’’جلسے میں باون ہزار چوہتر لوگ تھے‘‘

’’جلسے میں باون ہزار چوہتر لوگ تھے‘‘
 ’’جلسے میں باون ہزار چوہتر لوگ تھے‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھولے نے خوشی سے چھلانگیں لگائیں، وہ جاتی امرا سے چار، ساڑھے چار کلومیٹر دور اڈاپلاٹ رائے ونڈروڈ پر جمعے کے روز ہونے والے جلسے کی کامیابی سے بہت خوش تھا، اس کی آنکھوں سے فخر اور غرور چھلک رہا تھا، میں نے اسے کامیاب جلسے کی مبارک باد دی اور کہا کہ واقعی اس روز حاضری متاثر کن رہی۔عمران خان صاحب نے ذاتی طور پر بھی جلسے کی کامیابی کے لئے محنت کی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اسلام آباد جانے اور اسے بند کرنے کا اعلان ہی کرنا تھا تو اس کے لئے سب کو لاہو ربلانا اور اتنا خرچ کرنا کیوں ضروری تھا؟ بھولا اس وقت کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھا، اس نے فیصل جاوید کی بتائی ہوئی تعداد دہرائی، کہا جلسے میں نولاکھ اسی ہزار افراد شریک تھے تو میں نے اسے ٹوکا اور درخواست کی کہ ہتھ تھوڑا سا ہولا رکھے، عمران خان صاحب کے ترجمان محترم نعیم الحق اس تعداد کو پانچ لاکھ تک لے آئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ وہ تھے جو رش کے باعث جلسہ گاہ تک پہنچ ہی نہیں سکے۔


