پاکستان کی اصل بنیاد اسلام ہے

پاکستان کی اصل بنیاد اسلام ہے
پاکستان کی اصل بنیاد اسلام ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ممکن ہے کہ قائداعظم کے الفاظ مختلف ہوں، لیکن مجھے ان کے ایک فرمان کا مفہوم یاد آ رہا ہے۔ ان کا ارشاد یہ تھا کہ برصغیر میں ایک مختلف نظریئے اور وطنیت کی بنیاد اس وقت رکھ دی گئی تھی، جب اس سرزمین پر پہلے فرد نے دینِ اسلام قبول کر لیا تھا۔ مسلمانوں کے علیحدہ قومی تشخص کی بنیاد اسلام ہے۔ علامہ اقبال نے جو فرمایا تھا کہ اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے اور یہ کہ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی تو یہی وہ نظریہ ء پاکستان ہے جو پاکستان کی اصل بنیاد ہے۔ انگریزوں کی غلامی کے بعد ہندوؤں کے غلبہ سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کا واحد راستہ یہی تھا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی ایک الگ آزاد اور خود مختار مملکت قائم کی جائے۔ ہندوؤں کے ساتھ رہ کر ایک جمہوری نظام میں مسلمان اپنی روحانی، دینی، معاشرتی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتے تھے، کیونکہ ہندوؤں کے تین ووٹ تھے اور مسلمانوں کا ایک ووٹ تھا۔ ہندو قوم کبھی مسلمان قوم کو آزاد دیکھنا پسند نہیں کرتی تھی اس لئے ہندو قوم کی پوری سیاسی قیادت پاکستان کے قیام کے مخالف تھی۔ ہندو نہ صرف مسلمانوں کی آزادی کے خلاف تھے، بلکہ 1937ء کے انتخابات کے بعد جب کانگرس کی حکومت قائم ہوئی تو ہندوؤں نے اپنے مذہبی تعصب سے ثابت کر دیا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو کبھی بھی انصاف نہیں مل سکتا۔ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظمؒ جیسے ہمارے قائدین اپنی دوراندیشی، دانشمندی اور حقیقت پسندی کی بدولت اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ مسلمانوں کا بطور قوم مستقبل محفوظ کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ایک الگ ریاست کی شکل میں مسلمان آزادی کی نعمت سے مکمل طور پر بہرہ ور ہوں۔
1936ء میں علامہ اقبال نے حیدرآباد دکن کے ایک صحافی بادشاہ حسین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان قوم ایک مجاہدانہ پس منظر رکھنے والی قوم ہے اور اس مجاہد قوم کی صلاحیتوں اور قوتوں کو استعمال کرکے مسلمانوں کو منزل مراد تک پہنچانے کا فریضہ صرف محمد علی جناح ادا کر سکتے ہیں۔ مسٹر جناح کے علاوہ دوسرا کوئی لیڈر اس مشکل کام کو سرانجام نہیں دے سکتا۔ جب صحافی کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ مسٹر جناح عوامی سطح پر مقبول لیڈر نہیں تو علامہ اقبالؒ کا جواب تھا کہ ’’محمد علی جناح ایک ایسے کردار، اخلاق، فہم و تدبر اور عزم محکم کے مالک ہیں کہ وہ اپنی ان خوبیوں کے باعث بہت جلد ایک ایسے عوامی ہیروں بن جائیں گے کہ ابھی تک ویسا کوئی اور لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا۔ مسٹر جناح برطانوی استعمار اور نوکرشاہی کی اصلیت سے بخوبی واقف ہیں اور وہ کانگریس کی ذہنیت کے بھی بھیدی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان دونوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور ان کو شکست بھی دے سکتے ہیں‘‘۔
علامہ اقبالؒ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے نہ صرف پاکستان کا تصور پیش کیا، بلکہ آزاد مسلم ریاست کے قیام کے لئے محمد علی جناح کی قیادت کو مسلمانوں کے لئے موزوں ترین قرار دیا۔ نئی آزاد مسلم ریاست میں مسلمانوں کے معاشی مسائل کے حل کے لئے بھی علامہ اقبال نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اگر اسلامی قوانین اچھی طرح سمجھ کر ان پر عمل بھی کیا جائے تو ہر شخص کے لئے روزی کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کے لئے جس خود مختار اور آزاد مملکت کا تخیل پیش کیا تھا۔ اسے عملی طور پر ممکن بنانے کے لئے 23مارچ 1940ء کو قرارداد لاہور منظور کی گئی، جس میں لفظ پاکستان تو استعمال نہ کیا گیا، لیکن واضح طور پر مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا اور قائداعظم کی بے مثال قیادت میں تحریک پاکستان کا باقاعدہ طور پر آغاز کر دیا گیا۔ مسلمانوں میں آزادی کا احساس تو کئی سال پہلے پیدا ہو چکا تھا، لیکن 23مارچ 1940ء کو یہ احساس ایک طاقت ور آواز کی صورت میں سامنے آیا۔ اب پوری قوم آزاد مملکت کے مطالبہ کے حق میں قائداعظم کی قیادت میں متحدہ اور منظم ہو چکی تھی۔ مسلمانوں نے اسلام کی بنیاد پر اپنی آزاد ریاست کے قیام کے لئے جمہوری طریقے سے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھایا اور صرف سات سال کی جدوجہد کے نتیجہ میں قائداعظمؒ کی قیادت میں ایک عظیم معجزہ رونما ہوا کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آ گئی۔
مسلمان قوم کی مرضی، تعاون، جدوجہد، بے مثال قربانیوں اور اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے قائداعظم کی قیادت میں ہمیں آزادی کی صورت میں جو کامیابی نصیب ہوئی۔ بعض بدباطن لوگ ہماری اس آزادی کو انگریز کا تحفہ قرار دیتے ہیں۔ مسلمانوں نے اپنے اسلامی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کے لئے جس آزاد مملکت کا مطالبہ کیا تھا اور مسلمانوں کے الگ وطن کی بنیاد ہی جب صرف اور صرف اسلام تھا تو یہ سب کچھ تو انگریزوں کے لئے ناقابل قبول ہی نہیں ناقابلِ برداشت بھی تھا۔ مسلمان قوم کی تعلیمی، مالی اور اقتصادی حالت کو تباہ و برباد کرنے والا انگریز تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر 1947ء تک انگریز قوم کی مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
ماؤنٹ بیٹن متحدہ ہندوستان میں برطانوی سامراج کا آخری وائسرائے تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس نے خود اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہندوستان کی طرح پاکستان بھی ماؤنٹ بیٹن کو گورنر جنرل کے طور پر قبول کرلے۔ جواہر لال نہرو کی دغابازی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی مکارانہ سیاست کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کا آخری فیصلہ کرتے ہوئے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔ اگر انگریز سامراج مسلمان قوم کے مخالف نہ ہوتا تو پاکستان جغرافیائی طور پر ایک کٹے پھٹے ملک کے طور پر وجود میں نہ آتا۔ ضلع گورداس پور اور ضلع فیروز پور دونوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور اصولی طور پر یہ اضلاع مکمل طور پر پاکستان میں شامل ہونے تھے لیکن ماؤنٹ بیٹن کی ناانصافیوں کی وجہ سے ان دونوں اضلاع کے اہم علاقے ہندوستان میں شامل کر دیئے گئے۔ ہندوستان کی جملہ سیاسی قیادت ماؤنٹ بیٹن سے اتنا خوش تھی کہ انہوں نے آزادی کے بعد بھی اس کو اپنا گورنر جنرل بنا دیا، لیکن پاکستان نے ہندوؤں کی نمائندہ جماعت کانگریس کے آلہ ء کار بن جانے والے ماؤنٹ بیٹن کی پاکستان کا گورنر جنرل بننے کی خواہش مسترد کر دی۔ چنانچہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کے پہلے گورنر جنرل خود قائداعظم تھے۔ جس طرح قیام پاکستان قدرت کا اٹل فیصلہ تھا۔ اسی طرح مملکت خداداد پاکستان کا پہلا گورنر جنرل خود بانی ء پاکستان کا ہونا بھی ایک خدائی فیصلہ تھا۔ اور زمین والوں میں یہ طاقت نہیں کہ وہ آسمان پر ہونے والے کسی فیصلے کو بدل ڈالیں۔ اگر پاکستان انگریز سامراج کا دیا ہوا تحفہ ہوتا تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے مقدر میں یہ شکست اور رسوائی کبھی نہ لکھی ہوتی کہ اس کی پاکستان کا گورنر جنرل بننے کی خواہش پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ مسترد کر دیتی۔ کانگریس جو قیام پاکستان کے سخت مخالف تھی۔ اس نے ہندوستان کی تقسیم کے بعد ماؤنٹ بیٹن کو اگر اپنا گورنر جنرل بنانا قبول کیا تھا تو اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ انگریز اور ہندو قوم دونوں میں قدر مشترک قیام پاکستان کی مخالفت تھی۔مسلمانوں نے اپنی آزادی کی جنگ اپنے زور بازو اور قائداعظم کی حکمت و دانائی کی وجہ سے جیتی تھی۔
(جناح اقبال فاؤنڈیشن کی تقریب میں پڑھا گیا)

مزید :

کالم -