اسلام اور قائداعظمؒ کا احسان (1)

اسلام اور قائداعظمؒ کا احسان (1)
 اسلام اور قائداعظمؒ کا احسان (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈاکٹر مبارک علی خود اپنے قلم سے لکھتے ہیں کہ ’’مَیں ایک محقق اور اسکالر ہوں‘‘۔ حالانکہ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے ’’قراردادِ لاہور‘‘ کے بارے میں جو کچھ ارشاد کیا ہے، اس کے بعد ان کا محقق اور اسکالر ہونے کا دعویٰ درست معلوم نہیں ہوتا۔ جو شخص تحریک پاکستان کو ایک نام نہاد جدوجہد قرار دے اور جس کی تحقیق یہ ہو کہ ’’قرارداد لاہور‘‘ ایک انگریز وائسرائے نے اپنی ایگزیکٹو کونسل کے ایک رکن چودھری محمد ظفر اللہ سے لکھوائی تھی جو آل انڈیا مسلم لیگ نے 23مارچ 1940ء کو لاہور میں اپنے سالانہ اجلاس میں پیش کر دی تھی، مَیں اس شخص کے بارے میں اگر کوئی قابل اعتراض زبان استعمال نہ بھی کروں تو بھی تحریک پاکستان کو ایک نام نہاد جدوجہد قرار دینے والے کسی صاحب کو کم از کم محقق اور اسکالر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ ’’قرارداد لاہور‘‘ کے حوالے سے ڈاکٹر مبارک علی کی بے ڈھنگی، نامعقول، اوٹ پٹانگ اور بے سروپا تحقیق کا جواب محترم مجیب الرحمن شامی اپنے کالم میں دے چکے ہیں۔ یہ کالم دو اپریل 2017ء کو روزنامہ ’’پاکستان‘‘ اور روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی بھی ہمت سے کام لیں اور اگر ان کے پاس مجیب الرحمن شامی کے کالم میں بیان کئے گئے حقائق کا کوئی جواب ہے ،تو وہ بھی اپنا نقطہ ء نظر پیش کریں۔ تاہم ان سے ایک درخواست ہم ضرور کریں گے کہ وہ اپنی عادت کے مطابق جھوٹ، فریب اور دروغ گوئی کا سہارا نہ لیں۔ تحقیق کے نام پر جھوٹ لکھنا کسی طور بھی قابلِ تحسین نہیں ہوتا۔ تحقیق ایک دقت طلب کام ہے۔چھان پھٹک، کھوج اور محنت کے ساتھ سراغ لگا کر اصلیت معلوم کرنا یہ ڈاکٹر مبارک علی جیسے نام نہاد محقق اور اسکالر کے بس میں ہی نہیں۔


’’قرارداد لاہور‘‘ کے بارے میں ڈاکٹر مبارک علی کے کسی جھوٹ کو اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ ’’قرارداد لاہور‘‘ سے متعلق یہ انتہائی لغو اور بے بنیاد بات ہے کہ اس قرارداد کا اصل محرک یا مصنف کوئی انگزیر وائسرائے تھا۔ ’’قرارداد لاہور‘‘ صرف 23مارچ 1940ء کو ہی پیش نہیں کی گئی تھی۔ مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست کا جو تصور 1930ء میں علامہ اقبال نے پیش کیا تھا اور پھر 1937ء اور 1938ء میں قائداعظم کے نام علامہ اقبال کے لکھے گئے خطوط کا اگر مطالعہ کر لیا جائے تو ’’قرارداد لاہور‘‘ کا مفہوم وہاں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ آپ کو نظر آ سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے آپ کے پاس بصارت کی قوت کے ساتھ ساتھ بصیرت کا جوہر ہونا بھی ضروری ہے۔ دانائی اور دانش اگر کسی اسکالر میں موجود ہو اور بدنیتی اور بددیانتی کے باعث اگر کسی نام نہاد محقق کا دماغ ماؤف اور ضمیر بے حس نہ ہو چکا ہو تو اسے سرسید احمد خان کی تحریروں میں بھی ’’قرارداد لاہور‘‘ جلوہ افروز دکھائی دے سکتی ہے۔


