امریکی وزیر دفاع کا دورۂ پاکستان

امریکی وزیر دفاع کا دورۂ پاکستان
 امریکی وزیر دفاع کا دورۂ پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پرسوں 4دسمبر 2017ء کو جب جنرل میٹس (Mattis) پاکستان کے پہلے دورے پر نور خان ائر بیس اسلام آباد پر اپنے ’’لاؤ لشکر‘‘ سمیت اترے تو ان کے استقبال کو میجر جنرل باسط رضا، کمانڈر لاگ ایریا راولپنڈی موجود تھے!۔۔۔یہ ایک بڑی تبدیلی تھی جو پہلی بار دیکھنے میں آئی۔

اس سے پہلے جب بھی کوئی امریکی وزیر دفاع پاکستان تشریف لاتے تو ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے پاکستانی وزیر دفاع، آرمی کمانڈر یا کور کمانڈر راولپنڈی موجود ہوتے۔ لیکن جب پاکستان کا وزیردفاع واشنگٹن جاتا تو وہاں وزارت دفاع کے جونیر آفیسرز ان کا استقبال کیا کرتے تھے۔

اب پاکستان نے ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘‘ پر عمل کرتے ہوئے بہت اچھا کیا ہے۔ یہ طرزِ عمل ایک خود مختار اور آزاد ملک ہونے کے ناتے بین الاقوامی سفارتی آداب کے عین مطابق تھا اور نیز پاکستانی عوام کی امنگوں کا ترجمان بھی تھا۔


سیکرٹری ڈیفنس نے بعدازاں وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کی جس میں وزرائے دفاع، خارجہ، داخلہ، ڈی جی آئی ایس آئی اور مشیر قومی سلامتیجنرل ناصرخان جنجوعہ شریک ہوئے۔

اس ملاقات میں وزیراعظم نے سیکرٹری دفاع اور ان کی ٹیم کو بتایا کہ پاکستان کا موقف کیا ہے اور امریکی اربابِ اقتدار و اختیار کی سوچ پاکستان سے کتنی مختلف ہے۔

نہ صرف یہ کہ اگست 2007ء میں صدر ٹرمپ نے اپنی افغانستان پالیسی میں پاکستان کو کھلی دھمکیاں دی تھیں بلکہ حال ہی میں ان کے سلامتی کے مشیر جنرل میک ماسٹر اور CIAکے ڈائریکٹر پومیو (Pompeo) نے بڑی دریدہ دہنی کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کو خطرناک انجام کی وارننگ دی۔۔۔اور اس کے بعد جب میٹس کی ملاقات آرمی چیف سے ہوئی تو جنرل قمر جاوید باجوہ نے صاف صاف بتا دیا کہ پاکستان اپنے حصے سے زیادہ اس جنگ میں افغانستان اور امریکہ کی مدد کر چکا ہے۔ اب ’’ڈومور‘‘ کرنے کی باری دوسروں کی ہے۔۔۔ پاکستانی طرزِ عمل میں یہ دوسری تبدیلی تھی!


اب پاکستان کو انتظار کرنا ہو گا کہ امریکہ کی طرف سے کیا ردعمل آتا ہے۔ سیکرٹری دفاع نے پھر بھی اپنے سٹیٹس کا خیال رکھا اور پاکستان کی قربانیوں کو سراہا۔ لیکن ساتھ ہی یہ ارشاد بھی فرمایا کہ پاکستان کو اپنے ہاں سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے میں ’’دگنا تعاون‘‘ کرنا ہوگا۔۔۔ بعدازاں اسی شب ہمارے ڈی جی آئی ایس پی آر نے نہایت تحمل اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نجی ٹی وی چینل پر آکر کہا کہ پاکستان ان دیرینہ مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کرنا چاہتا ہے اور یہ بھی کہا کہ امریکی وفد نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے!


