اصل ذمہ دار پرویز مشرف ہیں
نائن الیون کے بعد جب امریکہ کو افغانستان کے خلاف کارروائی کا بہانہ میسر آیا۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب امریکہ نے ایک منصوبہ بندی کے تحت یہ سارے حالات پیدا کئے تو اس دور کے صدر پاکستان، فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو سات مطالبات کی ایک فہرست امریکہ کی طرف سے دی گئی۔
جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر امریکہ کے تمام مطالبات کو ایک حکم سمجھ کراپنا سرتسلیم خم کردیا۔ بلوچستان اور سندھ کے تین فضائی اڈے امریکہ کو افغانستان پرحملوں کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ان فضائی اڈوں سے اڑکر امریکی طیارے افغانستان کو تباہ و برباد کرتے رہے۔امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے پاکستان کے اندر بھی بمباری کی جاتی رہی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی فوج کے بیس کیمپ قائم ہوگئے۔
امریکہ کے خفیہ اداروں کے ہزاروں اہلکار جہاں چاہتے تھے، پاکستان میں پوری آزادی سے دندناتے پھرتے تھے۔ پاکستان کی آزادی اور خود مختاری مذاق بن کر رہ گئی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ساتھی جرنیلوں کی اس رائے کو بھی نظر انداز کردیا کہ پاکستان کو افغانستان کے خلاف امریکی جنگ میں خود کو غیر جانبدار رکھنا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف اس حد تک آگے چلے گئے کہ امریکہ کی بری فوج کو بلوچستان کے ساحل پر اتر کر افغانستان میں داخل ہونے کا راستہ بھی دے دیا گیا۔ جنرل پرویز مشرف میں یہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ آج اگرہم امریکہ کو اپنی سرزمین سے گزر کر افغانستان پر حملوں اور قبضے کے لئے ہر طرح کی سہولتیں دے رہے ہیں تو کل خود پاکستان کے لئے کتنے مسائل اور مصائب اٹھ کھڑے ہوں گے۔ جنرل پرویز مشرف کو صرف ایک ہی غرض تھی کہ وہ امریکہ سے تعاون کے صلے میں پاکستان میں اپنی حکومت کو مستحکم کرسکے گا اور اپنے اقتدار کی مدت میں جس حد تک ممکن ہو اضافہ کرتا رہے گا۔
ذاتی اغراض میں اندھا ہو کر ملکی وقومی مفادات کو یکسر نظر انداز کردیا گیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کو یہ ادراک بھی نہیں تھا کہ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد وہاں بھارت کے اثرورسوخ میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ بھارت پاکستان کا کھلا دشمن ہے۔ وہ ہر وقت ایسے مواقع کی تلاش میں رہتا ہے جن کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاسکے۔ آج پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے جتنی بھی تخریبی اور دہشت گردی کی کارروائیاں پاکستان میں ہوتی ہیں، ان میں بھارت اور افغانستان برابر کے شریک ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ظلم و ناانصافی یہ ہے کہ امریکہ بھی پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کی غلطی کا آغاز جنرل مشرف کے دور میں ہوا تھا۔اسی کے یہ نتائج ہیں، پاکستان کو دہشت گردی کی سینکڑوں نہیں ہزاروں کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ پاکستان کو جن اربوں ڈالر کی امداد کے طعنے امریکی صدر ٹرمپ ہمیں دے رہے ہیں۔
اس سے کئی گنازیادہ مالی نقصان پاکستان کو ہوچکا ہے اور جہاں تک جانی قربانیوں کا تعلق ہے۔ پاکستان کو انڈیا کے ساتھ ہونے والی تمام جنگوں میں بھی اتنا جانی نقصان نہیں ہوا تھا، جتنا نقصان ہمیں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا حلیف بن کر ہوا ہے۔ جنگ امریکہ کی تھی اور قربانیاں امریکیوں سے زیادہ پاکستانیوں نے دی ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی غیر معمولی قربانیوں کا احساس تک نہیں اور صدر ٹرمپ تو ہمیں مجرم قرار دے کر سزا دینے کا فیصلہ کرچکے ہیں، لیکن پاکستان تو اپنے حکمرانوں کی غلط حکمت عملی اور نالائقیوں کی سزا پہلے ہی بھگت رہا ہے۔ امریکہ پاکستان کے خلاف ایسی پابندیاں عائد کرنے کے عزائم رکھتا ہے، جیسی پابندیاں ایران اور شمالی کوریا کے خلاف امریکہ نے عائد کروارکھی ہیں۔ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا بدلہ ہم سے لینا چاہتا ہے۔ امریکہ جس طرح افغانستان میں ناکام ہوا ہے، اسی طرح وہ ہمارے خلاف بھی ناکام ہوگا، لیکن اس کے لئے قوم کو متحد ہونا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کو بھی یہ توفیق دے کہ وہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کی خاطر دانشمندی اور جرأت کے ساتھ ایسے فیصلے کرے جو صرف پاکستان کے مفاد میں ہوں۔ جنرل پرویز مشرف ہمیں جس جنگ میں پھنسا کر خودملک سے باہر جابیٹھے ہیں۔ اس جنگ سے ہمیں باہر نکلنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی عقل کے ناخن دے اور وہ ایسی حماقت نہ کرگزرے، جس کے نتیجہ میں امریکہ اور پاکستان دونوں کے مفادات کو نقصان پہنچے۔ ہمارے تو کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں ہیں، لیکن ہمیں اپنی قومی سلامتی کا دفاع تو کرنا ہے۔ کاش ہمارے حکمران اس وقت بھی قومی سلامتی اور استحکام کو اپنے پیش نظر رکھتے، جب نائن الیون کے بعد امریکہ کا ہر غلط مطالبہ ہم تسلیم کرتے چلے گئے اور ہمارے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے یہ تک نہ سوچا کہ مستقبل میں پاکستان کو اس کے کتنے خوفناک نتائج بھگتنا ہوں گے۔
یہ تو آئین توڑنے سے بھی بڑا جرم ہے کہ جنرل مشرف نے محض اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر قومی مفادات کو بیچ ڈالا اور آج ہمارے لئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہیں اور ہمیں راستہ نظر نہیں آرہا کہ کس طرح دہشت گردی کے اس عفریت سے نجات حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے حبیبؐ کے صدقے پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈر ان کرام اپنے اپنے سیاسی مفادات میں اندھے ہو کر قوم کی صفوں میں انتشارپیدا نہ کریں، بلکہ اپنی سیاسی رنجشوں کو بھلا کر ایک ایسی مشترکہ اور مستقل قومی پالیسی ترتیب دیں جو پوری قوم کی آرزوؤں کی مظہر اور ملکی سلامتی کی ضامن ہو۔جب ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں تو پھر ایسی صورت حال نیک شگون نہیں ہے جو فی الوقت سیاست دانوں نے ملک میں پیدا کررکھی ہے۔
اس وقت ملک کو مضبوط اور محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ ملک قائم اور سلامت رہے گا تو سیاست بھی ہوتی رہے گی۔ اس وقت صرف ملک کے لئے سوچیں۔ پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہماری ساری خوشیاں وطن کی وجہ سے ہی ہیں۔ یہ چمن مہکتا رہے گا تو ہماری جھولی بھی پھولوں سے خالی نہیں رہے گی۔