مستقبل کی سیاسی جدوجہد میں مریم نواز کا کردار!
سیاسی طور پر ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ غیر منتخب طاقتوں کا ’’ صاف چھپتے بھی نہیں اور نظر بھی نہیں آتے‘‘ والا غیر جمہوری رویہ ہے۔
دو تہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا جا چکا ہے، لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس کی پارٹی اس کی قیادت میں متحد ہے۔ مسلم لیگ نواز کی جگہ کوئی کنگز پارٹی ہوتی تو اب تک تتر بتر ہو چکی ہوتی، لوگوں کو ری پبلکن پارٹی،کنونشن لیگ یا قائد اعظم مسلم لیگ کے انجام یاد ہیں جو کنگ کے جاتے ہی منتشر ہو گئی تھیں۔
جن لوگوں کو کنگز پارٹی میں شامل ہو کر چور دروازے سے حکومت میں جانے کی عادت ہے وہ سسٹم کے لپیٹے جانے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔
عالمی طاقتوں ، خاص طور پر امریکہ کو پاکستان میں منتخب حکومتوں سے زیادہ غیر منتخب حکومتیں پسند رہی ہیں کیونکہ وہ عوام کو جوابدہ نہیں ہوتیں۔ پاکستان نے جب بھی امریکہ کی ’’خدمت‘‘ کی وہ ہمیشہ غیر منتخب دور میں کی اور اسی طرح پاکستان جب بھی آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا وہ بھی ہمیشہ غیر منتخب حکومتوں کے دور ہی میں پھنسا۔
پاکستان کے موجودہ سیاست دانوں کی زیادہ تعداد پچھلے پچیس تیس سال سے اپنی اپنی پارٹیوں کی قیادت کر رہے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کے زیادہ تر سیاست دان 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے ہیں اس لئے سیاسی پارٹیوں کے لئے اہم ہو گا کہ وہ نسبتاً نوجوان قیادت آگے لائے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اسی تناظر میں عمران خان کو کہا تھا کہ اس بات سے قطع نظر کہ آپ کتنے مقبول ہیں یا غیر مقبول، اگلا الیکشن میرا(بلاول زرداری) پہلا اور آپ (عمران خان) کا آخری الیکشن ہو گا۔ یہ قانونِ قدرت بھی ہے اور ایک حقیقت بھی، اسی لئے بڑی سیاسی پارٹیوں کو سیاست کا بوجھ اگلی نسل کو منتقل کرنے کی تیاری شروع کر دینی چاہئے۔
مسلم لیگ نواز کا اضافی مسئلہ یہ ہے کہ ان کے قائد میاں نواز شریف کو اسمبلیوں سے بے دخل کر دیا گیا ہے، اگر پاکستان کی پارلیمنٹ بر وقت قانون سازی نہ کرتی تو انہیں پارٹی قیادت بھی چھوڑنا پڑتی۔ خیر، زمینی حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف پارٹی قیادت کر سکتے ہیں، لیکن اسمبلی میں اس وقت تک نہیں جا سکتے جب تک عدالتی عمل انہیں کلئیر نہ کر دے۔
میرے نزدیک ممکن ہے کہ یہ ایک عبوری دور ہو اور اگلے الیکشن تک یا اس کے بعد مسلم لیگ نواز اس مشکل سے باہر نکل آئے، بصورتِ دیگر پارٹی کو ایک مستقل قائد بنانا ہو گا۔ چونکہ یہ ایک مشکل صورتِ حال ہے اس لئے اس کی قیادت کے حوالے سے قیاس آرائیاں بھی جاری رہتی ہیں۔
یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پارٹی سے زیادہ دوسری پارٹیوں یا غیر متعلقہ لوگوں کو مسلم لیگ نواز کی قیادت کی زیادہ فکر رہتی ہے۔ پارٹی میں dichotomy یا میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے گروپوں کی الف لیلیٰ تو خیر سے جنرل پرویز مشرف کے دور سے سنائی جا رہی ہے، جس میں چودہ پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی، لیکن میاں نواز شریف کو انتخابی عمل سے باہر کر دینے کے بعد بہر حال اس بات کی ضرورت بڑھ گئی ہے کہ پارٹی قیادت کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کر دیا جائے، تاکہ ادھر ادھر بجنے والی بانسریاں ،سارنگیاں اور طبلے بند ہو جائیں ۔
اس تناظر میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ نواز میں زیادہ انتشار اس لئے ہے کہ مریم نواز شریف تمام سینئیر راہنماؤں کو بلڈوز کرکے خود وزیر اعظم بننا چاہتی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس پراپیگنڈے کے زیادہ تر ڈھنڈورچیوں کا تعلق مسلم لیگ نواز سے نہیں ہے بلکہ ان کا پتہ ڈاکخانہ عام کے علاوہ ڈاکخانہ خاص بھی ہے۔
مریم نواز شریف کی عمر 44 سال ہے گویا مستقبل کی سیاست میں کردار ادا کرنے کے لئے ان کے پاس بہت وقت ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں زیادہ تر لیڈران 65-70 کے پیٹے میں ہوں اور ان میں سے کئی ایک اپنا آخری الیکشن لڑنے جا رہے ہوں، مریم نواز شریف کے پاس ان سے 25-30 سال زیادہ ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو بالکل ٹھیک کہا کہ وہ تو اپنا پہلا الیکشن لڑنے جا رہے ہیں، لیکن عمران خان کا ممکنہ طور پر یہ آخری الیکشن ہو گا۔ بہر حال ایک آدھ استثنی تو ہر جگہ اور ہر موقع پر موجود ہوتا ہی ہے، ابھی گزشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ 70 سال کی عمر کے بعد الیکشن جیت کر امریکی صدر منتخب ہونے والے پہلے شخص بنے ہیں۔
اس سے قبل رونلڈ ریگن 69 سال کی عمر میں منتخب ہونے والے معمر ترین امریکی صدر تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سے پچھلے تینوں صدر بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور باراک اوبامہ 46 سال کی عمر میں امریکی صدر منتخب ہوئے تھے اور تینوں نے اپنے اپنے دو ادوار مکمل کئے۔ ابھی چند دن پہلے نیوزی لینڈ میں نئی وزیر اعظم منتخب ہوئی ہیں جن کی عمر صرف 37 سال ہے۔
اسی طرح اس وقت ایسے سربراہان مملکت کی کافی تعداد ہے جو اپنی عمر کی 40 یا 50 کی دہائی میں ہیں۔ مریم نواز شریف سیاسی محاذ پر 2013 کے الیکشن میں سامنے آئیں جب لاہور کے حلقہ 120 NA-میں انہوں نے میاں نواز شریف کی انتخابی مہم کامیابی سے چلائی۔
اس کے بعد زیادہ تران کی توجہ میڈیا امور پر رہی اور ان کا میڈیا سیل پارٹی کے میڈیا معاملات کی نگرانی کرتا رہا۔ مریم نواز شریف کا زیادہ متحرک سیاسی سفر 28 جولائی کو ان کے والد میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دئیے جانے کے بعد سے شروع ہوا ہے۔
کرکٹ میچ میں جب تک اوپننگ بیٹسمین کریز پر موجود ہوں، ون ڈاؤن بیٹسمین پیڈ باندھے اور ہیلمٹ پہنے اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوتا ہے، لیکن جب پہلی وکٹ گر جائے تو اسے خود وکٹ پر جا کر کھیلنا ہوتا ہے اور اس کی اننگ وہاں سے شروع ہوتی ہے، گویا کہ مریم نواز شریف کی سیاسی اننگ کا آغاز ہو چکا ہے۔
