لاس و یگاس کا قتلِ عام (1)
میں کل حال ہی امریکہ کے ایک شہر لاس ویگاس میں ہونے والے قتل عام پر ایک امریکی کالم نگار کا تبصرہ پڑھ رہا تھا۔ کالم نگار تھامس فریڈمین کا یہ جملہ دیکھئے: ’’اگر سٹیفن پاڈوک مسلمان ہوتا۔۔۔ اگر اس نے لاس ویگاس کے میلہء موسیقی میں اپنے ہم وطنوں پر فائر کھولنے سے پہلے ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا ہوتا۔۔۔ اگر وہ کہیں داعش (ISIS) کا ممبر ہوتا ۔۔۔ اگر اس کے ایک ہاتھ میں قران اور دوسرے میں خودکار رائفل پکڑی ہوتی۔۔۔ تو ہمیں آج کوئی یہ تلقین نہ کر رہا ہوتا کہ دیکھئے پوڈاک کے قتلِ عام کی زیادہ تشہیر نہ کیجئے اور مرنے والوں کی روحوں کو یہ کہہ کر مزید مبتلائے عذاب نہ کیجئے کہ اس طرح کے سانحات کی روک تھام کے لئے امریکی حکومت کو سخت ترین حفظِ ماتقدم کے انتظامات کرنے چاہیں۔۔۔‘‘
ویسے تو دنیا بھر کے میڈیا نے اس گھناؤنے قتل کی مذمت کی ہے اور فارن میڈیا چینل تو ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد آج بھی مسلسل ان مقتولین کا تذکرہ کئے جا رہے ہیں جو اس سانحے میں مارے گئے اور زخمی ہو گئے۔ لیکن کل جب میں نے اپنے ایک عزیز سے پشاور میں بات کی جو ابھی چند روز پہلے وادی ء راجگال میں صف آراء ایک یونٹ میں تعینات تھا اور سرحد پار سے ہونے والی حالیہ فائرنگ میں بال بال بچا تھا اس کو لاس ویگاس کے اس ہولناک سانحے کی گھمبیرتا یاد دلائی تو وہ گویا پھٹ پڑا۔ کہنے لگا : ’’سر!اگر میں سچ کہوں تو آپ مائنڈ نہ کرنا۔میں نے اپنے زندگی میں ارادتاً کبھی منافقت سے کام نہیں لیا اور آپ تو جانتے ہیں کہ خاندان میں ’منہ پھٹ‘ مشہور ہوں لیکن سچی بات یہ ہے کہ مجھے یکم اکتوبر 2017ء کو اس لاس ویگاس کے واقعہ کو دیکھ اور سن کر جو خوشی ہوئی وہ بیان نہیں کر سکتا۔ میں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ جب 60 سے زیادہ لوگ مارے گئے ہوں اور 5،6 سو سے زیادہ زخمی ہوں تو کیا ان پر آپ کو خوشی ہوگی؟۔۔۔
اس نے جواب دیا کہ ہمارے 70,000سویلین اور فوجی کن لوگوں نے مارے؟۔۔۔ لاکھوں اپاہج کئے تو کن لوگوں نے کئے۔۔۔ ان کے کروڑوں لواحقین کو خون کے آنسو رلایا تو کن لوگوں نے رلایا؟۔۔۔ کیا وہ لوگ یہی امریکی نہ تھے؟۔۔۔ کیا اب ان کو پتہ چلا ہے کہ ناحق قتل کا درد کتنا درد ناک ہوتا ہے؟ اگر 50،60 امریکی مارے گئے ہیں تو انہیں کسی پاکستانی یا مسلمان نے تو نہیں مارا۔ مارنے والا امریکی تھا اور عیسائی بھی تھا، وہ کبھی پاکستان نہیں آیا تھا، اس نے کبھی فاٹا کا دورہ نہیں کیا تھا، کسی مسلمان طالبان سے اس کے رابطے نہ تھے، اس نے امریکہ کی کسی مسجد میں کسی بھی امام مسجد سے کوئی ملاقات نہیں کی تھی اور اس کی سات پشتیں اپنے مسیحی مذہب کی پیروکار تھیں۔۔۔
وہ بولتا چلا جا رہا تھا اور مجھے اس کی وہ باتیں، تھامس فریڈمین (Thomas Friedman) کا کالم پڑھتے ہوئے یاد آرہی تھیں!۔۔۔ شائد بعض قارئین کو اس سانحے کی زیادہ خبریں نہ ہوں، اس لئے نہائت مختصر الفاظ میں اس کا ذکر نامناسب نہ ہوگا:
لاس ویگاس امریکہ کے مغربی ساحل پر جانبِ جنوب ایک مشہور اور بڑا شہر ہے۔یکم اکتوبر کو اتوار کا دن تھا اور لوگ ویک اینڈ منا رہے تھے۔ امریکہ چونکہ ایک امیر کبیر ملک ہے اور امیروں کے چونچلے آپ کو پتہ ہے بہت مشہور ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ہر بڑے چھوٹے امریکی شہر میں گلوکاروں اور رقاصوں کے کئی کئی طائفے موجود رہتے ہیں۔ گاہ بگاہ رقص و موسیقی کی محفلیں برپا رہتی ہیں جن کو یہاں کنسرٹ کہا جاتا ہے۔ اس روز (یکم اکتوبر) لاس ویگاس میں ایک مشہور سنگر جاسن آلڈین (Jason Aldian) کا سہ روزہ موسیقی کنسرٹ شروع ہو رہا تھا جو مانڈلے بے ہوٹل کے سامنے ایک وسیع اور کشادہ میدان میں منایا جا رہا تھا۔22000 سے زیادہ لوگ جمع تھے اور اپنے محبوب گلوکاروں کو سننے کے اشتیاق میں گوش برآواز تھے کہ یکایک گولیوں کی آوازیں آنی شروع ہوگئیں اور ہزاروں کے اس مجمع میں بھگدڑ مچ گئی۔۔۔ چیخ و پکار ہر لمحہ بڑھ رہی تھی۔نوجوان مرد اور عورتیں خون میں لت پت ہو رہی تھیں اور نفسانفسی کا عالم تھا۔
مانڈلے بے ہوٹل لاس ویگاس کا ایک بہت بڑا ہوٹل ہے جس کی 32ویں منزل سے کسی نے ہتھوڑے سے کھڑکی کا شیشہ توڑ کر خود کار رائفل سے فائرنگ شروع کر رکھی تھی۔۔۔
اس فائرر کا نام سٹیفن پاڈوک (Stephen Paddock) تھا۔ اس کی عمر 64 برس تھی اور غیر شادی شدہ تھا البتہ آخری گرل فرینڈ ماریلو ڈینلی (Marilou Danley) ’حسنِ اتفاق‘ سے اس روز اس کے ہوٹل کے کمرے میں نہ تھی۔ کمرے میں مختلف ٹائپ اور میک کی 23رائفلیں اور گولیوں سے بھرے 10باکس تھے( اس کے علاوہ اس کے گھر سے 19 رائفلیں اور بھی برآمد ہوئیں)۔۔۔ پاڈوک ان رائفلوں سے لگاتار فائر کرتا رہا اور آخر میں خود کو بھی گولی مار کر ہلاک کر لیا۔اس قتل گاہ سے 62لاشیں اٹھائی گئیں اور 567گھائل ایسے تھے جن میں زیادہ تر مشکل ہی سے بچ پائیں گے۔
امریکی صدر خود لاس ویگاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ’’یہ تو ایک خالص بدعملی ہے‘‘۔ (An act of Pure Evil)۔ پاڈوک کے ایک بھائی سے پوچھا گیا تو اس نے کہا : ’’ذہنی اور نفسیاتی حوالے سے میرا بھائی بالکل ٹھیک ٹھاک اور صحت مند تھا۔۔۔ لیکن ابھی تک کوئی امریکی تفتیشی ادارہ اس بات کی ٹوہ نہیں لگا سکا کہ اس نے آخر اس اندوہناک جرم کا ارتکاب کیوں کیا؟
میں ایک بار پھر تصور میں لاس ویگاس کی اس قتل گاہ کا منظر لاتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ اگر پاڈوک کا تعلق کسی بھی حوالے سے اسلام کے ساتھ ہوتا تو امریکیوں نے جھٹ پاکستان کا ’’کُھرا‘‘ نکال لینا تھا۔ کانگریس کا فوری اجلاس بلایا جاتا اور کوئی ٹرمپ (بش جونیئر کی طرح) یہ اعلان کرتا کہ نوگیارہ کے بعد یہ حادثہ سب سے زیادہ سنگین حادثہ ہے۔ اگلے ہی لمحے ایک انکوائری کمیشن بٹھا دیا جاتا اور اس سے یہ سفارش کرنے کو کہا جاتا کہ امریکہ کون سا قانون بنائے، کس اسلامی ملک کے ساتھ کیا سلوک کرے، کیا ایکشن لے کہ دوبارہ اس قسم کا جانسوز اور جانکاہ حادثہ پیش نہ آئے۔ جس اسلامی ملک کا نام آتا اس کے بارے میں پینٹاگون کو کہا جاتا کہ وہ ’’قابلِ عمل آپشنز‘‘ کی ایک فہرست مرتب کرے تاکہ صدر گرامی اس پر کوئی فیصلہ صادر فرما سکیں!
اب چونکہ اس قسم کی کوئی آپشن موجود نہیں اس لئے ساری امریکی انتظامیہ آئینے میں اپنا ہی عکس دیکھ رہی ہے اور میڈیا پر کہا جا رہاہے کہ اس واقعہ کی زیادہ تشہیر کرکے مرنے والوں کی ارواح کو زیادہ زیرِ بارِ کرب و اضطراب نہ کیا جائے۔ جو کوئی اس کنسرٹ کو سننے آیا تھا، وہ تو قتیلِ نغمہ و سرود تھا اس کو کیا معلوم تھا کہ وہ خود قتل ہو جائے گا۔۔۔ حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے:
از چشمِ خود بپرس کہ مارا کہ می کشد؟
جاناں گناہِ طالع و جرمِ ستارہ نیست
(ترجمہ: اپنی آنکھ سے پوچھ کہ مجھے کس نے قتل کیا۔ پیارے! یہ نصیبوں کی خطا نہیں اور نہ ہی ستارے کا جرم ہے)۔۔۔(جاری ہے)