اگرچہ حالیہ ایام میں پاکستان نے یکے بعد دیگرے کئی امریکی وفود کو یقین دہانی کروائی ہے کہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں لیکن کیا امریکی خود اتنے ہی بے خبر ہیں کہ وہ بار بار آکر ڈومور، ڈومور کی رٹ لگائے جارہے ہیں۔

امریکی انٹیلی جنس (ہیومن اور الیکٹرانک دونوں) کا پروفیشنل معیار اب اس درجے پر پہنچ چکا ہے کہ اس کو فاٹا کے ایک ایک انچ رقبے کی خبر ہے کہ وہاں کون بستا ہے اور کیا کرتا ہے ۔اگر امریکہ کے پاس کوئی ثبوت ہوتا کہ دہشت گردوں کا کوئی ٹھکانا فاٹا یا پاکستان کے اور کسی حصے میں ہے تو وہ اب تک اس کا ڈھنڈورہ پیٹ چکا ہوتا۔

ساری دنیا جان چکی ہوتی کہ حقانی نیٹ ورکس کا کون سا ہیڈکوارٹر کس گاؤں / قصبے / شہر میں ہے، کس پہاڑ کے اندر اور کس غار کی گہرائیوں میں قائم ہے۔ لیکن اگر امریکہ ایسا نہیں کر رہا تو پھر آخر وجہ کیا ہے کہ جو امریکی وزیر مشیر واشنگٹن سے آتا ہے، وہ پاکستانی سرزمین سے طالبان کے ان محفوظ ٹھکانوں کی راگنی چھیڑ دیتا ہے جن کا کوئی ثبوت اس کے پاس نہیں۔


ہاں یہ باور کیا جا سکتا ہے کہ امریکیوں کو نو گیارہ کے بعد ایک نفسیاتی بیماری لاحق ہو چکی ہے۔۔۔ اس بیماری کی سنگینی کی وجوہات بھی تھیں۔۔۔ امریکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کی واحد سپریم عالمی قوت کا تاج سر پر سجا چکا تھا۔

اسے کیا خبر تھا کہ افغانستان کے ویرانوں اور کوہستانوں میں ایسے ’’درویش‘‘ منصوبہ ساز بھی بیٹھے ہوں گے جو نیویارک پر حملہ کر دیں گے۔ امریکی سرزمین کی طرف تو گزشتہ تین سو برسوں میں کسی کو بھی بری نظر سے دیکھنے کی جرات نہیں ہو سکی تھی۔

لیکن جب ٹریڈ سنٹر کے جڑواں ٹاورز زمیں بوس ہو گئے تو یہ شکست اور یہ بدنامی اس واحد سپریم قوت کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ چنانچہ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ افغانستان پر کارپٹ بمباری کرکے چند روز میں ہی طالبان حکومت کا شیرازہ منتشر کر دیا۔


پاکستان کو اعتراف کرنا چاہیے کہ جڑواں ٹاورز کے انہدام کے منصوبہ ساز جو ملا عمر کے افغان کوہ و صحرا میں بیٹھے تھے، ان میں سے بہت سے نو گیارہ کے بعد درانڈ لائن عبور کرکے پاکستان کے فاٹا میں آ گئے تھے۔ پاکستان کو یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ پاکستان کی افواج کی کوئی رٹ شمالی یا جنوبی وزیرستان اور فاٹا کے دوسرے کئی علاقوں میں نہیں تھی۔

اس لئے غیر ملکی دہشت گرد جن میں القاعدہ کے بہت سے اراکین بھی شامل تھے پاکستان کے ان سرحدی علاقوں میں آ گئے اور یہاں آکر ڈیرے ڈال دیئے اور من مانیاں کرتے رہے۔

امریکہ نے افغانستان، عراق اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن پاکستان سے اس لئے اغماض برتا کہ جنرل مشرف نے ان کو اپنی سرزمین پر کئی ہوائی اڈے دے دیئے تھے، اپنی بندرگاہیں امریکی ٹروپس کے اسلحہ بارود اور دوسرے عسکری سازوسامان کی افغانستان میں ٹرانسپورٹیشن کے لئے کھول دی تھیں۔

