کیا تحریک انصاف خود استعفوں پر ڈبل گیم نہیں کر رہی

کیا تحریک انصاف خود استعفوں پر ڈبل گیم نہیں کر رہی
 کیا تحریک انصاف خود استعفوں پر ڈبل گیم نہیں کر رہی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ پھر گرم ہو گیاہے۔ اب تحریک انصاف اس سے جان چھڑا رہی ہے۔ لیکن استعفے ہیں کہ تحریک انصاف کی جان ہی نہیں چھوڑ رہے ۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ن لیگ اور میاں نوازشریف ان سے ڈبل گیم کر رہے ہیں۔ ایک طرف ان کو اسمبلی میں آنے کے لئے کہا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف ان کو اسمبلی میں ذلیل کیا جا رہا ہے۔


میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف ٹھیک کہہ رہی ہے۔ایسا ہی ہو رہا ہے لیکن تحریک انصاف خود ایک بند گلی میں پہنچ گئی ہے۔ یہ استعفے انہیں بند گلی میں لے گئے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ انہیں بند گلی میں کچھ نہ کہا جائے بلکہ با عزت بند گلی سے نکلنے کی اجازت دے دی جائے۔ لیکن سیاست میں ایسا نہیں ہو تا۔ سیات کے بازار میں رحم اور بھیک نہیں ملتی۔ یہ تخت اور تختہ کا بازار ہے۔ ایک دوسرے کی بے بسی کا تماشہ دیکھنا یہاں کی روایت ہی نہیں اصول بھی ہے۔


ویسے تو یہ بھی کہا جا تا ہے کہ آپ جو سلوک دوسروں کے ساتھ کریں وہی سلوک آپ کے ساتھ بھی ہو تا ہے۔ اس کو جیسا کرنا ویسا بھرنا بھی کہا جا تا ہے۔ تحریک انصاف کیا اپنے گریبان میں جھانک کر یہ کہہ سکتی ہے کہ اس نے ن لیگ کے ساتھ کہیں بھی کسی بھی لمحہ پر کوئی رحم کیا ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھ کوئی رعایت کی گئی ہے جو آج رعایت مانگی جا رہی ہے۔ کیا صرف ن لیگ اور میاں نواز شریف سیاست کر رہے ہیں۔ کیا تحریک انصاف اورعمران خان استعفوں پر سیاست نہیں کر رہے۔ پہلے استعفےٰ دئے گئے اور ان کی تصدیق نہیں کی گئی۔ کیا یہ درست نہیں کہ شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کے ارکان استعفے دینے کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں آئے۔ لیکن ان میں اتنی جرات نہیں تھی کہ جاوید ہاشمی کی طرح اپنے استعفوں کی تصدیق کا اعلان کرتے۔ سپیکر کے با ر بار بلانے کے باوجود بھی تحریک انصاف استعفوں کی تصدیق کے لے تیار نہ تھی۔


اور اب بھی تحریک انصاف اور اس کے ارکان استعفیٰ دینے کے لئے تیار نہیں وہ یہ تو کہہ رہے ہیں کہ جب تک ان کے خلاف جے یو آئی (ف) اور ایم کیو ایم کی تحریک کا معاملہ حل نہیں ہو جا تا وہ ایوان میں نہیں آئیں گے۔ پہلے یہ معاملہ حل کر لیا جائے وہ پھر آئیں گے۔ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ان کے استعفے قبول کئے جائیں ۔ وہ خود دوبارہ انتخابی مہم کی قیادت کریں گے۔ لیکن تحریک انصاف میں اب بھی اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ کہہ دے کہ اچھا ہم چالیس دن نہیں آئے ہم نے استعفے دئے تھے ہمیں اس پر کسی رعایت اور خاص سلوک کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم دوبارہ جیت کر آئیں گے۔ ویسے تو شاہ محمود قریشی ایوان میں بہت تقریر کرتے ہیں۔ ذرا اسمبلی میں اٹھ کر یہ تو کہیں ہاں میں نے استعفیٰ دیا تھا۔ ہاں میں نے استعفیٰ دیا تھا ۔ مجھے کوئی رعایت نہیں چاہئے۔ میں دوبارہ جیت کر آجاؤں گا۔ لیکن شاہ محمود قریشی کوئی جاوید ہاشمی ہے جو اتنی بہادری کا کام کرے۔ وہ ایک سمجھدار آدمی ہیں۔ جو ہر چال سوچ سمجھ کر کھیلتے ہیں۔ اس لئے وہ جاوید ہاشمی کی طرح اصولوں کے چکر میں کوئی حماقت نہیں کریں گے کہ کل کو گھر بیٹھنا پڑ جائے۔


عمران خان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنے ارکان کو اسمبلی جانے سے روک دیا ہے۔ انہیں پتہ ہے کہ نہ جانے سے تنخواہیں اور دیگر مراعات مل ہی جاتی ہیں۔ ارکان کا کو ئی نقصان نہیں صرف پاکستان کا نقصان ہے۔ لیکن پاکستان کی کس کو فکر ہے۔ کیوں نہیں عمران خان کہتے کہ ہم دوبارہ جیت کر آئیں گے اور اگر ہمارے استعفے پہلے قبول نہیں ہوئے تو ہم دوبارہ دے دیتے ہیں اور ہم عوام کے پاس ہی جائیں گے لیکن عمران خان کو پتہ ہے کہ دوبارہ جیتنا بہت مشکل ہو جا تا ہے۔ویسے بھی آپ جس چیز کی جتنی بے توقیری کریں وہ آپ سے اتنی دور ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف پارلیمنٹ کی جتنی توہین کر رہی ہے شائد پا ر لیمنٹ ان سے اتنی دور ہو جائے۔


یہ استعفیٰ کی سیاست ابھی چلے گی۔ فرض کر لیں اگر جے یو آئی (ف) اور ایم کیو ایم اپنی تحاریک واپس لے لیتی ہے یا ان تحاریک کے خلاف ایوان میں ووٹ آجا تا ہے تب بھی استعفوں کا یہ معاملہ حل نہیں ہو گا۔ پارلیمنٹ کے بعد یہ معاملہ شائد عدالتوں میں بھی جائے اسی لئے ن لیگ اس کے خلاف ووٹ نہیں دینا چاہتی تا کہ کل کو عدالت میں اس پر کوئی ذمہ داری نہ آئے۔


عمران خان کو پتہ ہے کہ ابھی ان کے لئے ضمنی انتخاب کا ماحول سازگار نہیں ہے وہ مسلسل ضمنی انتخاب ہار رہے ہیں۔ ان کے مضبوط امیدوار بھی ہار رہے ہیں۔ خود شاہ محمود قریشی بھی اپنے حلقہ میں ایک ضمنی انتخاب ہارے ہیں۔ اس لئے اب تحریک انصاف خود دوبارہ استعفیٰ نہیں دے گی۔ بس ناراض ہو کر گھر بیٹھ جائے گی اور اس پوری ٹرم میں وہ کئی دفعہ نا راض ہونگے اور کئی دفعہ مانیں گے لیکن یہ کیوں کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ اور میا ں نواز شریف ہی ان کو ہر مرتبہ منائیں اور ان کی بدتمیزیاں بھی خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔ شائد سیاست میں ایسا نہیں ہو تا۔

مزید :

کالم -