افغانستان اور پاکستان!

افغانستان اور پاکستان!
 افغانستان اور پاکستان!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بے وقوفی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔۔۔ رائٹر خبررساں ایجنسی کی ایک خبر کے مطابق امریکی صدر آج کل اس بات پر سخت پیچ و تاب میں مبتلا ہیں کہ ان کی افواج کو افغانستان میں مکمل فتح کیوں حاصل نہیں ہورہی؟ ٹرمپ کی زندگی کا پس منظر چونکہ غیر فوجی ہے اس لئے ان کو یہ ادراک نہیں کہ ہر جنگ طاقتور فریق کے لئے باعثِ کامیابی نہیں بن سکتی۔ جنگ جیتنے کے ہزاروں طریقے ہیں جو ازل سے لے کر اب تک آزمائے جا چکے ہیں اور اسی طرح ہارنے کے بھی لاکھوں طریقے ہیں۔ جو ملک بزعمِ خویش طاقتور ہوتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ کمزور حریف کی ان مضبوطیوں (Strengths) پر بھی نظر رکھے جو بظاہر نظر نہیں آتیں۔ دنیا کی تاریخِ جنگ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جب ایک بظاہر کمزوراور ضعیف فریق نے پاور فل فریق کو ناکوں چنے چبوائے اور عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ کسی بھی ملک کا رقبہ ،آبادی، مسلح افواج کی تعداد اور سازوسامانِ جنگ کی کثرت اسے میدانِ جنگ میں کامیاب قرار نہیں دے سکتی۔۔۔ دیکھا جائے تو امریکہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان کے ہاتھوں بچ نکلنے والا واحد خوش نصیب ملک تھا جس کو اس کے جغرافیئے اور افرادی قوت کے تدبر نے بچا لیا۔ وگرنہ 1939ء میں برطانیہ ایک سپرپاور تھی اور اس کا حریف جرمنی پہلی جنگ عظیم کا شکست خوردہ اور زخم زخم ملک تھا جس نے اس جنگ میں 6سال تک ساری دنیا کے عظیم لشکروں کو شکستِ فاش کے کناروں تک پہنچایا۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں بونوں (لِلّی پُٹ)نے گلیور کو بے بس کر دیا!
امریکی صدر اپنے فوجی کمانڈروں پر ناراض ہیں کہ ان کو افغانستان جیسے بے نوا ملک میں نبردآزما ہوئے 17برس گزر چکے ہیں۔ یہ عرصہ عہدِ حاضر کی تاریخِ جنگ کے تناظر میں ایک طویل ترین جنگ کا عرصہ ہے لیکن امریکی افواج کو وہاں اب تک خاطر خواہ فتح کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ آج کل افغانستان میں جنرل نکولسن امریکی افواج کے کمانڈر ہیں اور ٹرمپ ان کو سیک کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جنرل کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ امریکی افواج کو افغانستان میں جیتنے کی کوئی سٹرٹیجی نہیں بتا سکے!۔۔۔جنرل کا رینک کوئی چھوٹا موٹا رینک نہیں ہوتا اور نکولسن کا پروفیشنل کیرئیر ان کو بہت سے جدید سپاہیانہ اوصاف سے بہرہ ور کرتا ہے۔ لیکن خبر کے مطابق صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اپنے ٹاپ ملٹری براس سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ جنرل نکولسن کو سبکدوش کرنے والے ہیں!۔۔۔ بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالجبی ست!


کیا ٹرمپ کو معلوم نہیں کہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ناٹو کے 28ممالک نے اپنی اپنی فوج کے بہترین دستے افغانستان بھیجے تھے۔ امریکی فضائیہ دنیا کی جدید ترین فضائیہ تھی اور ہے۔ڈیڑھ لاکھ کا یہ سارا لاؤلشکر برسوں افغانستان کے کوہ و دمن میں اپنی جدید ترین جنگی حکمت عملیوں کو آزماتا رہا لیکن فتح کے کوئی آثار نہ بش کے دور میں نظر آئے نہ اوباما کے 8سالہ دور میں۔۔۔ رفتہ رفتہ NATO ممالک نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے اور بیک بینی و دوگوش افغانستان سے مراجعت میں عافیت جانی۔