میں نے کہا، ہم فیصل جاوید کی بجائے نعیم الحق کی بتائی ہوئی پانچ لاکھ تعداد کے دعوے کو ہی بنیاد بنا لیتے ہیں۔ اگر شرکاء کاروں پر آئے اور ہر کار میں مکمل گنجائش کے مطابق پانچ افراد موجود تھے تو ایک لاکھ کاریں استعمال ہوئی ہوں گی، شرکاء جلسہ گاہ میں چلے گئے ہوں گے اور کاروں کو رائے ونڈ روڈ پر پارک کر دیا گیا ہو گا، ایک کار اگر سڑک پر تین میٹر پارکنگ کی جگہ بھی لے تو یہ جگہ طوالت میں تین لاکھ میٹر یا تین سو کلومیٹر بنتی ہے۔ ایسی صورت میں کاریں ڈیڑھ سو کلومیٹر تک رائے ونڈ سے کالاشاہ کاکو اور گوجرانوالہ سے گجرات کی حدود تک سڑک کے دونوں کناروں پر پارک ہوتیں۔ کاروں ، ویگنوں اور بسوں کو مکس کرنے کے علاوہ یہ خیال بھی کیا جا سکتا ہے کہ پانچ لاکھ شرکاء کے لئے بسوں کا اہتمام کیا گیا، اگر ہر بس میں پوری گنجائش سے بھی کچھ زیادہ پچاس افراد بھرے ہوں تو دس ہزار بسوں کی ضرورت ہو گی ،اب اگر ایک بس کو پارکنگ گیپ کے ساتھ دس میٹر کی جگہ درکار تھی تو یہ ایک لاکھ میٹر یا ایک سو کلومیٹر بنتے ہیں، یہ بسیں اڈا پلاٹ سے شروع ہو کر ٹھوکر نیاز بیگ، موٹروے کے ٹول پلازے ہی نہیں بلکہ کالاشاہ کاکو کے مقام پر جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف کھڑی نظر آنی چاہیے تھیں۔ یہ اصل تعداد کا اندازہ لگانے کے لئے ہے ورنہ بسیں خالی جگہوں پرآگے پیچھے پارک ہوجاتی ہیں اور ایریا کومیٹروں کی بجائے مربع میٹروں میں ناپا جاتا ہے، بہرحال، اس کے باوجوداتنی تعداد میں بسوںیا کاروں کی موجودگی کے شواہد نہیں ملتے۔ گوگل میپ نے جلسہ گاہ کے بعد ٹھوکر نیاز بیگ کی جانب قریبا چار سے پانچ کلومیٹر کا راستہ بلاک بتایا جو گاڑیوں کی پارکنگ کی وجہ سے تھا۔ رائے ونڈ روڈ پہلے ٹووے ٹریفک کے ساتھ سنگل روڈ ہوا کرتی تھی، اب یہ تین، تین رویہ دوہری سڑک بنا دی گئی، اڈا پلاٹ پر ایک بڑا گول چکر بھی بن گیا، جلسے کے شرکاء کی تعداد کا معلوم کرنا کوئی مشکل کام نہیں، جہاں تک لوگ تھے وہ جگہ مارک کر لی جائے اور ایک فرد کے لئے جتنے فٹ معیار ی جگہ درکار ہوتی ہے اسے استعمال ہونے والی مکمل جگہ کی پیمائش کرتے ہوئے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے۔
اب ہم دوسری طرف آتے ہیں، تحریک انصاف نے پورے ملک سے اپنے کارکنوں کو رائے ونڈ آنے کی کال دی اور اگر یہ لوگ پانچ لاکھ ہی تھے اور تمام بڑی گاڑیاں ہی استعمال کررہے تھے تو بھی دس ہزار بسوں کے لئے پٹرول اور کرائے کے اخراجات کئے گئے ہوں گے، کم از کم دو وقت کا کھانا بھی اس میں شامل ہو گا، ایک بس پر پچیس ہزار روپے اوسط خرچ نکالا جائے تویہی خرچ پچیس کروڑ روپے بن جاتا ہے، پچاس مسافروں کے ساتھ پچیس ہزار کا خرچ فی کس پانچ سو روپے بنتا ہے جو مضحکہ خیز حد تک کم ہے مجھے یقین ہے کہ تمام لوگوں نے بسیں استعمال نہیں کیں، کاروں سمیت دیگر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ سے فی کس اخراجات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ دوسری طرف سرکاری اخراجات ہیں ۔ ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر اشرف حیدر نے جلسے سے ایک روز قبل مجھے بتایا کہ وہ چھ ہزار سپاہی وہاں تعینات کر رہے ہیں اور اگر پٹرولنگ والوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد سات ہزار بن جاتی ہے، ٹریفک پولیس کے ڈیڑھ ہزار اہلکار الگ تھے۔ سات ہزار پولیس والوں کی تنخواہ میں دیہاڑی سات سے آٹھ سو روپے بنتی ہے، ایک سو بیس روپے فی کس کھانے پر خرچ آیا، پولیس کی دو سو گاڑیاں استعمال ہوئیں جن میں اوسطا پچاس لیٹرفی گاڑی پٹرول ڈلوایا گیا۔ سیکورٹی کے لئے کنٹینر اور صفائی سمیت دیگر معاملات کو دیکھا جائے توسرکاری خزانے سے یعنی ہمارے ٹیکسوں سے کم از کم ستر ، اسی لاکھ خرچ ہو گئے۔ میری درخواست ہے کہ اگرپی ٹی آئی پانچ لاکھ لوگوں کا دعویٰ کرتی ہے تو پھر وہ دس روپے فی بندہ ٹیکس ادا کر دے تاکہ قومی خزانے میں کم از کم پچاس لاکھ واپس آ جائیں ، اگر وہ اپنے دعوؤں کے مطابق خود اتنے کروڑ خرچ کر سکتی ہے کہ بات ارب روپوں تک پہنچ جائے تو اسے یقینی طور پر قوم کا یہ خرچ بھی نہیں کروانا چاہئے۔


