انڈیا افغانستان میں کیا کر رہا ہے؟ (2)

انڈیا افغانستان میں کیا کر رہا ہے؟ (2)
انڈیا افغانستان میں کیا کر رہا ہے؟ (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان اور افغانستان کے مشہور و معروف موسیقی کے کلاسیکل آلات او ر سازوں میں ڈھول، ڈھولک، نقارہ، شہنائی ، بانسری، ستار، ہارمونیم، طبلہ، خنجری، اکتارا، عود اور رباب وغیرہ شمار کئے جاتے ہیں ۔۔۔ ان کے علاوہ ایک انسانی ساز ہمارے ہاں ایسا بھی ہے جو صرف برصغیر کے ساتھ خاص ہے اور جس کا تعلق بالخصوص قوالی سے ہے۔

اس کا نام ’’تالی‘‘ ہے جو دو ہاتھوں سے بجائی جاتی ہے۔ اور ہاں یاد آیا ہمارے ہاں جو کام ‘‘گھڑے‘‘ سے لیا جاتا ہے، مغرب نے وہی کام ڈرم اور بیوگل وغیرہ سے لیا ہے ۔ کوئی کافی یاقوالی، تالی کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔

لیکن آج نہ صرف ان مشرقی سازوں کو پاکستان سے تقریباً دیس نکالا دئے جانے کی کوششیں جاری ہیں (جیسا کہ ہم ’’کوک سٹوڈیو‘‘ شوز میں دیکھ رہے ہیں) بلکہ افغانستان میں بھی وہاں کے معروف افغانی سازوں کو ترک کر کے مغربی سازوں کو متعارف کیا جا رہا ہے جن میں اکارڈین بیگ پائپ، بینجو، بگل، ڈرم، گٹار، ماؤتھ آرگن، پیانو، وائلن اور سیکسو فون وغیرہ کے علاوہ ایسے ایسے مغربی ساز متعارف کروائے جا رہے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کی موسیقی کی روایات کو 180ڈگری معکوس سمت میں تبدیل کر دیں گے۔


انڈیا نے افغان میڈیا پر جس طرح قبضہ کیا ہوا ہے وہ چشم کشا ہے۔ درجنوں پشتو، پرشین اور انگریزی روزنامے کابل وہرات سے نکلتے ہیں۔ درجنوں ٹی وی چینل ہیں جو دن رات ہندی، پشتو اور فارسی کی نشریات ہوا کے دوش پر پھینکتے رہتے ہیں۔ یہ ثقافتی یلغار (Cultural Invasion) انٹرنیٹ اور آپ کے سمارٹ فون پر بھی عام دیکھی اور سنی جا سکتی ہے ۔۔۔ اگر پاکستان چاہتا تو وہ بھی یہی کام اپنے افغان بھائی بہنوں کے لئے 1947ء سے لے کر2001ء تک کے 54برسوں میں ) کر سکتا تھا۔ ہم نے اگرچہ 35,30 لاکھ افغان مہاجرین کو کئی عشروں تک پاکستان میں پناہ دیئے رکھی لیکن اگر پاکستانی حکومت 1950ء سے لے کر 1979ء تککے 29برسوں میں یہی کچھ افغانستان کے کوچہ و بازار میں کرتی جو انڈیا نے گزشتہ 16برسوں (2001ء سے 2017ء تک) میں کیا ہے تو شاید سوویت یونین کو 25دسمبر 1979ء کو دریائے آمو عبور کر کے افغانستان پر حملے کی جرأت نہ ہوتی۔۔۔ معاشرے کی اصلاح اور اس کی فلاح عشروں کا کام ہے، دو چار برس کا قصہ نہیں۔ میں نے گزشتہ سطور میں آج کے بنگلہ دیش کا حوالہ دیا ہے جو16 دسمبر1971ء تک مشرقی پاکستان تھا ۔ انڈیا نے ہمارے اس وقت کے مشرقی پاکستان میں 24برس تک جو سرمایہ کاری کی وہی سرمایہ کاری وہ گزشتہ16برسوں سے افغانستان کے کئی صوبوں میں کر رہا ہے۔


اگرچہ جیسا کہ سطور بالا میں ذکر کیا گیا 2011ء کے انڈو افغان معاہدے میں یہ شق بھی شامل ہے کہ ضرورت پڑنے پر انڈیا، افغانستان میں اپنی ریگولر فوج بھیج سکتا ہے لیکن گزشتہ 6برسوں (2011ء تا 2017ء) میں انڈیا اس کا ایک بھی ریگولر آرمی آفیسر وردی پہن کر افغانستان میں آتا نہیں دیکھا گیا۔

