لوڈشیڈنگ ، اووربلنگ اور عوامی اضطراب

لوڈشیڈنگ ، اووربلنگ اور عوامی اضطراب
 لوڈشیڈنگ ، اووربلنگ اور عوامی اضطراب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافے نے اپوزیشن جماعتوں سمیت حکومتی حلقوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی عوامی نمائندگی کا حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج کررہی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے ایک ماہ میں لوڈشیڈنگ کے بحران پر قابو پانے کے لئے چار میٹنگز کیں، پیپلزپارٹی کے دور میں لوڈشیڈنگ نے تمام حدود پار کر لی تھیں۔ مینار پاکستان کے تاریخی مقام پر وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے صوبے کا ذمہ دار ہونے کے باوجود مرکز کے خلاف احتجاج کی انوکھی روایت متعارف کرائی تھی۔ اپنے اجلاس مینار پاکستان کے سائے تلے منعقد کرکے احتجاجی کیمپ قائم کئے تھے۔ پنکھوں کی فلمیں تاریخ کا حصہ بن گئی تھیں۔ میاں شہبازشریف کے مینار پاکستان کے سائے تلے ہونے والے احتجاجی اجلاسوں سے لوڈشیڈنگ میں کمی نہ آئی تھی، بلکہ اس میں اضافہ ہوا تھا پھر 2013ء کے الیکشن میں میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف بالعموم عوامی جلسوں میں 6 ماہ میں قوم کو بجلی دینے کے مقبول وعدے کرتے نظر آئے مگر چار سال بعد لوڈشیڈنگ میں کمی نظر نہیں آئی۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف بلاشبہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں اس کے لئے کئی منصوبے بھی شروع کر رکھے ہیں اس کے باوجود لوڈشیڈنگ میں کمی کیوں نہیں ہو پائی۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں میاں نوازشریف میاں شہباز شریف کی ٹیم نے ہاتھ دکھایا ہے۔ میاں برادرن پُر امید تھے ان کے ساتھ جن کو ذمہ داری دی گئی ہے وہ فالواپ کرتے ہوں گے مگر ایسا نہیں ہو سکا، انہی دوستوں کا کہنا ہے اگر میاں نوازشریف کے ایک ماہ میں چار میٹنگز لینے سے لوڈشیڈنگ میں کمی شروع ہو گئی ہے۔ غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کم ہو گئی ہے تو چار سال میں ایسا کیوں نہیں کیا گیا اس کا جواب میاں صاحب کو لینا چاہیے۔ پیپلزپارٹی میاں شہبازشریف کی روایت پر عمل کرتے ہوئے مینار پاکستان کی بجائے ناصر باغ میں احتجاجی کیمپ لگا چکی ہے۔


تاریخ ایک دفعہ پھر اپنے آپ کو دھرا رہی ہے۔ کل میاں شہبازشریف آصف علی زرداری سے جواب مانگ رہے تھے آج قمر الزمان کائرہ اپنی ٹیم کے ہمراہ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف سے جواب مانگ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی دس دن سے گورنر ہاؤس سندھ کے باہر اووربلنگ کے خلاف دھرنا دیئے ہوئے ہے۔ لیاقت بلوچ کی قیادت میں لاہور میں جماعت اسلامی لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ کے خلاف دھرنا دے چکی ہے۔ ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ عمران خان کی دھمکی پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے احتجاج کے نتیجے میں لاہور میں کئی دن تک بجلی نہیں گئی۔ اب دوبارہ لوڈشیڈنگ شروع ہو گئی ہے۔ سخت گرمی کے باوجود لیسکو ایسا کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی اس نسخے کو تلاش کرنا چاہیے۔