دوسری وجہ پاکستان کی جوہری استعداد بھی تھی جس کے ساتھ جب میزائلی استعداد بھی ڈویلپ ہو گئی تو امریکی یلغار پاکستان کے فاٹا وغیرہ کا رخ نہ کر سکی(یا کرنے میں متامل رہی) ۔۔۔ اور پاکستان کو یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے مفاد کے لئے حقانی نیٹ ورک کے فاٹا میں قیام کی اجازت دے دی اور اس بات کے باوجود کہ ہمیں معلوم تھا کہ فاٹا سے نکل کر حقانی گروپ اور اس قبیل کے دوسرے گروپ، افغانستان جا کر امریکی فورسز پر حملہ آور ہو رہے ہیں، ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔

اس دور میں واقعی کونڈا لیزا رائس وغیرہ جیسے لوگ جب پاکستان آکر ’’ڈومور‘‘ کا کہتے تھے تو ان کے مطالبے میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہوتی تھی۔

لیکن جب ان پاکستانی طالبان نے پاکستان کے طول و عرض میں خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا تو ہمیں مجبوراً نہ صرف آپریشن راہ نجات بلکہ ضربِ عضب لانچ کرنا پڑا جس کی تفصیل سے قارئین خوب واقف ہیں۔

جب ہم نے بالخصوص شمالی وزیرستان میں پاک فوج اور پاک فضائیہ کو استعمال کیا تو پتہ چلا کہ امریکی جزواً ہی سہی، غلط نہیں کہتے تھے کہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں، پاکستان میں موجود ہیں۔

اور جب پاکستان نے اپنے ہاں سے سوات اور وزیرستان میں آپریشن کرکے ان دہشت گرد گروپوں پر عرصہ ء حیات تنگ کر دیا تو یہ لوگ اسی طرح درانڈ لائن پار کرکے افغانستان چلے گئے جس طرح نو گیارہ کے بعد القاعدہ والے پاکستان آ گئے تھے۔۔۔ یعنی اب یہ مساوات معکوس ہو گئی تھی۔


پاکستان سے افغانستان جانے والے ان شرپسندوں نے ایک طرف امریکیوں پر افغانستان کی سرزمین پر حملے کئے اور دوسری طرف پاکستان پر بھی خودکش حملوں کا فلڈ گیٹ کھول دیا۔ اندریں حالات جب امریکی، اسلام آباد/ راولپنڈی میں آکر ہمیں یہ کہتے تھے کہ ڈومور تو ہم نے بھی ان کو کہنا شروع کیا کہ ہم تو یہ سب کچھ کر چکے ہیں۔۔۔ اب تمہاری باری ہے۔

جنرل میٹس کو بھی اب پاکستانی عسکری قیادت نے یہی پیغام دیا ہے کہ اب پاکستان میں کسی دہشت گرد ٹھکانے کا وجود تھیں کہ یہ سب ٹھکانے افغانستان منتقل ہو چکے ہیں۔

لیکن امریکہ شائد دودھ کا جلا ہوا ہے اس لئے چھاچھ کو بھی پھونکیں مار رہا ہے۔ اس کو خطرہ ہے کہ اگر امریکی ٹروپس، کابل سے نکل گئے تو افغانستان ایک بار پھر کسی دوسرے نو گیارہ کے منصوبہ سازوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔


لیکن آج نو گیارہ والے حالات نہیں رہے۔ بہت کچھ بدل چکا اور بدل رہا ہے۔ بعض امریکی تھنک ٹینک بھی ٹرمپ انتظامیہ کو مشورے دے رہے ہیں کہ اب القاعدہ اور افغان طالبان مل کر بھی امریکہ کے خلاف کوئی ایسا منصوبہ تشکیل نہیں کر سکتے جیسا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو گرانے کے لئے کیا تھا۔۔۔ اس کی درج ذیل وجوہات بہت وزن دار ہیں:


اول یہ کہ مستقبل کے القاعدہ دہشت گردوں کو اب افغانستان میں آنے کی ضرورت نہیں۔ امریکہ نے عراق، لیبیا اور شام وغیرہ کے سرسبز و شاداب اور زرخیز علاقوں کو ویران اور بنجر بنا دیا ہے۔

القاعدہ کے یہ مبینہ تخریب کار اور دہشت گرد افغانستان سے کہیں زیادہ ان ویرانوں میں بیٹھ کر دوسرا نو گیارہ پلان کر سکتے ہیں۔