بھارتی تجزیہ کار یہ دلیل دیتے ہیں کہ امریکہ نے بھارت کو ایسا کرنے سے اس لئے روکا ہوا ہے کہ اگر بھارتی فوج افغانستان میں آئی تو پاکستان اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرے گا اور کل کلاں چینی فوج کا انڈیا (کشمیر)میں داخل ہونے کا دروازہ کھل جائے گا اور جواز مل جائے گا۔ لیکن امریکہ کی یہ منطق عجیب ہے۔ وہ خود جس ملک میں جب چاہے اپنے ٹروپس بھیج سکتا ہے لیکن دوسروں کو ایسا کرنے سے منع کرتا ہے حالانکہ ناٹو کے 29ممالک کی افواج برسوں تک افغانستان، لیبیا اور شام میں برسرپیکار رہی ہیں۔ انڈین آرمی کی تعداد اس وقت 14لاکھ ٹروپس (آفیسرز اور جوان) پر مشتمل ہے۔ وہ اگر چاہے تو کئی ڈویژن فوج افغانستان بھیج سکتا ہے اور اسی طرح اپنی فضائیہ کی کئی سکواڈرن بھی بگرام اور شنیدند کے فضائی مستقروں میں اتار سکتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ 1971ء کی جنگ میں وہ یہی ’’ڈیوٹی‘‘ مشرقی پاکستان میں سرانجام دے چکا ہے!


انڈین آرمی کے بارے میں ایک اور تاریخی نکتہ جو غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ یہ آرمی کبھی بھی کسی سمندر پار ملک میں جا کر کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئی۔تقسیم برصغیر سے پہلے بھی ہندوستانی افواج یورپ اور افریقہ کے محاذوں پر جا کر لڑتی رہی ہیں لیکن ان میں ایک بھی ہندوستانی کمیشنڈ آفیسر نہ تھا، سب کے سب سولجرز تھے۔ آزاد انڈین آرمی کا پہلا دستہ جو ملک سے باہر گیا وہ کوریا کی جنگ (1950-53ء) میں گیا تھا لیکن وہ بھی اقوام متحدہ کی فوج اور سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کی تعمیل میں گیا تھا اور اس تین سالہ جنگ میں بھی کسی قابلِ ذکر جنگی معرکے میں انڈین سولجرز کو استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اس سے بھی پہلے دوسری جنگ عظیم میں برما کے محاذ پر (1942ء تا 1945ء) جو غلام انڈین ملٹری دستے (مسلمان، ہندو اور سکھ) مصروفِ جنگ رہے، ان کی پروفیشنل کارکردگی بھی دوسری اتحادی اقوام کے مقابلے میں نہائت کم تاثیر سمجھی جاتی ہے ۔


1947ء کے بعد جارحانہ اور آزادانہ طور پر بھارتی فوج نے صرف ایک بار اپنے ملک سے باہر نکل کر سری لنکا جانے کی غلطی کی تھی جس کا حشر قارئین کو معلوم ہے۔ بھارت کی زیادہ جنگیں پاکستان کے ساتھ ہوئیں جس کی افواج، بھارتی افواج سے آدھی سے بھی کم تھیں۔ پاکستانی افواج نے عددی کمتری کو اپنے عزم و حوصلے کی برتری سے پورا کیا اور الحمدللہ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ انڈین آرمی کے دستے اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں غیر ممالک میں جاتے رہے ہیں اور آج بھی جا رہے ہیں(پاکستانی فوج کے دستے بھی یہی کام کرتے رہے ہیں اور آج بھی کر رہے ہیں) لیکن یو این امن مشن، جنگ کے مشن نہیں، امن اور قیامِ امن کی کوششوں کو سپورٹ کرنے کے مشن کہلاتے ہیں۔


القصہ انڈین ملٹری کو اپنے ملک سے باہر نکل کر آج تک کسی بھی جارحانہ یا دفاعی جنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ آج بھی انڈیا، افغانستان میں افغان حکومت کو مالی، مادی، اسلحی اور تکنیکی سپورٹ تو دے سکتا ہے، ریگولر ٹروپس کی عددی سپورٹ نہیں دے سکتا۔ یہ پروفیشنل محدودات انڈین آرمی کے ہر رینک کے رگ و پے میں سرائت کر چکی ہے۔

