ریمنڈ ڈیوس: اصل حقائق کیا ہیں؟

ریمنڈ ڈیوس: اصل حقائق کیا ہیں؟
 ریمنڈ ڈیوس: اصل حقائق کیا ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکہ کے سابق انٹیلی جنس افسر ریمنڈ ڈیوس نے کتاب لکھ کر ہم پاکستانیوں کے زخم ایک بار پھر تازہ کردیئے ہیں۔ یہ سانحہ 27جنوری 2011ء کو لاہور میں پیش آیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس نے فائرنگ کرکے قرطبہ چوک مزنگ لاہور میں دو پاکستانیوں کو ناحق قتل کردیا تھا۔ امریکی قونصل خانے کی ایک گاڑی پر سوار چند امریکی ریمنڈ ڈیوس کی مدد کے لئے قرطبہ چوک پہنچے تو اس گاڑی نے ایک اور پاکستانی شہری کو کچل دیا۔ریمنڈ ڈیوس کو قتل کی اس گھناؤنی واردات پر گرفتار کرلیا گیا اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ پاکستانی شہریوں کا خون کسی بھی دوسرے ملک کے شہریوں کے خون سے کم قیمتی نہیں، اس خون کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا اور ملزم ریمنڈ ڈیوس کو ہر حال میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ ہماری سرزمین پر جرم کرنے والا امریکی شہری ہو یا کوئی اور اس کو قانون اور انصاف کے مطابق اپنے جرم کی سزا بھگنتا ہوگی اور ہم انصاف کی راہ میں کسی مصلحت ، دباؤ اور رکاوٹ کو قبول نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے بھی پاکستان میں امریکی سفیر کو صاف صاف بتادیا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ عدالت میں ہے اور اب اس کی قسمت کا فیصلہ عدالت ہی کرے گی۔ اس دور کے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے بھی ظاہری طور پر دو ٹوک انداز میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہم ریمنڈ ڈیوس کو رہا نہیں کرسکتے، امریکہ کو عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ 2011ء میں مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکمران تھی۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے بار بار یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں کسی بھی صورت میں قانون اور انصاف کا خون نہیں ہونے دیا جائے گا اور پاکستانی شہریوں کا قاتل ضرور اپنے انجام کو پہنچے گا، لیکن حکومت کی ان یقین دہانیوں پر کوئی بھی اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور یہ افواہیں عام تھیں کہ حکومت کوئی نہ کوئی ایسا راستہ ضرور نکال لے گی کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرکے امریکہ کے حوالے کردیا جائے گا۔

ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونے والے ایک پاکستانی شہری فہیم احمد کی بیوہ تو اس حد تک دلبرداشتہ تھیں کہ اس کو یقین کی حد تک یہ خطرہ لاحق تھا کہ حکومت نے امریکی دباؤ پر اس کے شوہر کے قاتل کو رہا کردینا ہے۔ اس مایوسی کے عالم میں مقتول فہیم کی بیوہ شمائلہ نے اپنے شوہر کے قتل کے دس دن بعد زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کرلی۔ دیکھا جائے تو شمائلہ کا قاتل بھی امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس ہی تھا اور اس خودکشی کے ذمہ دار ہمارے حکمران تھے، جن کے بارے میں شمائلہ کو یہ پختہ یقین ہوگیا تھا کہ امریکہ کے خوف اور دباؤ میں آکر حکومت نے پاکستانی شہریوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دینا ہے۔ میرے نزدیک مقتول فہیم کی بیوہ نائلہ کی خودکشی ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو پاکستانیوں کے قتل سے بھی بڑا سانحہ تھا، کیونکہ نائلہ خودکشی پر صرف اس لئے مجبور ہوئی کہ اسے انصاف کی امید نہیں رہی تھی۔ شمائلہ کے آخری الفاظ یہ تھے کہ اگر اس کے شوہر کے قاتل نے بچ جانا ہے تو پھر مقتول کی بیوہ کے زندہ رہنے کا کیا جواز ہے؟ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب نے مقتول فہیم کی بیوہ کے تمام خدشات درست ہونے کی تصدیق کردی ہے۔یہاں کسی کا نام لینا مناسب نہیں اور نہ ہی اس بحث اور تجزیے میں پڑنا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے پاکستانی شہریوں کے اس قاتل کی مدد اس دور کی وفاقی حکومت نے زیادہ کی یا پنجاب حکومت کا زیادہ کردار تھا، لیکن اس ظلم اور گناہ کا حساب اس دور کے حکمرانوں کو اللہ کے حضور لازمی دینا پڑے گا کہ مقتول فہیم کی بیوہ کی خودکشی کے سانحہ کے بعد بھی ہماری حکومتوں نے ظلم کا ساتھ دیا اور پاکستانی شہریوں کے خون کو محترم سمجھنے کی بجائے، امریکہ کی خوشنوی کو اپنا مقصدِ حیات سمجھ لیا۔ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ امریکہ اپنے تمام تردعووں کے باوجود ریمنڈڈیوس کو سفارت کار ثابت نہیں کرسکا تھا۔ اس کا تعلق امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے سے تھا۔ دو پاکستانیوں کا قتل اپنی جگہ ایک سنگین جرم تھا، لیکن ریمنڈڈیوس کے بارے میں یہ تفتیش ضروری تھی کہ پاکستان میں امریکہ کے لئے اس کی جاسوسی کا دائرہ کار کیا تھا؟ تاہم ایسی تفتیش تو اس وقت ممکن تھی، جب ہمارے حکمرانوں کو قومی مفاد عزیز ہو۔ ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان کی سفارت کے لئے حسین حقانی جیسے شخص کو سفیر مقرر کیا، جو پاکستان کا کم اور امریکہ کا زیادہ وفادار تھا۔سابق صدر آصف علی زرداری اور اس دور کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کردار بھی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے کچھ ایسا تھا کہ ان کے دفتر عمل کو تاریخ کی عدالت میں پیش کیا جائے تو تاریخ کا فیصلہ یہ ہوگا :
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

