جنگ کا دباؤ یا دباؤ کی جنگ
سیاست دانوں کے لئے اپنی ہی لغزشیں اور غلطیاں کیا کم ہیں کہ وہ اپنے کمزور کندھو ں پر دوسروں کے گناہوں کا بھی بوجھ ڈھوتے پھریں۔دکھ تویہ بھی ہے کہ سیاست دانوں کو دشنام تو بہت دیئے گئے مگر انہیں داد کبھی نہیں دی گئی کہ سیاست کے مقتل میں کبھی کبھی کئی سرفروش سینہ تان کر کھڑے پائے گئے۔کڑے وقتوں اور بگڑے موسموں میں انہی کی صفوں سے اٹھنے والے اٹھے اور انہوں نے سودوزیاں سے بے نیاز ہو کر صحرا میں تکبیر تک کہہ ڈالی۔پی پی اور ن لیگ کی کھلم کھلا گھتم گھتا میں کیا دونوں جانب کے قائدین کو اندازہ نہیں کہ مفاہمت سے مخالفت تک کے سفر کی منزل کیا ہوگی؟یااخی الحبیبی!آپ کس دنیا میں بستے ہو کہ دونوں کو سب سے زیادہ اور خوب خوب اندازہ ہے،مگر مصیبت یہ کہ انسان اپنے شخصی و نجی طبائع کے اثرات ومفادات سے آزاد ہو توکیسے اور کیونکر۔باتیں دو ہیں:اولاًکہ عام انتخابات کا معینہ وقت قریب آیا چاہتا ہے اور ثانیاًزرداری صاحب’’دوستی نبھانے‘‘کی آڑ میں دوست اور اپنا آپ بچانے پر مجبور ٹھہرے اور بس۔ادھر میاں صاحب دن رات مچھلی کی مانند تڑپا کئے لیکن پھر بھی ان کی زبان تالو سے چپکا کئے ۔آخر کب تک ؟ کب تک آخر؟
زرداری صاحب سندھ میں اپنی ہی خزاں و بہار او ر گرمی و سردی چاہتے ہیں کہ اوپرپورے برف کے کنارے اور نیچے ندی نالے سارے کہ ان کے سوتے چاہے سوکھ جائیں یا پھوٹے پڑیں۔۔۔ان کے اشارۂ ابرو سے۔مینہ کاجمگھٹا لگا ہو کہ دہقان کا کھلیان میں ہل جو تنا ہو ،پیڑ اور پودے پیلے پڑیںیا مرغزار و سبزہ زار کی مانند لہلہا اٹھیں۔۔۔بس وہی مالک و مولیٰ اور ذمہ دار و سزا وار ہوں۔کوئی ایسی گستاخ ندا نہ ہو کہ جس کے منادی وہ ہوں اورکوئی ایسی ویسی گونگی انگلی بھی نہ اٹھے کہ جن کا ہدف ان کی ذات ہو ۔ان کی تو خواہش کہ سندھ دب اکبر پر واقع ہو یا مشتری و زہرہ یا پلوٹو و عطارد کوئی ایسا سیارہ و سحابیہ ہو کہ سندھیوں کے معاملات ومسائل وہیں طے یا تہہ ہوں اوراس کا مجاز ومختار کوئی اور نہیں وہی بلوچی لاشریک ہوں۔یہ ایپکس کمیٹیاں ،یہ کرپشن کی کہانیاں،یہ وزیراعظم کے دورے ،یہ رینجرز کے چھاپے،وزارت داخلہ کا عمل دخل یا مرکز کااثرو رسوخ۔۔۔ نہ بابا ناں!اس سے تو ان کی جاں جائے ہے ۔
دوسری جانب حکام یا تو یونہی آنکھوں پر ٹھیکری دھر لیںیا پھرپی پی کے نازک آبگینوں کو ٹھیس نہ لگنے دیں کہ پارٹی کے شریک چیئرمین نے انہیں سینت سینت اور سنبھال سنبھال رکھا ہے ۔اگر نہیں تو جناب زرداری کی ناراضگی کا اثر حکومت اور سیاست دونوں پر پڑتا جائے گا اور سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جائے گا ۔کپتان ہی کیا کم ہیں کہ آئے روز سر پھوڑتے رہتے ہیں اوراگر زرداری صاحب نے بھی نئی نئی دیواریں چُننا شروع کردیں تو بس پھر طے جانیئے کہ آئندہ سیاسی سفر کا نصف حصہ مفاہمت نہیں مزاحمت میں تمام ہو گا ۔لیکن نہیں کہ یہ معاملہ اور مسئلہ اتنا سادہ و سہل نہیں ۔۔۔ مرد حر کا لقب پانے والے نے کچھ نادیدہ ہاتھوں کو دیکھ لیا ہے کہ جو اُن کی جانب بڑھا چاہتے ہیں۔ جبھی تو جناب زرداری صاحب کی ناراضگی کا اثر سیاسی شفق کی سرخی پر پھیلنے لگا ہے ،ان کی خفگی کا تاثر اپنے ہی مفاہمتی میدان کی ہریالی چاٹنے چلا ہے اور رات بھر انہوں نے جو سوت کاتا تھا،اب وہ الجھنے لگا ہے ۔
