جنوبی پنجاب کی محرومیاں

جنوبی پنجاب کی محرومیاں
 جنوبی پنجاب کی محرومیاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چند روز پہلے محکمہ اطلاعات ملتان کے ایک دوست افسر کافون آیا، ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف پیف سکالر شپ تقسیم کرنے کی تقریب میں شرکت کیلئے بہاولپور آرہے ہیں، سیکرٹری صاحب کی خواہش ہے کہ ملتان کے کالم نگاروں کو اس تقریب میں شرکت کیلئے بہاولپور لایا جائے، اس لئے آپ تیار رہیں، کل صبح ساڑھے سات بجے بذریعہ ویگن بہاولپور کیلئے رختِ سفر باندھا جائے گا۔ میں نے کہا بھائی اتنی صبح تو میں نہیں جاسکتا، ویسے بھی یہ کوئی مناسب بات نہیں کہ وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم جب کبھی جنوبی پنجاب کے دورے پر آجائیں تو ان کا دور سے دیدار کرنے کیلئے محکمہ اطلاعات والے ہمیں ویگنوں میں بھر کے لے جائیں، یہ اچھوتوں والا سلوک کم از کم مجھے تو پسند نہیں اس لئے میری معذرت قبول کیجئے۔ شام کے وقت نوائے وقت کے کالم نگار اظہر سلیم مجوکہ کا فون آیا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ وہ نہیں جارہے کیونکہ محکمہ اطلاعات والے یہاں سے ہمیں وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ملوانے کے نام پر پہلے ویگن میں بھر کے لے جاتے ہیں اور وہاں پنڈال میں بٹھا کر خود نظر بھی نہیں آتے۔


قصہ مختصر ملتان سے کوئی ایک کالم نگار بھی وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی اس تقریب میں شرکت کیلئے بہاولپور نہ گیا۔ صرف سیاسی ڈائری لکھنے والے چند صحافی اور رپورٹرچلے گئے۔ اس میں قصور محکمہ اطلاعات ملتان کا ہرگز نہیں کہ کالم نگار وزیر اعلیٰ کی ایسی تقریبات میں نہیں جاتے بلکہ صوبائی محکمہ اطلاعات کا ہے، جو لاہور سے باہر دیکھتا ہی نہیں۔ جنہیں پنجاب صرف لاہور تکہی نظر آتا ہے اور وہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی بریفنگز یا کالم نگاروں سے ملاقاتوں کیلئے لاہور سے باہر دیکھتے ہی نہیں، انہیں ہم جیسے مضافاتی کالم نگاروں کی یاد صرف اس وقت آتی ہے، جب وزیر اعلیٰ لاہور سے باہر دورے پر نکلتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ صرف وزیر اعلیٰ کی شکل دیکھنے کیلئے ہم ویگن پر بیٹھ کر سوا سو کلو میٹر کا سفر کر کے فخر محسوس کریں گے۔


جنوبی پنجاب آج کل احساسِ محرومی کی انتہاؤں کو چھورہا ہے، وکلاء سیاستدان، قوم پرست جماعتیں، تاجر تنظیمیں حتیٰ کہ اخبار فروش تنظیموں کے عہدیداروں نے بھی جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کی حمایت کا اعلان کردیا ہے اور باقاعدہ اس تحریک میں شامل ہوگئی ہیں۔ بیوروکریسی نے ہر معاملے میں ایک تقسیم پیدا کر رکھی ہے۔ اب اسی بات کو لیجئے کہ وزیر اعلیٰ جب جنوبی پنجاب میں آتے ہیں تو ان افسروں کو ملتان کے کالم نگار یاد آجاتے ہیں۔ یعنی وہ انہیں صرف اسی علاقے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔میں گزشتہ تیس برسوں سے قومی اخبارات کے ادارتی صفحہ پر کالم لکھ رہا ہوں، میرے دس ہزار سے زائد کالم شائع ہوچکے ہیں، میرے کالموں کے اکثر موضوعات قومی سطح کے ہوتے ہیں، اگرچہ میں نے ان گنت کالم جنوبی پنجاب کے مسائل اور محرومی پر بھی لکھے ہیں۔ مجھے یا مجھ جیسے لاہور اور اسلام آباد سے دور رہنے والے کالم نگاروں کو کبھی قومی سطح کی بریفنگز کے لئے نہیں بلایا جاتا، حالانکہ ہم زیادہ بہتر طور پر قومی مسائل کے حوالے سے اپنے علاقے کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔ لاہور یا اسلام آباد بلانا توخیر دور کی بات ہے۔ اگر وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نے جنوبی پنجاب کے دور دراز شہروں مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور یا اوچ شریف جانا ہو تو لاہور یا اسلام آباد سے ساتھ آنے والے کالم نگاروں کو تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے لے جایا جاتا ہے،ملتان والوں کو کئی گھنٹے پہلے ویگنوں میں لاد کر واضح طور پر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔


جب ملک رفیق رجوانہ گورنر پنجاب بنے تو ایک دن مجھے گورنر ہاؤس لاہور کے افسر تعلقات عامہ کی طرف سے فون آیا کہ گورنر صاحب نے آپ کو کل ظہرانے پر مدعو کیا ہے، براہ کرم بارہ بجے گورنر ہاؤس پہنچ جائیں۔ میں نے پوچھا ’’ بھائی میں نے پہنچنا کیسے ہے؟ ‘‘کہنے لگے کہ آپ شاہراہ قائد اعظم والے گیٹ سے آئیں گے وہاں آپ کا نام موجود ہوگا۔ میں نے کہا حضرت میں تو ملتان میں رہتا ہوں، ملتان سے لاہور پہنچنے کا پوچھ رہا ہوں۔ فرمانے لگے اس بارے میں تو مجھے کچھ معلوم نہیں، آپ ڈائیوو سے آجائیں۔ میں نے کہا حضور اگر دو اڑھائی ہزار روپے خرچ کر کے میں نے لنچ کرنے ملتان سے آنا ہے تو میں ملتان کے کسی اچھے ہوٹل میں ایک ہزار روپے میں یہی کام کرلوں گا۔ یہ واقعہ یہاں درج کرنے کا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ لاہور میں رہتے ہوئے یہ شہ دماغ اس خمار سے باہر نہیں نکلتے کہ اقتدار ان کے پاس ہے اور لوگ ایک بلاوے پر کشاں کشاں چلے آئیں گے۔ مجھے معلوم ہے کہ بہاولپور میں پیف سکالر شپ کی بہت اچھی تقریب ہوئی، وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے بہت دلچسپ باتیں کیں اور غریب مگر ذہین نوجوانوں کی اس سکالر شپ کے ذریعے زندگی بدلنے کے کئی واقعات سنائے اور تقریب میں موجود والدین سے بھی سرائیکی میں محبت بھری گفتگو کی، لیکن ہم اس تقریب میں اس لئے نہیں گئے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی میڈیا ٹیم کا ہم سے کوئی موثر رابطہ ہی نہیں۔ ہم اس ٹیم کے نزدیک بوقت کام آنے والے وہ دیہاڑی دار ہیں جو صبح سویرے چوک پر آکر بیٹھ جاتے ہیں کہ کوئی آئے اور انہیں لے جائے۔ نہیں صاحب ایسا نہیں، تخلیق کار کے پاس خود داری نہ رہے تو وہ رس نکلے ہوئے گنے کے پھوک جیسا رہ جاتا ہے۔

جنوبی پنجاب کے اہل فکر و نظر اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ پنجاب کی آدھی آبادی پر مشتمل خطے کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا۔ آخر وہ کون سی طاقت ہے جو اس خطے کے عوام کو ان کا حق نہیں دینا چاہتی۔ حتیٰ کہ اقتدار میں جانے والے اس علاقے کے لوگوں کو بھی بے بس کر کے رکھ دیتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال گورنر پنجاب رفیق رجوانہ ہیں، انہوں نے چند ماہ پہلے بڑے فخر سے یہ اعلان کیا تھا کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ سیکرٹریٹ قائم کرنے کی منظوری دیدی گئی ہے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری سمیت صوبائی محکموں کے تمام سیکرٹری اب ملتان سیکرٹریٹ میں بھی تعینات کئے جائیں گے۔ علیحدہ صوبہ مانگنے والوں نے اسے لولی پاپ قرار دیا، مگر عام طور پر گورنر صاحب کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا گیا۔ تاہم یہ اعلان صرف اعلان تک ہی محدود رہا اور اب تو گورنر رفیق رجوانہ اس پر بات تک نہیں کرتے۔اگر کوئی سوال کرے تو انتظامی مجبوریاں گنوانا شروع کردیتے ہیں ان کی بے بسی پچھلے دنوں گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان میں ایمرسونین کی سالانہ تقریب کے موقع پر بھی دیکھی گئی۔ انہوں نے اس بات پر تو فخر کا اظہار کیا کہ جب وہ ایچی سن کالج کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے، تو انہوں نے کہا کہ وہ ایچی سونین ہیں اور نہ ابدالین بلکہ ٹاٹیئن ہیں، یعنی ٹاٹ والے سکولوں کے پڑھے ہوئے۔ اس اجلاس میں تو انہوں نے ایچی سن کالج کے لئے 6کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان بھی کیا۔ مگر دوسری طرف گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کے پرنسپل ڈاکٹر محمد سلیم نے جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے کالج جس میں طالب علموں کی تعداد ساڑھے 9ہزار ہے، کے لئے بڑھتے ہوئے مسائل کے پیش نظر ایک کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کرنے کی عرضداشت پیش کی تو انہوں نے کہا کہ ایسی کسی گرانٹ کے رسمی اعلان کی ضرورت نہیں یہ ان کا اپنا کالج ہے وہ اس کے لئے ضرور کچھ کریں گے۔ بس یہی وہ وعدہ فردا ہے جو جنوبی پنجاب میں ہر سطح پر کیا جاتا ہے اور اس پر عملدرآمد کی نوبت کبھی نہیں آتی۔


ملتان لاہور کے بعد اب پنجاب کا سب سے بڑا میڈیا حب ہے۔ تمام قومی اخبارات یہاں سے نکلتے ہیں اور تمام ٹی وی چینلز کے بیورو یہاں کام کررہے ہیں۔ حیرت ہے کہ پی آئی ڈی، محکمہ اطلاعات پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے میڈیا منیجر اس بڑے شہر کو بھی ایک چھوٹے سے مفافاتی شہر کی طرح ڈیل کرتے ہیں، قومی سطح پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی بریفنگز میں اس خطے کے اہل قلم بھی ہوں تووہ بھی انہیں زیادہ بہتر طور پر اس علاقے کی تصویر پیش کرسکیں گے، مگر صرف نظریۂ ضرورت کے تحت اس علاقے کے کالم نگاروں کو استعمال کرنے کی پالیسی ہی اپنانی ہے تو شاید اب یہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔ *

مزید :

کالم -