بڑی عید کے بعد ایک کالم
بڑی عید پر کالم قربانی کی جگہ رقم غریبوں کو دینے کے حوالے سے کالم تھا تو بڑی عید کے بعد بھی اسی موضوع پر بات کرنی ہے مگر اس مرتبہ بات مذہبی کی بجائے معاشی اور اقتصادی حوالے سے ہو گی۔ حتمی اور معتبر اعداد و شمار تو ابھی حاصل ہوں گے ( اور شائد حاصل نہ بھی ہوں) مگر ٹینریز ایسوسی ایشن کے مطابق اس برس اکاسی لاکھ جانوروں کی قربانی کی گئی ہے۔ ایک معتبر ٹی وی چینل پر بتایا گیا کہ اس سال تیس لاکھ گائیں،چالیس لاکھ بکرے، دس لاکھ بھیڑیں اور ایک لاکھ اونٹ قربان کئے گئے یعنی میرے جیسے دو جمع دو کرنے والے شخص کی نظر میں دو کروڑ ساٹھ لاکھ افراد کی طرف سے قربانی کا فر ض ادا ہوا۔ اس مرتبہ گائے میں حصہ دس سے بارہ ہزار کے درمیان رہا اور بکرے کی اوسط قیمت کسی طور پر بھی تیس ہزار سے کم نہیں قرار دی جا سکتی یعنی کھربوں روپوں کا خالص کاروبار ہوا۔ ( ایک بچھیا دیہی مقامات پر پچاس ہزار روپوں میں بھی ملی اور اس کی قیمت لاکھ ، لاکھ سے اوپر بھی رہی تو محتاط انداز ے میں اگراس کی اوسط قیمت ساٹھ ہزار روپے مقرر کر دی جائے جو میری نظر میں اب بھی کم ہے تو تیس لاکھ گائیں ایک کھرب اسی ارب روپوں میں فروخت ہوئی ہوں گی اور اسی طرح بکروں اور بھیڑوں کی اوسط قیمت کسی طور پر بھی تیس ہزار سے کم نہیں ہو سکتی، یہ کاروبار بھی سوا کھرب سے کم کا نہیں ہوا ہو گا، ایک لاکھ اونٹ بھی کم از کم دس ارب روپوں میں پڑے ہوں گے۔ مجھے ایک مرتبہ پھر واضح کرنا ہے کہ ہمارے پاس جانوروں کی قربانی کے حتمی اعداد و شمار موجود نہیں، ہم منڈیوں کا حساب لگا سکتے ہیں کہ وہاں کتنے جانور آئے مگر جو جانور منڈیوں سے باہر ہی فروخت ہو گئے، ان کے بارے میں اعداد و شمار کیسے حاصل کئے جا سکتے ہیں، ایسے میں ایک ذریعہ ٹینریز ایسوسی ایشن ہے مگر اس کے پاس عید کی چھٹیاں ختم ہوتے ہیں اعداد و شمار جمع کر لینے کی کتنی اہلیت ہے اس بارے میں مجھے خاطر خواہ علم نہیں ہے مگر کیا اس امر سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ عید پر کھربوں روپوں کا کاروبار ہو ا اور یہ کاروبار بہت ہی غریب لوگوں کے ساتھ ہوا۔
میں نے منڈیوں میں جانور فروخت کرنے والوں کی اکثریت کو دیکھا ہے،غریب لوگ ہیں اوران کی نوے فیصد سے بھی زائد تعداد دور دراز کے علاقو ں سے آتی ہے، ان کے پاس چند جانور ہیں جنہیں پورے برس ،دو برس کی محنت و مشقت کے بعد پالا ہے اور فروخت کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والی بارشوں نے بھی ان جانوروں کے مالکان کو پریشان کئے رکھا اور ایک موقع آیا کہ منڈی بری طرح گر گئی، بہت سارے بیوپاری محض اپنا خرچ ہی پورا کر پائے مگر آخری روز منڈی جم گئی۔ ہمارے ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ہوئے مہربان سطحی سوچ کے ساتھ پروگرام اور نیوز بلیٹن کرتے ہیں۔ وہ جانور مہنگا ہونے پرشور مچاتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ایک شخص نے کتنے طویل عرصے تک جانور کو چارہ کھلایا ، اس کی خدمت کی ہے، چوروں ہی نہیں بلکہ بیماریوں سے بھی اس کی حفاظت کی ہے۔ اگر آپ تفصیل میں جائیں تو آپ کو علم ہو گا کہ جانور فروخت کرنے والوں کی بڑی تعداد بیوپاری ہے اور ان کے پیچھے دور دراز علاقوں کے وہ غریب ہیں جو جانور پال تو لیتے ہیں مگر ان کے پاس بڑے شہروں میں جا کر انہیں فروخت کرنے کے لئے وسائل موجود نہیں ہیںیوں کاروبار کی ایک زنجیر بنتی ہے جوہمیں آگے ہڈیوں اور کھالوں کے کاروبار تک لے جاتی ہے۔
ایک منٹ رکئے گا اور ایک مرتبہ پھر جانوروں پر ہونے والے ظلم پر آنسو مت بہانے بیٹھ جائیے گا کہ جانور صرف قربانی کے موقعے پر ہی ذبحہ نہیں ہوتے یہ تو روزانہ ہوتے ہیں مگر ان کا گوشت صرف ان لوگوں تک پہنچتا ہے جو اسے خرید سکتے ہیں یعنی چار ،ساڑھے چار سو روپے کلو بڑا گوشت اور نو سو سے ہزار روپے کلو چھوٹاگوشت۔ سرکاری نرخوں کا حوالہ مت دیجئے گا کہ وہ حقیقت میں گوشت کی نہیں ہڈیوں کی فی کلو قیمت ہوتی ہے یوں مجھے وہ برائلرمرغ بھی اچھا لگتا ہے جو بڑے گوشت سے بھی آدھی قیمت میں دستیاب ہوجاتا ہے اور بہت سارے غریبوں کو ا ن کے بچوں کے سامنے شرم سار ہونے سے بچا لیتا ہے۔ میں ایسے گھروں کی گواہی دے سکتا ہوں جہاں پورے سال گوشت نہیں پکتا اور یوں عید قرباں پر جو بات قربانی کے جانوروں کی تجارت سے شروع ہوتی ہے وہ غریبوں کے گھروں میں کھائے جانے والے گوشت تک جا پہنچتی ہے۔ ہم جس مذہب کے پیرو کار ہونے کے ناطے قربانی کرتے ہیں وہ ہمیں غریبوں کی باقاعدہ مدد کے طور طریقے بتاتا ہے۔ ہمارے قرآن میں سوال اور جواب درج ہیں، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں، جواب ناز ل ہوا کہ جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو یعنی اس طرح قربانی اپنے اندر ایک علیحدہ، مکمل اور منفرد تصور لئے ہوئے ہے، غریبوں کی مدد کے لئے ہمارے پاس زکواۃ، صدقات اور فطرانے سمیت دیگر طریقے بھی موجود ہیں۔
اسلام کے تمام نظام فول پروف ہیں، مکمل ہیں، جامع ہیں اور قربانی ایک مکمل طور پرمختلف طریقہ کار ہے جو دراصل قیمت سے کہیں زیادہ جانور کے ساتھ اس الفت کے پیدا ہوجانے سے بھی جڑی ہے جو انسانی فطرت کا حصہ ہے، ہم ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں کسی محبت اور الفت کو بھی آڑے نہیں آنے دینا۔ماہرین معاشیات سے پوچھئے، اگر آپ قربانی کے برابر تمام رقم بھی عطیات اور صدقات کے طور پر تقسیم کردیں تو وہ اکنامک ایکٹی ویٹی یعنی معاشی سرگرمی پیدا نہیں ہوسکتی جو قربانی کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ پہاڑوں، صحراوں اور دیہات میں لوگ جانور پالتے ہیں،ان کے چارے اور دودھ کا کاروبار ہوتا ہے، بیوپاری انہیں خرید کے شہروں کی منڈیوں میں لاتے ہیں جس سے بیوپاری ہی نہیں بلکہ ٹرانسپورٹر بھی کماتے ہیں، جانوروں کا گوشت ہی نہیں بلکہ کھالیں بھی غریبوں کو عطیہ کر دی جاتی ہیں اور یوں ٹینریز کا کاروبار تیز ہوتا ہے ۔ مجھے تو دوسروں سے ہٹ کر یہ بھی کہنا ہے کہ گائے اور بکرے کی کھالوں کی قیمتوں میں گذشتہ چند برسوں کے دوران آنے والی کمی تشویش ناک ہے۔ ہماری بہت ساری کھالیں اناڑی قصائیوں یا محفوظ نہ کرپانے کی وجہ سے ضائع بھی ہوجاتی ہیں۔ اب آپ یہاں دیکھیں کہ قصائی بھی امیر لوگ نہیں ہوتے بلکہ بہت سارے غریب موسمی قصائی بھی بن جاتے ہیں اور عید پر دیہاڑی لگا کے اپنے بچوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کر لیتے ہیں اور اسی طرح یہ عید کا ہی موقع ہوتا ہے کہ جب ہر گھر میں گوشت پکتا ہے کیونکہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمیں قربانی کے جانور میں سے ایک تہائی گوشت سے زیادہ اپنے لئے نہیں رکھنا، ایک تہائی سے قرابت داری پوری ہوتی ہے اور ایک تہائی سے خالصتا اللہ کی رضا کے لئے تقسیم ہوجاتا ہے۔
میں پھر زور دے کر کہوں گا کہ آپ کسی بھی معاشرے میں غریبوں میں اربوں اور کھربوں روپے براہ راست تقسیم کردیں تو وہ نتیجہ خیز معاشی اور اقتصادی سرگرمی پیدا نہیں ہو سکتی جو قربانی کے جانوروں کے پالنے اور بیچنے سے ہوتی ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ جو پیسہ آپ کو آسانی سے مل جاتا ہے وہ آپ اتنی ہی آسانی سے گنوانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں جبکہ کسی ملازمت یا کاروبار سے کمائے گئے روپے کی ہی اہمیت ہوتی ہے اور اس میں برکت بھی ہوتی ہے۔مجھے یہاں ڈاکٹر امجد ثاقب کی ’ اخوت‘ کا بھی ذکر کرنا ہے جس میں اب حکومت پنجاب بھی باقاعدہ پارٹنر ہے۔ یہ تنظیم غریبوں کو زکواۃ اور صدقات کی صورت میں مدد نہیں دیتی بلکہ ان کوچھوٹے کاروباروں کے لے قرض دیتی ہے۔ میرے آقا نے فرمایا کہ قرض اپنے ثواب میں صدقے سے کئی گنا بہتر اور افضل ہے، لوگ حیران ہوئے کہ یہ کیسے ممکن ہے، جواب ملا کہ قرض وہ لیتا ہے جو شدید ضرورت کا شکار ہوتا ہے اور وہ اسے واپس بھی کرتا ہے۔ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ عیدالاضحی پرغریبوں کے ساتھ کاروبار کے موقعوں کا پیدا ہونااپنے بنیادی تصور سے اثرات تک ایک انتہائی مختلف عمل ہے جس کا موازنہ زکواۃ اور صدقات کے نظام کے ساتھ ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔میں ا س کی عقل کا ماتم ہی کر سکتا ہوں جو یہ کہے کہ عید پر اربوں، کھربوں روپے قربانی کی ضائع کر دئیے جاتے ہیں، مجھے یہاں مولانا سید ابولااعلیٰ مودودی کے پوچھے ہوئے ایک سوال کو دہرانے دیجئے کہ پھر یہ لوگ سینما گھروں میں کی ہوئی انویسٹمنٹ کو رقم کا ضیاع کیوں نہیں سمجھتے؟