عام طور بہتر حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ ون ڈاؤن بیٹسمین پہلے سے کریز پر سیٹ دوسرے اوپننگ بیٹسمین کو زیادہ سے زیادہ سٹرائیک دیتا ہے اور خود سپورٹنگ رول میں لمبی پارٹنرشپ کی کوشش کرتا ہے۔
مسلم لیگ نواز کی بہترین حکمت عملی بھی یہی ہو گی کہ ایک اوپننگ بیٹسمین کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ دئیے جانے کے بعد مین سٹرائیک دوسرے اوپننگ بیٹسمین میاں شہباز شریف کے پاس رہے اور مریم نواز شریف ون ڈاؤن بیٹسمین کے طور پر ان کے ساتھ ایک لمبی سیاسی شراکت داری قائم کریں۔
2018ء کے بعد 2023ء کا الیکشن آنا ہے۔ پانچ سال کا پارلیمانی تجربہ حاصل کرنے کے بعد اس وقت وہ مسلم لیگ نواز کی قیادت سنبھالنے کے لئے غالباً موزوں ترین لیڈر ہوں گی۔
مریم نواز شریف نے گزشتہ چار سال میں ثابت کیا ہے کہ ان میں لیڈر بننے کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں، قومی اسمبلی میں ان کی کارکردگی ان کی قائدانہ صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرے گی۔ 2023 الیکشن کے وقت ، یا اس سے قبل بھی، زیادہ تر سینئر سیاست دان عملی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہوں گے اور یہ وہ وقت ہو گا جب مریم نواز شریف کا مقابلہ زیادہ تر اگلی نسل کے سیاست دانوں سے ہوگا۔
اس وقت تک وہ اتنا عملی تجربہ حاصل کر چکی ہوں گی کہ با آسانی ٹاپ لیڈرشپ کے لئے انتہائی موزوں ہوں گی۔ جس طرح سیاسی بنیادوں پر کی گئی توہین آمیز کاروائیوں کا وہ مقابلہ کر رہی ہیں اس سے ان کی لیڈرشپ صلاحیتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لندن میں ہونے والے مسلم لیگ نواز کے تین بڑوں کے اجلاس میں بالکل درست فیصلہ کیا گیا ہے کہ میاں نواز شریف کو اگر اسمبلیوں سے دور رکھا جاتا ہے تو قیادت میاں شہباز شریف کے پاس ہونی چاہئے۔
میاں نواز شریف، مریم نواز شریف اور ان کے خاوند کیپٹن محمد صفدر کو احتساب عدالت کے مقدمات کا سامنا ہے، اس لئے بھی جب تک وہ وہاں سے کلئیر نہیں ہو جاتے میاں شہباز شریف ہی پارٹی کے منطقی اعتبار سے لیڈر رہیں گے۔ ملک میں سیاست آج کل فاسٹ ٹریک پر ہے۔
اس لئے فیصلے اور ایکشن بھی تیز رفتار ہونے چاہئیں۔ مریم نواز شریف نے پچھلے کچھ ماہ میں ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چھ سات دہائیوں سے غیر جمہوری اور غیر منتخب طاقتوں کی طرف سے ہونے والی سازشوں کا مقابلہ وہ بہت بہادری سے کر سکتی ہیں۔
ہمسایہ ممالک، امریکہ اور یورپ سے بھی اچھے تعلقات کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں جمہوریت کو مضبوط کیا جائے۔ مریم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کا سب سے اہم نقطہ غیر منتخب طاقتوں کے دباؤ میں نہ آنا ہے۔ جب ملک میں حقیقی معنوں میں جمہوریت ہوگی اور دنیا بھر کی طاقتیں پاکستان میں جمہوریت کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گی تو ہم قائد اعظم کے پاکستان کی طرف اپنا سفر شروع کردیں گے۔
مستقبل کی سیاسی جدوجہد میں یہی مریم نواز شریف کا اصل سیاسی کردار ہے ۔