تحریک پاکستان کوئی خفیہ تحریک نہیں تھی۔ یہ تحریک سب کے سامنے شروع ہوئی اور پروان چڑھی۔ ابتدا میں یہ تحریک کمزور تھی لیکن جوں جوں برصغیر کے مسلمانوں میں اپنے حقوق کے حوالے سے شعور بڑھا۔ ہماری غفلت اور بے عملی دور ہوتی گئی اور جب ہم میں یہ احساس بیدار ہوا کہ انگریزوں کے بعد ہم ہندوؤں کی بدترین غلامی کے دائمی طور پر شکار ہو جائیں گے۔ اگر مسلمانوں کی ایک الگ، خود مختار اور آزاد ریاست کا قیام عمل میں نہ لایا گیا تو تحریک پاکستان ایک زندہ اور توانا تر تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ پاکستان صرف ’’قرارداد لاہور‘‘ منظور کر لینے سے قائم نہیں ہوگیا تھا۔ قدم قدم پر مسلمانوں کو اپنے سے آبادی کے اعتبار سے تین گنا بڑی ہندو قوم کی طاقت کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سکھ اور قوم پرست مسلمان جماعتوں کی شدید مخالف بھی تحریک پاکستان کے حصے میں آئی۔ انگریزوں نے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی مخالفت کے لئے مختلف مراحل میں کون کون سے اقدامات کئے، یہ سب کچھ بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ بہت سارے غیر جانبدار ہندو محققین نے اپنی کتابوں میں ہندوستان کی تقسیم کا قائداعظمؒ سے زیادہ ذمہ دار نہرو اور پٹیل کو ٹھہرایا ہے۔ لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ تحریک پاکستان ایک مثبت تحریک تھی۔ چنانچہ ہم نے اپنی اسلامی اقدار اور ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے مذہبی نصب العین کے مطابق ہمارا جو منفرد معاشرتی اور سیاسی نظام ہے، اسے مسلمانوں کی ایک آزاد اور خود مختار مملکت ہی میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے ہمیں اپنے 1930ء کے تاریخی خطبے میں یہی درس دیا تھا کہ اسلام فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔


ہمارا یہ بھی یقین تھا کہ مسلمانانِ ہندوستان اپنے اندر اسلامی روح کو اسی صورت میں برقرار رکھ سکتے ہیں اور ہم اپنے مسلم کلچر اور روایات کو آزادانہ طور پر اسی صورت میں نشوونما دے سکتے ہیں، جب مسلمانوں کا ہندوستان میں ایک الگ آزاد وطن قائم ہوگا۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ ’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام ایک تمدنی قوت کی حیثیت سے زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کریں۔‘‘ علامہ اقبالؒ کے خطبہ ء الہ آباد کے الفاظ ہی درحقیقت قرارداد لاہور کی بنیاد ہیں۔1930ء کے خطاب ہی میں علامہ اقبال کے یہ الفاظ بھی موجود ہیں کہ ’’مسلمانوں نے نہیں، بلکہ اسلام نے آڑے وقتوں میں مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا ہے۔ اگر آج بھی آپ اپنی نگاہیں اسلام پر جمادیں اور اس کے زندگی بخش تصور سے متاثر ہوں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں از سر نو جمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہو جائے گا‘‘۔ جب ہندوستان آزاد ہو رہا تھا یا ہندوستان کی آزادی میں چند سال ابھی باقی تھے، اس وقت مسلمان قوم کے لئے سب سے تشویشناک بات یہ تھی کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔ اس وقت اسلام نے ہمیں نئی زندگی بخشی، ہم میں آزادی کی روح بیدار کی، اسلام ہی کے جھنڈے تلے ہم ایک قوم کے طور پر حصول آزادی کے لئے آگے بڑھے۔ ’’قراردادِ لاہور‘‘ نے ہمیں متحد نہیں کیا بلکہ اسلام نے ہمیں متحد کیا۔ اسلام ہی نے ہمیں یہ راہ دکھائی کہ برصغیر میں ایک آزاد وطن کا قیام ہی مسلمانوں اور خود اسلام کی بقاء کے لئے ناگزیر ہے۔ برصغیر کے مسلمان ایک ملت واحدہ کے طور پر آگے بڑھے اور اگر ہم قائداعظم کی قیادت میں ایک ناقابل تسخیر سیاسی قوت نہ بن چکے ہوتے تو قیام پاکستان کا معجزہ کبھی رونما نہیں ہو سکتا تھا۔ (جاری ہے)


اگر مسلمانانِ برصغیر 1946ء کے انتخابات میں اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنی واحد نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کو ثابت نہ کر چکے ہوتے تو کیا اگست 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آ سکتا تھا؟ اسلام نے ایک مشکل وقت میں ہماری مدد کی اور ہمیں بتایا کہ ملت اسلامیہ کے لئے ہلاکت و بربادی سے محفوظ رہنے کا واحد راستہ قیام پاکستان ہے۔ قیام پاکستان کسی انگریز وائسرائے کی ضرورت نہیں تھی۔مسلمانوں کا آزاد وطن ہماری ضرورت تھی۔ اس سچائی اور حقیقت پرتحریک پاکستان کے زمانے ہی میں نہیں بلکہ آج بھی ہمارا اس بات پر ایمان ہے کہ قیام پاکستان کا فیصلہ ہی درست تھا۔ پھر قیام پاکستان صرف قائداعظمؒ یا آل انڈیا مسلم لیگ کا فیصلہ نہیں تھا، اسی دور کے برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی آواز اور مشترکہ جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان قائم ہوا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کی قلیل تعداد جو قیام پاکستان کے خلاف تھی۔وہ سب بھی ہجرت کرکے پاکستان آ گئے تھے۔ وہ لوگ جو فطرتاً معقول تھے اور اپنے اندر خُبثِ باطن نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے کھلے دل سے قیام پاکستان کو تسلیم کیا اور اپنی رائے کی غلطی کا بھی ڈنکے کی چوٹ پر اعتراف کیا۔ ایسے تمام افراد ہمارے لئے قابل تعظیم ہیں۔ مگر کوئی شخص جب یہ کہتا ہے کہ اسے اگر قیام پاکستان کے موقع پر ووٹ دینے کا اختیار ہوتا تو وہ ووٹ پاکستان کے خلاف دیتا۔ایسے شخص میں اگر ضمیر نے غیرت اور حمیت نام کی کوئی چیز موجود ہے تو پھر اسے پاکستان چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ نقطہ ء نظر یا رائے کی آزادی نہیں کہ قیام پاکستان کی مقدس جدوجہد کو کوئی ناشکرا اور ناسپاس گزار شخص نام نہاد جدوجہد قرار دے ڈالے۔


ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ وہ ایک اسکالر ہیں اس لئے قابل اعتراض زبان استعمال نہیں کرتے۔ اس سے زیادہ قابل اعتراض ، غیر مہذب بلکہ شرمناک زبان استعمال کرنے کا بدصورت ترین انداز اور کیا اپنایا جا سکتا ہے کہ آپ جس ملک کے شہری ہیں ، جس کی فضاؤں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جس نے آپ کو دانشوری کے دعوے کے قابل بنایا، اس ملک کی آزادی کے لئے کی گئی جدوجہد کو آپ نام نہاد قرار دے رہے ہیں۔ یوم پاکستان منانے سے آپ کو خوشی نہیں ہوتی۔ ’’قرارداد لاہور‘‘ کے بارے میں آپ کی نام نہاد تحقیق یہ کہتی ہے کہ برطانوی حکومت کی توثیق کے بعد اسے آل انڈیا مسلم لیگ نے اختیار کیا تھا۔ قائداعظمؒ اور تحریک پاکستان کی پوری مسلمان قیادت کو اس سے بڑھ کر غیر مہذب انداز میں گالی اور کیا دی جا سکتی ہے کہ قرارداد لاہور کا اصل مسودہ ایک انگریز وائسرائے نے تیار کروایا تھا۔ وہ انگریز حکمران جنہوں نے آخری وقت تک کیبنٹ مشن کی شکل میں بھی ہندوستان کی تقسیم کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ کیا آل انڈیا مسلم لیگ کی 23مارچ 1940ء کی قرارداد ان کے کھاتے میں ڈالی جا سکتی ہے؟ یہ احسان فراموشی اور ناشکرے پن کی انتہا ہے کہ اگر ایک شخص نے زندگی بھر کی محنت، مشقت اور اپنی حلال روزی سے ایک مکان بنایا ہو اور اسی میں مقیم اس کا بیٹا یہ ارشاد فرمائے کہ یہ مکان دراصل میرے باپ نے نہیں بنایا بلکہ میرے باپ کے ایک بدترین دشمن نے ہمارے فائدے کے لئے تعمیر کیا تھا تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی؟پاکستان تو سات کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے لئے ایک سائبان اور ایک پناہ گاہ تھی جو بانی ء پاکستان قائدا عظم محمد علی جناح ؒ کا ہمارے لئے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے بھی ایک عظیم احسان ہے۔ اگر کوئی نامسعود نامبارک اور منحوس شخص قائداعظم ؒ کے اس احسان کو نہیں مانتا اور قیام پاکستان کے متعلق اس کی یہ رائے ہے کہ یہ مسلمانوں کے بدترین دشمن انگریز کی ہم پرمہربانی تھی۔ تو مَیں ایسی نامعقول ’’تحقیق‘‘ کو حد درجے کا ناپسندیدہ اور ناگوار بلکہ قابل نفرت فعل سمجھتا ہوں۔ پاکستان کا حوصلہ دیکھو، پاکستان کا ظرف دیکھو اور ہم پاکستانیوں کی قوت برداشت دیکھو کہ ہم بڑے تحمل اور بردباری سے ایسے منحوس افراد کا وجود بھی پاکستان میں قبول کئے ہوئے ہیں جو قیام پاکستان کے عظیم کارنامے کے حوالے سے قائداعظمؒ کے کردار کی پاکیزگی اور دیانتداری کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرتے ہوئے بھی شرم و حیا محسوس نہیں کرتے۔ اگر ایسی مخلوق کسی اور ملک میں پائی جاتی اور وہ اس ملک کے قیام ہی کو کسی سازشی تھیوری کا نتیجہ قرار دیتی تو ان غداروں کو زندہ جلا کر ان کی راکھ کو بھی ہوا میں اُڑا دیا جاتا

مزید :

کالم -