گزشتہ ماہ (26ستمبر 2017ء) امریکی وزیر دفاع جنرل میٹس نے انڈیا کا دورہ کیا جس میں بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتارامن نے امریکی جنرل کو صاف صاف بتا دیا کہ انڈین آرمی کے بوٹ افغانستان کی سرزمین میں نہیں بھیجے جا سکتے۔ کرنل اجے شکلا، انڈین آرمی کا ایک ریٹائرڈ آفیسر ہے۔ اس نے نئی دہلی سے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامے (بزنس سٹینڈرڈ 24ستمبر 2017ء) میں انڈین ٹروپس کی افغانستان میں انڈکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’صدر ٹرمپ نے حال ہی میں انڈیا سے قربت اور پاکستان سے دوری کا عندیہ دیا ہے اور انڈیا کو کہا ہے کہ : ’افغانستان کی اقتصادی امداد اور ڈویلپ منٹ کے منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے‘۔۔۔ افغانستان میں بھارت کی بڑے پیمانے پر یہ موجودگی پاکستان کو بھی مجبور کر دے گی کہ وہ اپنے ہاں طالبان کی پناہ گاہوں پر کریک ڈاؤن کرے۔ انڈین پالیسی سازوں نے ٹرمپ کے اس فرمان پر بھی خوب بغلیں بجائی تھیں کہ : ’آپ پاکستانی لوگ انہی دہشت گردوں کو اپنے ہاں رکھے ہوئے ہیں جن کے خلاف ہم امریکی برسرپیکار ہیں‘۔۔۔ لیکن بھارت کے سیاستدان اور حکام خوب جانتے ہیں کہ یہ امریکی صدر نہ تو اپنی باتوں پر قائم رہتا ہے اور نہ اس قسم کا بلنٹ بیان دینے سے پہلے سوچتا ہے‘‘۔


کرنل شُکلا نے یہ جو آخری فقرہ لکھا ہے، اس کی تائید نہ صرف دنیا بھر کے سیاسی مدبر اور تجزیہ نگار کر رہے ہیں بلکہ خود امریکی اہلکار بھی دیکھ چکے ہیں کہ ان کا صدر جو کہتا ہے وہ کرتا نہیں ہے!۔۔۔ یہی کرنل شُکلا آگے چل کر اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں: ’’میں کئی بار افغانستان جا چکا ہوں۔ ہر بار جب کابل کے ہوائی اڈے پر میرے سامان کو سکیننگ مشین پر رکھا جاتا ہے تو ائر پورٹ کے سیکیورٹی حکام مسکرا کر کہتے ہیں کہ اپنا بیگ اٹھا لیجئے۔ہم آپ کا سامان چیک کرکے آپ کی توہین کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔۔۔۔ اسی طرح میں ایک بار ایک افغان تاجر کا انٹرویو کر رہا تھا تو مجھے اس کی ترش روئی کا سامنا ہوا۔ جب انٹرویو تمام ہوا تو مجھے معلوم ہوا اس نے مجھے کسی پاکستانی میڈیا کا نمائندہ سمجھ رکھا تھا۔ جب اسے پتہ چلا کہ میں انڈین ہوں تو اس نے مجھ سے معافی مانگی اور کہا کہ دوبارہ انٹرویو لیا جائے ۔۔۔۔ میں کئی بار افغان طالبان سے بھی ملا ہوں اور ان کی آراء اپنے اخبار کے لئے حاصل کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان طالبان کو چونکہ پاکستان سے مالی اور اسلحی امداد ملتی ہے اس لئے وہ پاکستان کی حمائت کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار ایک طالبان لیڈر نے مجھ سے کہا: ’1980ء کے عشرے میں جب سوویت یونین نے ہم پر حملہ کیا تھا تو انڈیا نے سوویت یلغار کے خلاف اور ہمارے حق میں ایک لفظ تک بھی نہیں کہا تھا‘۔۔۔ میں نے یہ سنا تو اس کو جواب دیا: ’ کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ کسی انڈین سولجر نے افغانستان کی سرزمین پر کبھی کسی افغان کا خون نہیں بہایا۔۔۔ نہ تو 1980ء کے عشرے کے افغان جہاد کے دوران،۔۔۔ نہ ہی 1990ء کے عشرے کی افغان خانہ جنگی۔۔۔ میں اور نہ ہی 2002ء کے بعد سے آج تک کی یورش (Insurgercy) میں۔‘۔۔۔وہ افغان طالبان میرا یہ جواب سن کر گہری سوچ میں کھو گیا‘‘:
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
پچھلے دنوں ایک دوست نے فون کیا اور پوچھا کہ انڈیا کب تک افغانستان میں ٹھہرا رہے گا؟ میں نے جواب دیا کہ جب تک امریکہ وہاں موجود ہے، انڈیا بھی موجود رہے گا لیکن جس دن یہ بساط الٹی، تمام بھارتی فوراً واپس وطن ’’ہجرت‘‘ کر جائیں گے۔۔۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ تو کم از کم 2025ء تک یہاں ٹھہرنے کا پروگرام بنا چکا ہے اور اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو افغانستان میں پوست کی کاشت ہوتی ہے اور دوسرے وہ افغانی معدنیات ہیں جو دنیا کے دوسرے علاقوں میں کم کم دستیاب ہیں۔ ان کا استدلال تھا کہ ناٹو فورسز کے جو بڑے بڑے کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر اترتے ہیں اور تلاشی دیئے بغیر براستہ چمن و طورخم قندھار اور جلال آباد پہنچ جاتے ہیں ان میں افیون سے ہیروئن بنانے کے کیمکلز ہوتے ہیں جن میں ٹنوں کے حساب سے ’ایسیٹک این ہائیڈرائڈ‘‘(Acetic Enhydride) نامی کیمیکل بھی شامل ہے جو افیون کو ہیروئن بناتا ہے ۔ اس منشیات فروشی کا سارا کاروبار سی آئی اے (CIA) کے ہاتھ میں ہے جس کو کنٹرول کرنے والے عیسائی نہیں، یہودی ہیں اور یہودیوں کو کچھ پرواہ نہیں کہ اس ہیروئن سے کون مرتا ہے۔۔۔ عیسائی یا مسلمان۔ افغانستان میں دنیا کی 90فیصد افیون پیدا کی جاتی ہے جو مختلف ادویات (Drugs) بنانے کے کام آتی ہے یہ کاروبار اربوں ڈالر پر پھیلا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔


میں نے ان کو بتایا کہ یہ کاروبار امریکہ کی عدم موجودگی میں بھی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ طالبان حکومت نے اپنے دور (1995ء تا2001ء) میں پوست کی کاشت کا تقریباً خاتمہ کر دیا تھا لیکن کون جانے کل کے طالبان اگر افغانستان پر قابض ہو جائیں تو ان کا جواب وہی ہو جو سرسید احمد خان نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے قیام کے سلسلے میں چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں ایک انڈین ریڈ لائٹ ایریا کی طوائفوں سے چندہ مانگنے کی مہم کے دوران اپنے نقادوں کو دیا تھااور کہا تھا: ’’میں اس رقم سے یونیورسٹی کے غسل خانے اور لیٹرینیں بنواؤں گا!‘‘۔۔۔اور جہاں تک افغانستان کی قیمتی معدنیات کا تعلق ہے تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ امریکی افغانستان میں مقیم رہ کر یہ رقوم حاصل کریں۔ امریکی لوگ ان معدنیات کو خریدنے کا ہُنر جانتے ہیں۔۔۔ مستقبل کی افغان ائر کو چند بوئنگ دے کر وہ سال بھر کی معدنیات کا خرچہ نکال سکتے ہیں۔۔۔ آخر سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں بھی تو وہ یہی کچھ کر رہے ہیں!
افغانستان سے اگر کوئی عنصر امریکہ کو نکال سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف طالبان کے وہ حملے ہیں جن میں امریکی ٹروپس کی ہلاکت کا لارج سکیل منصوبہ ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا امریکہ ویت نام کی دس سالہ جنگ (1969ء تا 1979ء) سے اس وقت بھاگا تھا جب اس کے 58000ٹروپس ہلاک اور ایک لاکھ سے زیادہ اپاہج ہو گئے تھے۔ جب تک یہی کارروائی افغانستان میں نہیں کی جاتی، امریکہ یہاں سے نہیں نکلے گا اور بھارت، چانکیہ کی تعلیمات کی ’’روشنی‘‘ میں اپنی دوغلی پالیسی کو اس وقت تک طول دیتا رہے گا جب تک امریکہ، افغان سرزمین پر موجود ہے۔۔۔ 1980ء کے عشرے کے آخری برسوں میں سوویت یونین کی افواج کا آخری سپاہی بھی جب دریائے آمو کے پل کو پار کر کے واپس ماسکو چلا گیا تھا تو اس کے جلد ہی بعد سوویت یونین سکڑ کر ’’روس‘‘ رہ گیا تھا۔۔۔ اب دیکھتے ہیں کہ 21ویں صدی کے اگلے عشرے میں امریکہ کے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آتا ہے یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ قیمت پر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے!
کب ڈوبے کا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات

مزید :

کالم -