یہ راز اب سب پر آشکار ہو چکا ہے کہ دونوں پاکستانی شہریوں کے ورثاء کو خوں بہا کی صورت میں 21کروڑیا اس سے بھی زیادہ جو رقم دی گئی تھی، اس کا انتظام سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے آصف علی زرداری کے حکم کے مطابق اپنے خصوصی فنڈز سے کیا تھا۔ حکومت پاکستان کی وہ کون سی مجبوری اور خوف تھا کہ دو پاکستانی شہریوں کے قاتل امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی طرف سے خون بہا کی رقم بھی پاکستان کے قومی خزانے سے ادا کی جائے؟ کاش پاکستانی حکمرانوں میں اتنی سکت، اتنے کس بل اور اتنی توانائی تو ہوتی کہ وہ امریکہ کے خوف سے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر مجبور ہونے کے بعد اپنے امریکی آقاؤں کی خدمت میں یہ گزارش تو کرسکتے کہ حضور ہم نے آپ کے سامنے ریمنڈ کی رہائی کے حکم پر اپنے سرتوخم کردیئے ہیں ، اب ہماری اتنی عزت تو باقی رہنے دیں کہ امریکہ اپنے شہری اور اپنے انٹیلی جنس ادارے کے رکن اور پاکستانی شہریوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی طرف سے خون بہا کے 21کروڑ تو مقتولین کے ورثاء کو خود ادا کرے۔ امریکہ کی غلامی کے شکنجے میں گرفتار ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کو ایک سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ہے، اگر ہمارے نااہل اور بزدل حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ ختم نہ ہوچکی ہوتی، ہمارے فیصلے اپنے اختیار میں ہوتے، ہمارے پاس قومی خودی کا سرمایہ ہوتا اور قومی غیرت و حمیت کا اثاثہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستانیوں کا قاتل ریمنڈ ڈیوس کیفر کردار کو نہ پہنچتا۔ ہمارے حکمران پاکستان کے قومی مفادات، قومی آزادی و خود مختاری اور وطن عزیز کی حاکمیت اعلیٰ کو نقصان پہنچانے میں اتنا آگے چلے گئے کہ وہ امریکہ کو خون بہا کی رقم دینے پر بھی آمادہ نہ کرسکے۔


یہ بھی ایک طرفہ تماشہ اور نئی طرز کا انصاف تھا کہ ہمارے حکمرانوں کی ہمدردیاں پاکستانی مقتولوں کے ورثاء سے کم اور امریکی جاسوس اور قاتل سے زیادہ تھیں۔ میرے ایک دوست کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے کہ پاکستانی حکومت (آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کا دور) نے قومی خزانے سے خون بہا کے طور پر 21کروڑ روپے جو پاکستانی مقتولوں کے ورثاء میں تقسیم کئے تھے، وہ دراصل حکومت پاکستان نے امریکہ کو اس جرم کا تاوان ادا کیا تھا کہ پاکستان نے امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کو 49دن تک جیل میں رکھنے کی جرأت کس طرح کی؟ 27جنوری 2011ء کو گرفتار ہونے والا ریمنڈ ڈیوس 16مارچ 2011ء کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے رہا بھی کردیا گیا۔ پاکستان کے دو شہریوں کا خون صرف اتنا ہی قیمتی اور محترم تھا کہ ان کے قاتل امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کو صرف ایک ماہ اور 19دن تک ہی قید میں رکھا جاسکا۔ امریکہ کو تو خیر ایک دن کے لئے بھی ریمنڈ کی گرفتاری گوارا نہیں تھی۔ 17مارچ 2011ء کے اخبارات کا ریکارڈ از سر نو دیکھا ہے۔ مقتولین کے بھائیوں کی طرف سے یہ خبر تمام اخبارات میں شائع ہوئی کہ ان کو پنجاب حکومت کی طرف سے ریمنڈ ڈیوس سے صلح کے لئے مجبور کیا گیا ہے۔

