125 ۔۔دونوں جماعتیں ضمنی انتخاب کے لئے تیار نہیں
بہت دنوں بعد تحریک انصاف کو خوش ہونے کا موقع ملا۔ بہت دنوں بعد انہیں سیاسی میدان میں تازہ ہوا کا جھونکا ملا ہے۔ ریحام خان سے لیکر پوری تحریک انصاف خوش ہے۔ ویسے تو سعد رفیق بھی فیصلہ کے بعد مسکراء ا رہے تھے۔ ان کے چہرے پر بھی خوشی تھی۔ لیکن ایک عام رائے یہ ہے کہ وہ جان بوجھ کر مسکرا رہے تھے۔ کیونکہ انہیں مسکرانا نہیں چاہئے تھا۔ لیکن سعد رفیق ایک مشکل میں تھے کہ وہ کیاکرتے۔ اگر وہ سنجیدہ رہتے تو سب کہتے کہ ٹربیونل کے فیصلہ کے بعد سعد رفیق غمزدہ تھے ۔ پریشان تھے ۔ اس لئے سنجیدہ تھے۔ اب جب انہوں نے مسکرانے کا فیصلہ کیا تو بھی کہاجا رہا ہے کہ یہ مسکراہٹ اصلی نہیں تھی۔ اس طرح ٹربیونل کا فیصلہ خلاف آنے کے بعد وہ جو بھی کرتے وہ قابل قبول نہیں تھا۔ یہ ان کا دن نہیں تھا۔
اطلاعات تو یہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ مسلم لیگ(ن) فوری الیکشن میں جانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ جیوڈیشل کمیشن کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو امید ہے کہ جیوڈیشل کمیشن کا فیصلہ اس کے حق میں آئے گا ۔ اس لئے وہ چاہتی ہیں کہ ایک دفعہ یہ فیصلہ ہو جائے کہ دھاندلی نہیں ہوئی پھر سعد رفیق کی نشست پر ضمنی انتخاب لڑا جائے ۔ تا کہ تحریک انصاف کو جو سیاسی برتری حاصل ہے۔ اسے پہلے ختم کیا جائے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کو بھی فری الیکشن کروانے کی جلدی نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا براہ راست اثر جیوڈیشل کمیشن پر بھی ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کو ڈر ہے کہ اگر وہ ہار گئی تو اس کا سیاسی بستر گول ہو جائے گا۔ اس لئے تحریک انصاف اورمسلم لیگ (ن) دونوں جیوڈیشل کمیشن کے بعد ضمنی انتخاب چاہتی ہیں۔ اس طرح یہ لڑائی اب سپریم کورٹ میں لڑی جائے گی۔ کہ ضمنی انتخاب کو روکا جائے۔
ٹربیونل کا فیصلہ آنے کے بعد ہر کوئی یہ سوال کر رہا تھا کہ اب کیا ہو گا۔ کیا سارا انتخاب کالعدم ہو جائے گا ۔ کیا اس سال دوبارہ انتخابات ہو جائیں گے۔ کیا ریٹرننگ افسران کی دھاندلی ثابت ہو گئی۔ کیا واقعی جسٹس (ر) افتخار چودھری نے ریٹرننگ افسران کے ذریعے انتخابات میں دھاندلی کی تھی۔ یہ فارم 14 کیا ہے۔ نادار کا شناختی کارڈ بھی جعلی ہو تا ہے۔ انگوٹھوں کی تصدیق کیوں نہیں ہو رہی۔ میں نے جس سے کہا کہ یہ ایک حلقہ کا فیصلہ ہے اس کا باقی حلقوں پر کوئی اثر نہیں ۔ وہ میرا منہ دیکھتا ۔ مسکراتا اور کہتا کہ آپ کہتے ہیں تو مان لیتے ہیں۔ سیاست میں تو ہوا چلتی ہے۔ جدھر کو چل جائے۔ اس میں اکیلا کچھ نہیں ہو تا۔