زرداری صاحب کے اعلانِ جنگ کے پیچھے سیاسی مصالح کم اور اپنے دوستوں کو بچانے بلکہ دوستوں سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اپنا آپ بچانے کا مسئلہ زیادہ اہم ہے۔ جنگ کا دباؤ یا دباؤ کی جنگ ۔۔۔ممکن ہے زرداری صاحب کی یہ حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی وقتی اور ہنگامی لحاظ سے درست ہو ،مگرملک کی مجموعی سیاست پر اس کے اثرات بڑے مضر اور دوررس ہونگے۔سوال اٹھایا جانا چاہئے کہ آخر پاکی سیاست کب شخصی اور نجی مفاد سے بلند ہو گی ؟یارو!غم گسارو!کوئی تو ہو جو ملکی مفاد اور طویل المیعاد سیاست کا بانی مبانی یا حکیم ربانی قرار پائے ۔ترقی یافتہ اقوام وملل میں عام انتخابات کے اریب قریب سیاسی جماعتیں مخالفت اور مزاحمت کی ہی حکمت عملی اپنایا کئے ،لیکن ان کا مطلوب و مقصود عوامی فلاح و بہبود ،حکومتی پالیسیاں اور ملکی و قومی مفاد ہوتا ہے اور وہ اسی مرکزی وکلیدی چوکھٹے میں رہ کر ہی اپنے مفادات اور منزلوں کا عرق کشید کیا کئے۔پاک سر زمیں تو ایسی نادرۃ الارض اور اس کا زمانہ ایسا عجائب الدھر ٹھہرا کہ ہماری سیاست پون صدی کے سفر کے بعد بھی اپنی انا کے گبند میں بند ہے ۔باالفاظ دیگر یوں کہئے کہ تدریجی ارتقا کے بعد بھی پاکی سیاست گردشِ لا یعنی کی لعنت میں مبتلا ٹھہری۔
میاں صاحب کی بھی مجبوریاں ،مصلحتیں اور معاملے اب ایک ایسے دوراہے پر آن کھڑے ہیں کہ شاید و باید۔کراچی میں کرپشن اور قتل وغارت وہ گوارا کر نہیں سکتے اور سیاست میں عداوت و مخاصمت کا عنصر بھی انہیں بھاتا نہیں۔ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد پی پی کا پار ہ چڑھنا بے جا نہیں کہ بات اب چل نکلی ہے اور دور تک جائے گی۔ضربِ عضب اور کراچی آپریشن نے حکومت کو ایک ایسے بیابان و بے آب صحرا میں لا کھڑا کیا کہ انسان ڈرے بھی ،مرے بھی اور آگے بڑھے بھی ۔ یہ گھتی شاید سلجھ جاتی ،یہ گنجلک شاید گھمبیر نہ ہوتی اور یہ گرہ شاید دانتوں سے ہی کھول لی جاتی۔۔۔ اگر ہمارے تمام سیاست دان شخصی و نجی احساسات و تاثرات اور مفادات و مصلحت سے اوپر اٹھ آتے ۔کرپشن اور قتل و غارت کرنے والوں سے برات کا اعلان کرتے اور صاف و سیدھی راہ پر چل کر سیاست کے شجر سے ثمر پاتے۔ہر آدمی اپنی فہم ،جزا و سزا اور اپنے عمل کا خود ہی حق دارو ذمہ دار ہوتا ہے۔ سیاست دان ہر گز ہرگز اس کے سزا وار نہیں کہ وہ اپنے کمزور کندھوں پر کسی ڈاکٹر یا کسی ٹارگٹ کلر کے جرم کا بھی بوجھ اٹھانے چلیں۔۔۔وہ اپنی ہی کوتاہیوں ،کمیوں اور کجیوں کی درستگی کا ساماں کر لیں تو یہی بہت بڑی بات ہے بابا!