اووربلنگ اور لوڈشیڈنگ دو مختلف مسائل ہیں۔ بجلی چوری تیسرا مسئلہ ہے وفاقی وزیر بجلی خواجہ آصف کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے وضاحت کو قوم نے مسترد کرتے ہوئے عوام سے مذاق قرار دیا ہے جس میں وفاقی وزیر فرماتے ہیں لوڈشیڈنگ ان علاقوں میں ہو رہی ہے جن علاقوں میں بجلی چوری ہوتی ہے۔ وفاقی وزیر کی طرف سے بیان بجلی چوری کا اعتراف ان کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے بجلی چوری جن علاقوں میں ہوتی ہے وفاقی وزیر جانتے ہیں پھر چوری نہیں روک پا رہے تو اس میں عوام کا کیا قصور بجلی چوری روکنا بجلی بلاتعطل فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔بڑی معذرت کے ساتھ وفاقی وزیر خواجہ آصف اور وزیر مملکت عابد شیر علی سے گزارش ہے۔ آپ کے نعرے وعدے اور دلائل اس وقت تک قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ جب تک آپ کچھ کرکے نہیں دکھا تے۔ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کو کم از کم میں قصور وار نہیں سمجھ سکتا جب تک پاور فل وفاقی وزیر اور وزیرمملکت اپنا قبلہ درست نہیں کر لیتے میں علامہ اقبال ٹاؤن کی گزشتہ چار سال کی مثال دے سکتا ہوں ہر دو گھنٹے بعد ایک گھنٹہ بجلی جاتی رہی ہے۔15 دن چار گھنٹے بجلی گئی ہے اب یکم مئی سے ہر دو گھنٹے بعد ایک گھنٹہ کی لوڈشیڈنگ کا عذاب پھر مسلط کر دیا گیا ہے۔


جناب والا لائن مین مافیا میٹر ریڈر مافیا اب بھی پہلے کی طرح گھروں میں دستک دے کر پوچھ رہے ہیں آپ ہم سے بل فکس کر لیں جتنے مرضی اے سی چلا لیں آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔یہ لیسکو کے ملازم آفرز دے رہے ہیں۔ بجلی چوروں کو تو آپ لوگ نہیں پکڑ سکتے آپ کے ملازمین مافیا کی صورت میں عوام کو لوٹ رہے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لیسکو کے لائن مین اسسٹنٹ لائن مین یا مافیاکا کوئی رکن سودے بازی کرتا ہے تو وہ وعدہ پورا کرتے ہیں۔10ہزار اگر بل کے علاوہ فکس رشوت لیتے ہیں تو واقعی ان کو کوئی نہیں پوچھتا ان کا بل 25سو روپے ہی آتا ہے۔ یہ منظم گروہ آپ کے افسروں کی زیر نگرانی دھندہ کررہا ہے۔


ایک اور بات فکس بل اور جتنے مرضی اے سی چلاؤ کا پیکیج قبول کرنے والے تو فائدہ میں رہتے ہیں مگر ان کے قریب دیگر گھروں کو سزا ڈبل دی جاتی ہے۔ لائن لاسز ان گھروں پر ڈالا جا رہا ہے۔ مصطفیٰ ٹاؤن میں ہمارے ایک دوست کے خالی پلاٹ پر مزدور نے ایک بلب لگا رکھا ہے۔ اس کو 35ہزار بل بھیج دیا گیا۔ لیسکو والے اپنی غلطی ماننے کے لئے بھی تیار نہیں ایک ماہ میں لاہور میں کرپشن کے دو بڑے سکینڈل سامنے آئے ہیں۔ ایک ذمہ دار سیکرٹری لیسکو کو نیب نے گرفتار کیا ہے اور دوسرا ایکسین 17کروڑ کے فراڈ میں گرفتار ہوا ہے فرضی اکاؤنٹس کھلوا کر ملازمین کی پنشن ہڑپ کی جا رہی تھی۔


وزیراعظم پاکستان جناب نوازشریف ،وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر بجلی و پانی خواجہ آصف، وزیر مملکت عابد شیر علی کی توجہ عوامی اضطراب کی طرف دلانا مقصود ہے۔ عوام حقائق جاننا چاہتے ہیں۔ تعاون کرنا چاہتے ہیں۔ جھوٹی تسلیاں جھوٹے وعدوں سے اب کام نہیں چلے گا۔ اپوزیشن کو بھی یہی پریشانی ہے۔ آپ کے منصوبے اگر 2018ء میں مکمل ہو گئے تو ان کو کچھ نہیں ملے گا۔ اس لئے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھئے اپنے محکموں اور واپڈا کی کمپنیوں میں مانیٹرنگ کے نظام کو از سر نو مرتب کیجئے اور اپنے عملے کو عوام کے لئے فرینڈلی بناتے ہوئے کرپشن مافیا پر پوری طاقت سے ہاتھ ڈالئے۔ اووربلنگ غریب کے لئے لوڈشیڈنگ سے بڑا مسئلہ ہے۔ عوام کا موقف بھی یہی ہے۔ 12گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کے باوجود بل اتنے آ رہے ہیں۔24گھنٹے بجلی آئے گی تو ہمارا کیا ہوگا، عوام کے سوال آپ سے ہیں جواب نہیں کام۔

مزید :

کالم -