بہر حال ایک بات تو طے ہے کہ جلدی یا دیر سے قومی اسمبلی کے حلقہ 125 میں ضمنی انتخاب دوبارہ ہو گا۔ سوال تو یہ ہے کہ انتخاب میں کیا ہو گا۔ کیا کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواجہ سعد رفیق جیت جائیں گے۔ یا تحریک انصاف اس بات کو سچ ثابت کر دے گی کہ اس کی مقبولیت قائم ہے۔ اگر خواجہ سعد رفیق یہ ضمنی انتخاب جیت جائیں گے۔ تو اس سے ان کے سیاسی قد میں کئی گنا اضاٖفہ ہو گا۔ وہ مسلم لیگ (ن) میں مزید اگلی صفوں میں آجائیں گے۔ لیکن اگر وہ یہ انتخاب ہار جاتے ہیں تو وہ مسلم لیگ (ن) میں بہت پیچھے چلے جائیں گے۔ ان کی پہلے ہی کافی مخالفت ہے۔ ان کے مخالفین کوان پر وار کرنے کا موقع مل جائے گا۔ دوسری طرف تحریک انصاف بھی پنجاب میں ہار برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس سے اس کو سیاسی طور پر نا قابل تلافی نقصان ہو جائے گا۔ پہلے ہی کراچی کا انتخاب ہارنے کے بعد تحریک انصاف کی مقبولیت پر سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ بھی فوری انتخاب کی حمائت نہیں کر رہی ہے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔ اور اگر سپریم کورٹ نے فوری انتخاب کروانے کا حکم دے دیا تو دونوں جماعتیں مشکل میں پھنس جائیں گی۔اس طرح قومی اسمبلی کے حلقہ 125 کے ضمنی انتخاب کے اعلان نے وقتی طور پر دونوں جماعتوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
الیکشن ٹربیونل کا فیصلہ پاکستان کے سیاسی منظر نامہ پر اپنا اثر قائم رکھے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی حلقوں کے حوالے سے وہ ٹربیونل کیافیصلے کرتے ہیں۔ ویسے تو اس سے پہلے تجزیہ نگار اس بات پر متفق تھے کہ سپیکر ایاز صادق کے حوالے سے ٹربیونل کا فیصلہ سیاسی طور پر گیم چینجر ہو گا۔ سب کو امید تھی کہ یہ فیصلہ پہلے آئے گا۔ لیکن پہلے 125 کا فیصلہ آگیا۔ کیونکہ اگر سردار ایاز صادق کے حلقہ میں دوبارہ انتخاب ہو تا ہے تو قومی اسمبلی میں سپیکر کا انتخاب بھی دوبارہ ہو گا۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہو تا تو یہ طے ہو جائے گا کہ عمران خان خود ہارے تھے۔ اس لئے شائد تحریک انصاف تمام ٹربیونلز کے فیصلے آنے تک ضمنی انتخاب روکنا چاہتی ہے۔ جہاں تک ریٹرننگ افسران کا سوال ہے تو یہ جیوڈیشل افسران تھے۔ کیا اعلیٰ عدلیہ ان کے خلاف کارروائی کے لئے تیار ہوگی۔ آج تک تو ایسا نہیں ہوا ہے۔ اور شائد یہی عدالتی نظام میں خرابیوں کی وجہ ہے۔ ان ریٹرننگ اور پریزائیڈنگ افسران کے خلاف بلا شبہ کارروائی ہونی چاہئے۔ شائد یہ واحد نقطہ ہے جس پر اس وقت سعد رفیق اور عمران خان متفق نظر آرہے ہیں۔ لیکن یہ ایک مشکل کام ہے۔ لیکن کبھی تو یہ کڑوی گولی کھانی ہو گی۔ اور شائد اس کا وقت اب آگیا ہے۔ کیونکہ عوامی رائے عامہ اب اس کام کے لئے مکمل طورپر ہموار ہو چکی ہے۔