کوٹ لکھپت جیل کے عملے نے مدعیوں کے وکیل اسد منظور بٹ کو عدالت میں جانے سے روک دیا۔ جیل کا سٹاف ظاہر ہے، پنجاب حکومت کے ماتحت تھا اور انہوں نے ویسا ہی کیا ہوگا، جیسا حکم اوپر سے دیا گیا ہو۔ جیل کے سٹاف نے نہ صرف اسد منظور بٹ ایڈووکیٹ کو ریمنڈ ڈیوس کے خلاف پیش ہونے سے روک دیا، بلکہ ایک کمرے میں بندرکھا۔ لاہور کے وکلا نے پُر اسرار طور پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور مدعیوں کے وکیل کو عدالت میں پیش ہونے سے روک دینے کے خلاف 17مارچ 2011ء کو احتجاج کے طور پر عدالتوں کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے موقع پر اس دور میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے دنیا یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگی کہ پاکستانی بکاؤ مال ہیں۔ اس عمل سے پاکستان کے وقار کو شدید نقصان پہنچا ہے، تاہم چودھری نثار کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچانے والے تمام کرداروں کا نام لیتے۔

یہ درست ہے کہ مقتولین کے ورثاء کا یہ قانونی اور شرعی حق تھا کہ وہ قاتل کو معاف کر دیتے، لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کے لئے مرکزی اور پنجاب حکومت اپنا اپنا کردار ادا نہ کرتیں تو صرف 49دنوں میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ممکن نہیں تھی۔ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی رہائی کے حوالے سے اپنے تمام پاکستانی محسنوں کے نام کھل کر اپنی کتاب میں لکھ دیئے ہیں۔ بعض دانشورروں کا یہ تجزیہ ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے یہ کتاب مخصوص مقاصد کے تحت لکھی ہے اور اس میں پورا سچ بیان نہیں کیا گیا۔ ہمارے حکمران طبقوں نے تو چھ سال گزرجانے کے بعد بھی ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے بارے میں قوم کو اصل حقائق بتا کر اعتماد میں نہیں لیا۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے حوالے سے اس دور کے حکمرانوں میں سے آج بھی کوئی سچ بولنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہر سیاست دان کا کہنا ہے کہ ہمارا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں دور تک بھی کوئی کردار نہیں تھا۔ تو پھر کیا فرشتوں نے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں کردار ادا کیا تھا؟ اگر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی ہمارے قومی مفاد میں تھی اور دو پاکستانی شہریوں کے خون کو رائیگاں جانے دینے ہی میں پاکستان کا مفاد تھا تو پھر اس دور کی مرکزی اور صوبہ پنجاب کی حکومت ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی ذمہ داری قبول کرنے سے خوف زدہ کیوں ہے؟ ایک غیر ملکی کو بچانے کی خاطر پوری پاکستانی قوم کے سروں کو جھکادینے سے آخر پاکستان کو کیا حاصل ہوا تھا؟۔۔۔ جس روز ریمنڈ ڈیوس نے فائرنگ کرکے دو پاکستانی شہریوں کو قتل کیا تھا، اسی روز ریمنڈ ڈیوس کی مدد کو آنے والی ایک امریکی گاڑی نے عبادالرحمن نام کے ایک تیسرے پاکستانی شہری کو کچل کر ہلاک کردیا تھا، لیکن پنجاب حکومت نہ توگاڑی کو قبضے میں لینے میں کامیاب ہوئی اور نہ ہی ڈرائیور کو گرفتار کرسکی۔ بعد میں بھی اس مقدمے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس طرح عبادالرحمن کا خون تو بالکل ہی رائیگاں گیا۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں اگرچہ مقتولین کے ورثاء کو دباؤ ڈال کر خون بہا کی رقم قبول کرلینے پر مجبور کیا گیا، لیکن عبادالرحمن کو ہلاک کرنے کے ذمہ دار ڈرائیور کے خلاف تو کوئی کارروائی کرنے میں پنجاب حکومت بالکل بے بس نظر آئی۔ معلوم نہیں اس طرح کی اورکتنی ہلاکتیں ہوں گی جن کے لئے دنیا میں نہیں تو آخرت میں ضرور ہمارے حکمرانوں کو جواب دہ ہونا ہوگا۔

مزید :

کالم -