بتایا گیا ہے کہ 19جولائی 2017ء کو واشنگٹن میں ہونے والی ایک میٹنگ میں ٹرمپ نے اپنے وزیردفاع جنرل میٹس (Mattis) اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف، جنرل ڈن فورڈ (Dunford) کو ٹاسک دے دیا ہے کہ وہ افغانستان میں کسی نئے کمانڈر کا نام تجویز کریں۔ ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ نکولسن سے پہلے نصف درجن سے زیادہ کمانڈر آئے اور چلے گئے لیکن افغانستان کا پرنالہ جہاں تھا وہیں کھڑا رہا۔


بادی النظر میں یہ بات امریکی جرنیلوں اور سیاستدانوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ چیز کیا ہے جو افغانستان میں مغربی افواج کو کامل فتح سے روکتی ہے؟ ان افواج کے پاس نہ روپے پیسے کی کمی ہے، نہ گولہ بارود کی اور نہ ہی جدید ترین سلاحِ جنگ کی۔دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جہاں امریکہ کو ناٹو کے 28ممالک کی کولیشن فورسز کی سپورٹ حاصل رہی وہاں افغانستان میں لڑنے والے مجاہدین کوکسی کولیشن کی کوئی سپورٹ حاصل نہ تھی اور نہ ہے؟۔۔۔ افغانستان ایک مقفل بہ زمین (Land Locked)ملک ہے۔ اس کے چاروں طرف جو ممالک ہیں ان کی ریگولر افواج کا ایک سپاہی بھی کبھی گزشتہ 17برسوں میں افغانستان کی سرزمین پر ان مجاہدین کی مدد کرتا نہیں پایا گیا۔ ان کے پاس جو اسلحہ ہے اس کی تفصیل جدید اسلحہ کے سامنے مضحکہ خیز حد تک حقیر ہے۔ مغرب کی عسکری درسگاہوں میں جو سٹرٹیجی پڑھائی جاتی ہے اور اب تک ہونے والی عالمی جنگوں کی جو تفصیل ان کے نصاب کا حصہ ہے اس کے سامنے افغانستان کی سرزمین، آبادی، وسائل، تربیتی سہولیات، سلاحِ جنگ و جدال گویا ایک کھلی کتاب ہے۔ لیکن پھر بھی کسی امریکی جنرل کو اس ننگ دھڑنگ ملک میں فتح حاصل نہیں ہوتی اور اس کا صدر اب عاجز آکر شدید جھنجھلاہٹ کاشکار ہے اورجنرل نکولسن کو سیک کرنے پر تلا ہوا ہے! افغانستان کی اس جنگ میں ہزاروں امریکی اور غیر ملکی سولجرز ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔ تقریباً ایک ہزار بلین (ایک ٹریلین ڈالر) اب تک امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے نکل کر افغانستان کی جنگ کی بھٹی میں جھونکے جا چکے ہیں۔ کابل کی موجودہ حکومت کی افغان نیشنل آرمی اور افغان نیشنل پولیس کو جدید امریکی ہتھیاروں پر ٹریننگ دیتے بھی 3سال گزر چکے ہیں، مگر مجال ہے جو زمین نے کوئی جنبش کی ہو یا گل محمد اپنی جگہ سے ہلا ہو!


اس خبر میں آگے چل کر یہ تفصیل بھی دی گئی ہے کہ جب ٹرمپ نے اپنے کمانڈروں سے پوچھا کہ افغان وار کا سٹیٹس کیا ہے تو جواب ملا: ’’یہ جنگ، تعطل کی صورت اختیار کر چکی ہے!‘‘۔۔۔ یہ سننا تھا کہ امریکی صدر آگ بگولہ ہو گئے اور فرمایا کہ ہم امریکی افغانستان میں جھک مار رہے ہیں اور جنگ جیت نہیں ہار رہے ہیں۔۔۔ یعنی ’’تعطل‘‘ کا لفظ ٹرمپ کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔ وہ صرف جیت یا ہار کے الفاظ جانتے تھے اور جہاں تک ’’ہار‘‘کا تعلق ہے تو وہ کوئی بھی امریکی صدر کیسے سن سکتا ہے؟۔۔۔ سپریم پاور سپریم ہوتی ہے۔وہ فتح کے علاوہ کچھ اور نہیں سنتی!