ہر صحافی کے سورس ہوتے ہیں، اس پر وحی نازل نہیں ہوتی، ایک سورس کے مطابق شرکاء کی تعداد کی گنتی کے لئے باقاعدہ ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں۔ ہمارے کارکن صحافیوں نے بھی خود کرسیاں گنیں اور انہیں پانچ سے چھ ہزار پایا اور کیٹرنگ والوں سے بھی جا پوچھا۔ سیکورٹی کے نکتہ نظر سے پی ٹی آئی کے جلسہ گاہ تک جانے کے لئے پانچ انٹری پوائنٹس ارائیاں رائے ونڈ روڈ، خیابان امین، رحمان سی این جی یا پاک ترک سکول، بھوبتیاں چوک اور موٹروے قزلباش چوک دئیے گئے تھے۔ ان تمام چوکوں انٹری پوائنٹس پر باقاعدہ گنتی کا عمل جاری رہااورگاڑیوں کے داخلے کی گھنٹہ وار لسٹ تیار کی جا تی رہی۔اس تعداد کے مطابق رات آٹھ بجے تک ان انٹری پوائنٹس سے 260 بسیں، 50 ٹرک، 360 منی بسیں، 1560ہائی ایس ویگنیں، ، 706 جیپیں، 701 رکشے،

1501موٹرسائیکلیں اور3275 کاریں داخل ہوئیں، ایک بس کی گنجائش 44 مسافر بیان کی گئی اور یوں گنتی کرنے والوں کے مطابق52 ہزار 74 لوگ رات آٹھ بجے جلسہ شروع ہونے تک رائے ونڈ روڈ کے ایریا میں داخل ہوئے۔ چین کے ایک تاریخی موٹر وے بلاکیج کی تصاویر بھی لاہور کا موٹروے بنا کر شیئر کی گئیں، ستمبر کے چاروں جمعے کے دنوں کا ٹریفک کاونٹ معلوم کرتے ہوئے جمعہ تیس ستمبر کو لاہور ٹال پلازہ پہنچنے والی گاڑیوں کی تعدادمیں فرق معلوم کیا جا سکتا ہے۔ جلسوں کے شرکاء کو کسی بھی حلقے کے ووٹروں کے ساتھ ناپا جانا بھی ضروری ہے۔ اگر تحریک انصاف نے پانچ لاکھ کادعویٰ کیا جو حقیقت میں پچاس سے پچپن ہزارکے لگ بھگ تھے تویہ پنجاب اسمبلی کے کسی ایک حلقے میں ووٹ کاسٹ کرنے والے ووٹروں کی مجموعی تعداد سے بھی کہیں کم تھے۔


بھولے نے پینترا بدلا، بولا، بات تعداد کی نہیں، ایک شخص بھی کرپشن کے خلاف کھڑا ہوجائے تو اس کی اہمیت ہے، میں نے اس سے اتفاق کیا اور پوچھاکیا تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے خلاف سڑکوں پر کھڑے ہوجانا چاہیے کیونکہ یہاں سب پر الزامات ہیں۔ الزامات کا فیصلہ تحقیق ، تفتیش اور انصاف کرنے والے اداروں میں ہوتا ہے۔ بھولے کا کہنا تھا کہ اگر ادارے ہی کرپشن کو تحفظ دے رہے ہوں تو پھر کہاں جائیں اور میرا جواب تھا کہ اگراداروں پر اعتماد کرنے کی بجائے چند ہزار سیاسی کارکنوں نے سڑکوں پر کھڑے ہو کراپنے مخالف سیاسی رہنماؤں کی مبینہ بد عنوانیوں پر فیصلے صادر کرنے اور سزائیں سنانی ہیں تو پھریہ معاشرہ جنگل سے بھی بدتر ہوجائے گا۔ سیاست چھوٹے دل اور تھوڑے وقت کا کھیل نہیں ہوتا، یہ صبر اور حوصلے کے ساتھ لڑی جانے والی لمبی لڑائی ہے اوریہ بات کہ صحافیوں کو جلسوں کی کرسیاں نہیں گننی چاہئیں تو جان لو کہ صحافت میں غیر جانبداری اس کا نام نہیں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ دو جمع دو پانچ ہوتے ہیں تو اسے فوری طور پر رپورٹ کر دیا جائے، ہاں ، ہم رپورٹ کرتے ہیں کہ فلاں صاحب کہہ رہے ہیں کہ دو جمع دو پانچ ہیں مگر اصل غیر جانبداری ساتھ ہی یہ بتا دینا بھی ہے کہ کامن سینس ہی نہیں بلکہ حساب کے ماہرین کے مطابق د وجمع دو چار ہوتے ہیں۔

مزید :

کالم -