سیاسی مسافروں سے پارٹیاں مضبوط نہیں ہوتیں

سیاسی مسافروں سے پارٹیاں مضبوط نہیں ہوتیں
 سیاسی مسافروں سے پارٹیاں مضبوط نہیں ہوتیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمران خان سیاست سے اتنے بے خبر اور ناواقف ہوں گے۔ یہ مجھے علم نہیں تھا۔ مَیں اِس بات کو عمران خان کی سیاسی بے خبری کہوں یا تجاہلِ عارفانہ کہ انہوں نے کہا ہے کہ ڈاکٹر فردوس اعوان کی شمولیت سے پنجاب میں تحریک انصاف مضبوط ہو گی۔ ڈاکٹر فردوس اعوان کا سیاسی اثرو رسوخ تو ضلع سیالکوٹ میں بھی صرف قومی اسمبلی کے ایک حلقہ تک محدود ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں اپنے حلقے کے علاوہ ڈاکٹر فردوس اعوان کو خواجہ محمد آصف کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا شوق بھی پیدا ہوا تھا۔ خواجہ آصف اور پی ٹی آئی کے امیدوار کے مقابلے میں ڈاکٹر فردوس اعوان کو صرف تین ہزار ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن کے روز وہ انتخاب لڑنے سے دستبردار ہو گئی تھیں۔ الیکشن کے روز دستبرداری کی وجہ بھی یہ تھی کہ ڈاکٹر فردوس اعوان کو علم ہو چکا تھا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ110کے ووٹرز ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس لئے عوام کے موڈ کو سمجھ لینے کے بعد انہو نے الیکشن سے راہِ فرار اختیار کرنے ہی میں اپنی عافیت محسوس کی تھی۔ اب اس حلقہ کی بات کر لیتے ہیں جہاں ڈاکٹر فردوس اعوان خود کو مضبوط ترین امیدوار خیال کرتی تھیں۔ وہاں سے فردوس اعوان کے حاصل کردہ ووٹ 50ہزار کے لگ بھگ تھے اور کامیاب ہونے والے امیدوار چودھری ارمغان سبحانی کے ووٹ ایک لاکھ 38 ہزار تھے، یعنی جیتنے والے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کو88ہزار ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔ اس حلقے سے تحریک انصاف کے امیدوار چودھری اجمل چیمہ کے ووٹ صرف26ہزار تھے۔ میرا سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے جس حلقے سے ڈاکٹر فردوس اعوان خود کو ناقابلِ شکست سمجھی بیٹھی تھیں اس حلقے سے بھی وہ ارمغان سبحانی کے مقابلے میں عبرت آمیز شکست سے دوچار ہو گئی تھیں، تو کیا اُس ڈاکٹر فردوس اعوان سے یہ امید وابستہ کی جا سکتی ہے کہ وہ تحریک انصاف کو پورے پنجاب میں مضبوط کر سکتی ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر فردوس اعوان کی شمولیت سے تحریک انصاف ضلع سیالکوٹ میں بھی مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہو جائے گی۔ ویسے بھی ڈاکٹر فردوس اعوان کا سیاسی سفر کچھ زیادہ قابلِ رشک نہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وہ ایک فوجی آمر کی تشکیل کی ہوئی جماعت مسلم لیگ(ق) میں شامل ہو گئی تھیں اس سے پہلے ان کے بھائی پیپلزپارٹی کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔جب مسلم لیگ(ق) عام انتخابات کے حوالے سے اہم نہ رہی تو فردوس اعوان نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور وہ ممبر قومی اسمبلی بھی منتخب ہو گئیں۔پیپلزپارٹی نے انہیں بہت عزت دی اور اطلاعات و نشریات جیسی اہم وفاقی وزارت بھی انہیں سونپ دی گئی،لیکن پیپلزپارٹی جب فردوس اعوان کو سیاست میں سہارا دینے کے لئے قابل نہیں رہی تو فردوس اعوان نے پیپلزپارٹی سے بھی آنکھیں پھیر لینے کا فیصلہ کر لیا۔اُردو کی ضرب المثل ہے:


آنکھیں پھیرے طوطے کی سی
باتیں کریں مَینا کی سی
پیپلزپارٹی سے فردوس اعوان کو یہ بے رخی بہت مہنگی پڑی ہے۔ ڈاکٹر فردوس اعوان کے قریبی ساتھی اور پیپلزپارٹی کے گزشتہ عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے امیدوار میاں عابد جاوید نے فی الفور فردوس اعوان سے اپنے سیاسی راستے الگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ پچھلے عام انتخابات میں ڈاکٹر فردوس اعوان کے تمام انتخابی اخراجات میاں عابد جاوید ہی نے برداشت کئے تھے۔ اب عابد جاوید نے اپنے تمام وسائل اور عوامی رابطے فردوس اعوان کے خلاف استعمال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ضلع سیالکوٹ کے سابق ناظم میاں نعیم جاوید کا قومی اسمبلی کے حلقہ111میں اپنی آرائیں برادری کے علاقوہ دوسری برادریوں میں بھی گہر اثرو رسوخ ہے۔ ان کی وج�ۂ شہرت یہ ہے کہ ضلع بھر کے ناظم ہونے کے باوجود مالی کرپشن کے حوالے سے ان کا کبھی کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ میاں نعیم جاوید کے بعد محمد اکمل چیمہ ضلع سیالکوٹ کے ناظم منتخب ہوئے تھے۔ وہ بھی ایک نیک نام ناظم ثابت ہوئے۔ سیاست میں دیانتداری پر ثابت قدم رہنا ایک قابلِ تحسین بات ہے۔ میاں نعیم جاوید بھی قومی اسمبلی کے حلقہ111سے الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ کے خواہش مند ہیں اور سابق ضلع ناظم سیالکوٹ محمد اکمل چیمہ کے بڑے بھائی محمد اجمل چیمہ گزشتہ انتخابات میں اسی حلقے میں تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر تھے۔وہ دوبارہ بھی اسی حلقے میں قسمت آزمانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔قومی اسمبلی کے حلقہ 111 ہی سے سابق سپیکر قومی اسمبلی چودھری امیر حسین بھی تحریک انصاف سے ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ چودھری امیر حسین بھی فردوس اعوان کی طرح مختلف وقتوں میں سیاسی وفا داریاں تبدیل کرتے رہے ہیں۔ اس لئے وہ دونوں اپنے حلقے کے عوام میں اب سیاسی مقبولیت سے محروم ہو چکے ہیں۔بہرحال آئندہ انتخابات میں اگر تحریک انصاف نے این اے111سے ڈاکٹر فردوس کو ٹکٹ دینے کی غلطی کی تو چودھری امیر حسین، میاں نعیم جاوید اور اکمل چیمہ یہ سب لوگ فردوس اعوان کے خلاف میدان میں نکل کھڑے ہوں گے۔پیپلزپارٹی کے جیالے ووٹرز چاہے ان کی تعداد چند ہزار ہی کیوں نہ ہو وہ بھی فردوس اعوان کے خلاف سرگرم عمل ہو جائیں گے۔ امکان یہ ہے کہ فردوس اعوان کی تحریک انصاف میں شمولیت سے ناراض ہونے والے تحریک انصاف کے تمام رہنما بھی قومی اسمبلی کے حلقہ111میں آخر کار چودھری ارمغان سبحانی کی حمایت کریں اور آئندہ انتخابات میں ارمغان سبحانی کی برتری کے تناسب میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو معلوم ہونا چاہئے کہ سیاسی مسافروں اور سیاسی لاوارثوں کے شامل ہونے سے پارٹی مضبوط نہیں ہوتی، بلکہ اس کا الٹا اثر یہ ہوتا ہے کہ پارٹی مزید انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔ڈاکٹر فردوس کوئی اچھا سیاسی ریکارڈ لے کر تحریک انصاف میں شامل نہیں ہوئیں، ان کی آمد سے تحریک انصاف کو کچھ حاصل نہیں ہو گا، لیکن نقصان تحریک انصاف کو ضرور ہوا ہے، کیونکہ قومی اسمبلی کے حلقہ 111 کے تین سیاسی دھڑے تحریک انصاف کو لازمی چھوڑ دیں گے۔ تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ اس میں نظریاتی اور اصول پسند سیاست دانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ناراض، مایوس یا بے وفا سیاست دانوں نے تحریک انصاف میں عارضی پناہ لے رکھی ہے۔ اگر ان کی سیاسی ضرورتیں تحریک انصاف سے پوری نہ ہوئیں تو یہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر کسی اور سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔ڈاکٹر فردوس بھی صرف ٹکٹ کی امید پر تحریک انصاف میں شامل ہوئی ہیں۔ ان کی یہ امید اگر مایوسی میں تبدیل ہوئی تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ عمران خان اور ان کی جماعت سے اپنی وابستگی برقرار رکھیں۔ ڈاکٹر فردوس کی تحریک انصاف میں شامل ہوتے ہوئے تقریر بھی حد درجہ دلچسپ تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان پاکستان کے چہرے سے کرپشن کے داغ اتارنے کے لئے جو جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس سے متاثر ہو کر وہ تحریک انصاف میں شامل ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر فردوس کی مراد یہ ہے کہ وہ بدعنوان سیاست دانوں کو چیلنج کرنے پر عمران خان کے کردار سے اتنا خوش اور مطمئن ہوئی ہیں کہ انہوں نے عمران خان کے قافلے میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ق) کو چھوڑ کر پیپلزپارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پیپلزپارٹی کی بے انتہا کرپشن سے متاثر ہو کر کیا تھا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے دوسری خوبی عمران خان کی یہ بیان کی ہے کہ وہ پہلے سے موجود نظام کو بدل دینا چاہتے اور گلے سڑے نظام سے ملک کو نجات دِلانا چاہتے ہیں۔ نعرے کی حد تک تو یہ خوبیاں پہلے بھی تحریک انصاف میں موجود تھیں،لیکن ملک کے گلے سڑے سیاسی اور بدعنوان سیاسی کلچر کے ذمہ دار سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد کے تحریک انصاف میں شامل ہونے اور اس کے مرکزی عہدوں پر قابض ہونے کے بعد اب تحریک انصاف کا اصل پروگرام پس منظر میں چلا گیا ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کا منشور اور عمران خان کی قیادت ہی متاثر کن تھی تو ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان 2017ء کے بجائے 2007ء ہی میں تحریک انصاف میں شامل ہو سکتی تھیں۔ پھر دس سال ڈاکٹر صاحبہ نے پیپلزپارٹی میں ضائع کیوں کر دیئے۔اصل بات یہ تھی کہ اقتدار پسند سیاست دان دس سال پہلے عمران خان کی جماعت کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے تھے کہ اس میں شمولیت اختیار کی جائے۔ جب ہوا کا رُخ تبدیل ہوا ہے تو موسموں کی طرح سیاسی وفا داریاں بدلنے والوں کو بھی خیال آ گیا ہے کہ اب تحریک انصاف میں شامل ہونا اُن کے لئے فائدے کا سودا ہے۔ سیاسی سوداگروں کے فیصلے ہوا کا رُخ دیکھ کر تبدیل ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے پروگرام دیکھ کر نہیں،لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جس سیاسی جماعت میں سیاسی مسافروں کا ہجوم زیادہ ہو جائے وہ سیاسی جماعت آخر کار خسارے میں رہتی ہے۔مَیں دوبارہ اپنے الفاظ دہراؤں گا کہ سیاسی مسافروں سے پارٹیاں مضبوط نہیں ہوتیں، بلکہ کمزور ہوتی ہیں۔

مزید :

کالم -