کی پیٹھ تھپتھپا کر میدان میں اتار دیا ہے۔ دوسری طرف انہوں نے مخدوم جاوید ہاشمی کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ وہ اس حلقے کو ہمیشہ سے ہی بہت اہمیت دیتے آئے ہیں، کیونکہ اس حلقے میں ان کی رہائش بھی ہے اور زندگی بھر کی جذباتی وابستگی بھی۔