اپنی پہچان ہے اسلوبِ سخن سے اپنے
مرتضیٰ برلاس کو ترجمانِ عصر کہا گیا ہے تو درست ہی کہا گیا ہے۔ اپنے گردوپیش اور اپنے عہد کے حالات سے بے نیازی تو کوئی بھی حساس فن کار نہیں برت سکتا۔ لیکن ایک شاعر کی حقیقی عظمت یہ ہے کہ وہ جو کچھ محسوس کرے اسے وہ پوری حقیقت پسندی ، حق گوئی اور جرأت سے بیان کرے۔ جس شاعری میں سچ بیان نہیں کیا جاتا یا شاعر کو اس کی کوئی مصلحت پورا سچ عیاں کرنے سے روک دیتی ہے۔ اس شاعری کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے۔ لیکن جس شاعری میں صداقت کی روشنی ہوگی وہ اپنے عہد کی آواز بن جاتی ہے بلکہ آنے والے ادوار میں بھی اس شاعری کی سج دھج برقرار رہتی ہے۔
مرتضیٰ برلاس کو جو بات دوسرے شاعروں سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے۔ وہ ان کا شعر کہنے کا اپنا الگ انداز ہے۔ شاعری میں اپنا لہجہ اور اسلوب ہزاروں شاعروں میں کسی ایک شاعرکو نصیب ہوتے ہیں۔ مرتضیٰ برلاس وہ خوش نصیب شاعر ہیں جن کا ہر شعر خود بولتا ہے کہ میں مرتضیٰ برلاس کا شعر ہوں۔پوری اردو شاعری میں یہ دعویٰ شاید مرتضیٰ برلاس ہی نے کیا ہے۔
کبھی مقطع نہ کہا اور نہ تخلص رکھا
اپنی پہچان ہے اسلوبِ سخن سے اپنے
اپنی شاعری پر برلاس صاحب کا یہ اعتماد بلا جواز نہیں ہے۔ اگرچہ اسلوب سخن بنتے بنتے ہی بنتا ہے۔ اور پھر جیسا کہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ عمریں بیت جانے کے بعد بھی ہر شاعر کا مقدر یہ کہاں کہ وہ صاحب اسلوب شاعر کا منصب حاصل کرلے۔ لیکن برلاس صاحب کے اس اعتماد کی داد تو دینا ہی پڑے گی کہ مرتضیٰ برلاس کو شعر کہتے ہوئے 60سال سے زیادہ ہی عرصہ گزر چکا ہوگا لیکن انہوں نے کبھی مقطع نہیں کہا۔ فیض احمد فیض نے بھی یہ پیش گوئی کی تھی کہ مرتضیٰ برلاس کا یہ کہنا سچ ہو کر رہے گا:
باتوں کا رس جو کان سے پہنچا زبان پر
کہرام مچ گیا، مرے طرزِ بیان پر
فیض نے یہ بھی کہا تھا کہ مرتضیٰ برلاس کی شاعری میں شیشے کی کاٹ بھی ہے اور آبجو کی نغمگی بھی۔ فیض کی اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے احمد ندیم قاسمی نے یہ لکھا تھا۔ ’’اردو دنیا میں وہ اس اسلوب میں شاعری کرنے والا واحد شاعر ہے کہ اس کے فن میں للکار اور مہکار یک جان ہو گئی ہیں۔ للکار گردوپیش کی معاشرتی اور سیاسی صورت حال کا شعور پیدا کرنے کی اور مہکار محبت کی اس سرگوشی کی جس کے بغیر انسان، انسانیت کے منصب پر مشکل ہی رہ پاتا ہے‘‘۔
فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی نے جو بھی مرتضیٰ برلاس کی شاعری کے حوالے سے کہا وہ ہمارے لئے انتہائی اہم اور معتبر حوالہ ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان دو عظیم شاعروں نے جو فرمایا ہے اس کی تصدیق مرتضیٰ برلاس کے فن سے بھی ہوتی ہے۔ مرتضیٰ برلاس کی شاعری اثر آفرین ہی نہیں بلکہ اپنے معیار اور بے ساختہ پن کے باعث مرتضیٰ برلاس کے ان گنت اشعار زبان زدِ عام کا درجہ اختیار کر چکے ہیں اور بیشتر اشعار تو ضرب المثل کے طور پر مشہور ہیں۔ میں نے اپنے آج کے کالم میں آپ کے لئے برلاس صاحب کے چند اشعار منتخب کئے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ آپ بھی ان اشعار کے مطالعہ کے بعد مرتضیٰ برلاس کے منفرد آہنگ کے معترف ہو جائیں گے اور آپ کو ان کی شاعری کی مقبولیت کی وجہ بھی معلوم ہو جائے گی:
دوستوں کے حلقے میں ہم وہ کج مقدر ہیں
افسروں میں شاعر ہیں، شاعروں میں افسر ہیں
۔۔۔۔۔۔
میں اپنے دیس کی مٹی سے پیار کرتا ہوں
یہ جرم بھی مری فردِ حساب میں آئے
۔۔۔۔۔۔
خود رہبر ان قوم ہیں آلائشوں میں گم
ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے
۔۔۔۔۔۔
ماضی کو بُرا کہتے ہیں، ہم لوگ عجب ہیں
ماضی میں یہ حالات کہاں تھے کہ جو اب ہیں
۔۔۔۔۔۔
ہم ہیں فنکار، مقابر کے مورّخ تو نہیں
ہم کو ہوتا ہے جو محسوس وہ کیوں کر نہ کہیں
۔۔۔۔۔۔
’’مجرم ہو بار سوخ تو قانون کچھ نہیں‘‘
کس نے یہ نقش کردیا میزانِ عدل پر
۔۔۔۔۔۔
آنکھیں ہیں سرخ، ہونٹ سیہ، رنگ زرد ہے
ہر شخص جیسے میرے قبیلے کا فرد ہے
۔۔۔۔۔۔
میں تو کہتا ہوں کہ تم ابرِ کرم ہو لیکن
کاش صحرا مرے الفاظ کی تائید کرے
۔۔۔۔۔۔
آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح
جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح
۔۔۔۔۔۔
کتاب سادہ رہے گی کب تک کہیں تو آغازِ باب ہوگا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی کبھی تو ان کا حساب ہوگا
۔۔۔۔۔۔
ظالم کی کبھی موت شہادت نہیں ہوتی
سولی پہ ہر اک منصبِ عیسیٰ نہیں پاتا
میرا دشمن بھی یہ کہتا ہے کہ ہر بات مری
تلخ بے شک ہے مگر بات خدا لگتی ہے
۔۔۔۔۔۔
مجھے جو خلق کیا بے ضمیر لوگوں میں
مرے خدا مجھے بس یہ سزا ہی کافی ہے
۔۔۔۔۔۔
مجھے کی گئی ہے یہ پیشکش کہ سزا میں ہوں گی رعائتیں
جو قصور میں نے کیا نہیں، وہ قبول کرلوں دباؤ سے
۔۔۔۔۔۔
نام اس کا آمریت ہو کہ ہو جمہوریت
منسلک فرعونیت ،مسند سے تب تھی اب بھی ہے
۔۔۔۔۔۔
نشہ لعنت ہے اگر، پھر تو ہے نشہ یہ بھی
اختیارات کا انساں کو نشہ ہو جانا
۔۔۔۔۔۔
میں اربابِ سیاست کو وطن دشمن نہیں کہتا
مگر یہ دوست ایسے ہیں کہ جو نادان لگتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
پھر نہ لشکر کی ضرورت نہ منڈی کی تلاش
ساری دنیا ایک وحدت ہو، کہیں سرحد نہ ہو
۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا کہ بن ترے کیسے کٹے گی زندگی
جلتے ہوئے چراغ کو اس نے بجھا دیا کہ یوں
۔۔۔۔۔۔
ان کی آنکھیں مت کہو، چہرے پہ دودھبے کہو
ورنہ اتنا ظلم کب آنکھوں سے دیکھا جائے ہے
۔۔۔۔۔۔
خدایا تو دشمن کو بینائی دے دے
وہ طاقت کے نشے میں اندھا ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔
سازشوں کی چنگاری بال و پر میں لے آئے
کیوں پرائے گھر کی آگ اپنے گھر میں لے آئے
۔۔۔۔۔۔
اب بھی جو ہم نہ سنبھلے خدا خیر ہی کرے
ایسا نہ ہو، علاج کوئی غیر ہی کرے
۔۔۔۔۔۔
رودادِ غم دل کہتے ہوئے جرأت سے کام نہیں لیتے
جو دشمنِ جاں ہے پہلو ہم اس کا نام نہیں لیتے