دوم یہ کہ طالبان اور داعش والے ایک دوسرے کے اگر دشمن نہیں تو رقیب ضرور ہیں۔ ماضی ء قریب میں داعش نے افغانستان میں پیر جمانے کی کوششیں کیں۔ تفصیلات سے قارئین بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن ان کوششوں کو ناکام بنانے میں طالبان کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔

طالبان نہیں چاہتے کہ افغانستان میں کوئی غیر افغان آکر اپنی برتری قائم کر لے۔ افغانستان کی ہزاروں سال پرانی تاریخ اس حقیقت کی شاہد ہے کہ اس ملک میں جو بھی غیر ملکی آیا ہے وہ سکندراعظم تھا، مغل تھے، برٹش تھے، رشین تھے یا امریکی تھے، ان کو یہاں سے ناکام ہو کر نکلنا پڑا ہے۔

لہٰذا داعش یا القاعدہ اب افغان طالبان کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف کوئی بڑا اقدام نہیں کر سکتے۔ امریکہ آج اگر کابل و قندھار سے نکل جائے تو آنے والے کل میں داعش اور القاعدہ بھی کاملاً نکال باہر کر دیئے جائیں گے!


سوم یہ کہ اگر آج امریکی، کابل خالی کر دیں تو طالبان ساری دنیا کے دہشت گردوں کی اس طرح میزبانی نہیں کر سکیں گے جس طرح ملا عمر کے دور میں انہوں نے عربوں، مصریوں، تاجکوں اور دوسرے غیر ملکی دہشت گردوں کی کی تھی۔


چہارم یہ کہ طالبان کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ آج کا پاکستان پہلے والا پاکستان نہیں رہا۔آج پاکستانی فوج ان علاقوں میں آکر مستقلاً بیٹھ چکی ہے جہاں نوگیارہ کے بعد دہشت گرد آکر بیٹھ گئے تھے۔ پاک آرمی کے دو تین ڈویژن باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک کی سرحد پر صف بند ہیں۔

پاک۔ افغان سرحد کی جنگلہ بندی (Fencing) ہو رہی ہے۔ یہ باڑ جب اگلے سال مکمل ہو جائے گی تو کسی افغان یا غیر افغان دہشت گرد کا فاٹا میں داخل ہو کر ماضی کو دہرانا ناممکن ہو جائے گا۔


پنجم یہ کہ اگر افغان طالبان نے ماضی کی طرح از سرِ نو کسی دہشت گرد گروہ کی میزبانی کی حرکت کی بھی تو امریکی افواج ایک بار پھر کابل کا رخ کر سکتی ہیں۔ آج کے افغان طالبان کو یاد ہے کہ سولہ سال پہلے کیا ہوا تھا، ان کے کتنے گھر اجڑ گئے تھے، کتنے لوگ مارے گئے تھے، کتنا علاقہ برباد ہوا تھا اور افغانستان کا عالمی تشخص کس بری طرح مجروح ہو اتھا۔ اس لئے وہ کسی نئے امریکہ دشمن گروہ کی میزبانی کی حماقت نہیں کریں گے۔۔۔چنانچہ امریکہ اگر کسی نئے نو گیارہ کے دوبارہ دہرائے جانے کے خوف سے کابل و قندھار سے نکلنا نہیں چاہتا تو اس کا یہ خوف بے بنیاد ہے ۔

ہاں افغانستان میں امریکی قیام کی اگر کوئی اور وجوہ ہوں تو اس کا علم امریکیوں کو ہی ہو سکتا ہے۔ CPEC ان وجوہ میں سے ایک بڑی وجہ کے طور پر امریکی مقصود ہو سکتا ہے۔

لیکن امریکہ اور اس کے دوست (انڈیا اور افغانستان) کتنی بھی کوششیں کر لیں وہ اب اس راہداری منصوبے کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتے کہ ہر آنے والا کل امریکی انتظامیہ کو CPEC کی مخالفت سے باز رہنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا رہے گا۔

مزید :

کالم -