ٹرمپ کوتازہ ترین درست (Accurate) اعدادوشمار سے بھی مطلع کیا گیا اور کہا گیا کہ اب تک 2216 امریکی سولجر افغانستان میں ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ خود افغانستان کے ہزاروں لاکھوں شہری جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اب تک کا جنگ کا کل خرچہ 714بلین ڈالر ہے لیکن افغانستان کا 45فیصد رقبہ ابھی تک طالبان کے کنٹرول میں ہے اور 55 فیصد پر حکومتی کنٹرول ہے اور وہ بھی بعض صوبوں میں لولالنگڑا اور برائے نام!


ٹرمپ اپنی افواج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں۔ اس حوالے سے ان کی برہمی بجا ہے۔ 8400 امریکی ٹروپس ابھی تک کابل، قندھار اور بعض دوسرے ذیلی علاقوں (Pockets) میں ڈیپلائے رکھے گئے ہیں۔ کہنے کو تو یہ نفری افغان نیشنل آرمی کو جنگ کی ٹریننگ دے رہی ہے لیکن دراصل افغان طالبان کی ’’روزی روٹی‘‘ کا سامان کررہی ہے۔ افغان آرمی اور افغان فضائیہ کے اعداد و شمار دیکھیں تو وہ بھی خاصے مرعوب کن نظر آتے ہیں لیکن جب اوورآل جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آدھا افغانستان تاحال طالبان کے کنٹرول میں ہے۔4000مزید امریکی ٹروپس کی ڈیمانڈ جنرل نکولسن کی طرف سے کی گئی تھی جس کو پینٹاگون نے ابھی تک معطل کر رکھا ہے اور اس پر کوئی حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں لیا گیا۔ جب وائٹ ہاؤس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ماضئ قریب میں پونے دو لاکھ ناٹو اور ایساف فورسز بھی ’’فتح کی خوشخبری‘‘ نہیں دے سکیں تو ایڈمنسٹریشن پر اوس پڑ جاتی ہے اور وہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ اب افغانستان ایک ایسا میدان جنگ بن چکا ہے جس پر تعطل طاری ہے اور یہ تعطل حکومتی حلقوں کے حق میں نہیں بلکہ حکومت مخالف حلقوں کے حق میں ہے۔۔۔اس تناظر میں جب ہم پاکستان آرمی کے آپریشنوں (ضربِ عضب اور ردالفساد) کی کارکردگی دیکھتے ہیں تو پاکستانی افواج (آرمی اور ائر فورس) کو داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ امریکی اور افغان طالبان کے درمیان جو جنگ لڑی جا رہی ہے اس کا مزاج اور ہے اور پاک فوج اور افغان طالبان کے درمیان جو معرکے جاری ہیں ان کا مزاج اور ہے۔


افواجِ پاکستان کو نہ صرف بیرونی دشمنوں کا سامنا ہے بلکہ اندرونی سیاسی مناقشات بھی فوج کو چرکے لگاتے رہتے ہیں۔ یعنی فوج کو آج چومکھی لڑنی پڑ رہی ہے۔ بعض عاقبت نااندیش بزرجمہروں کو نہ تو جنگ و جدال کی کسی حکمت عملی کی سمجھ ہے اور نہ جنگ اور مورال کے موضوع کی کچھ خبر ہے۔ امریکی فوج کے افغانستان میں ناکامی کے اسباب میں ایک سبب جو ظاہر و باہر ہے وہ ’’مقصدِ جنگ‘‘ کا فقدان ہے۔ امریکی فوج کو جنگ کی کاز (Cause) پر یقین نہیں۔ اور دوسرا سبب اس کے عزمِ صمیم کا تنزل ہے جس میں مورال کی پستی پیش پیش ہے۔تاہم اس وقت پاکستان واقعی ایک پل صراط پر چل رہا ہے۔ ذرا سا اِدھر اُدھر ہونے سے جو نتیجہ سامنے آ سکتا ہے وہ خوفزدہ کرنے والا ہے۔ قومی اخبارات کے کالم نگاروں کو اس قومی فریضے پر بھی کچھ نہ کچھ کہنے کی توفیق ملنی چاہیے۔

مزید :

کالم -