شعر اور اس کی تشریح!

شعر اور اس کی تشریح!
شعر اور اس کی تشریح!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کچھ دن ہوتے ہیں وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف پنڈی اسلام آباد میٹرو بس کی افتتاحی تقریب میں ایک مجمعے سے مخاطب تھے۔فرمایا :
‘‘جمہوری دور میں پاکستان نے کبھی جنگ نہیں لڑی، ہمیشہ جنگیں مارشل لا کے دور میں ہوئیں، ملک کے اندر اگر ترقی ہوئی تو جمہوری دور میں ہوئی ، ملک ایٹمی قوت بنا تو جمہوری دور میں بنا، موٹروے بنی تو جمہوری دور میں بنی۔ جمہوریت ڈلیور کرتی ہے، کر سکتی ہے، اس کو کرنے دیا جانا چاہیے، اور اس کا احساس سب کو ہونا چاہیے، اور اس کا احساس صرف پارلیمنٹ کو نہیں۔ اس کا احساس سب اداروں کو ہونا چاہیے، اس میں۔ہمارا میڈیا بھی شامل ہے سب کو احساس ہونا چاہیے۔آئین کی حکمرانی رہے گی تو ملک قائم رہے گا۔’’


وزیراعظم کی تقریر کے چند جملوں کا حوالہ دے کر ناچیز نے جناب مجیب الرحمان شامی سے پروگرام نقطہ نظر میں پوچھ ہی ڈالا کہ حضور وزیر اعظم کا پیغام کن کے لیے تھا۔ جواب ملا ‘‘اْ ن کے لیے’’۔ باقی واللہ العالم بالغیب۔


اور پھر سترہ جون بروز منگل سر شام سابق صدر آصف علی زرداری اسلام آباد میں پیپلز پارٹی فاٹا کے عہدیداروں کی تقریب حلف برداری سے گویا ہوئے۔فرمایا :
’’ ہمیں تنگ نہ کرو ، ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، جس دن کھڑے ہو گئے خیبر سے کراچی تک سب بند ہو جائے گا، یہ فوج ہماری ہے، آپ نے تین سال بعد چلے جانا ہے، ہم نے کردار کشی کی تو نجانے کتنے جرنیلوں کے نام آئیں گے، برداشت کی حد ہوتی ہے، کچھ دلوں میں پاور پالیٹکس کی امنگیں اٹھ رہی ہیں، اسی لیے سیاسی جماعتوں کو ساتھ رکھا ہوا ہے، ہمیں جنگ کرنا آتی ہے اور کسی کو نہیں، مجھے پتہ ہے ملک کو کتنا خطرہ ہے، مشرف کو نہیں، کمانڈو کہلانے والا سابق صدر تین ماہ جیل نہیں کاٹ سکا، اور یہ بھی فرمایا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ادارے کمزور ہوں۔’’
زرداری صاحب نے اسی تقریر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ، ‘‘ہم نے فوج پر اس وقت بھی تنقید نہیں کی تھی جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی
خیر چھوڑئیے، یہ بیان زیادہ اہمیت کا حامل نہیں کیونکہ ‘ادارہ’ اپنی من منشا کے مطابق شعر کی تشریح کرنے کا حق رکھتا ہے۔ بصورت دیگر’’ادارہ’’ کسی بھی بیان سے لاتعلقی کا اعلان بھی کر سکتا ہے۔


تحریر کا عنوان ہمارے ہاں پرچہ اردو الف کے سوال ‘‘درج ذیل میں سے کوئی سے تین اشعار کی تشریح کیجیے’’ سے خاصا مماثلت رکھتا ہے لہذا قارئین خاکسار سے الجھنے کی بجائے فقط یہی جان لیں کہ اس تحریر میں ناچیز چاہتے ہوئے بھی شعر اور اس کی تشریح کا حوالہ فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیان کرنے سے قاصر رہا ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ راقم عنوان اور تحریر سے چنداں انصاف نہیں کر سکا۔ معذرت۔


تشنگی برقرار رہنے کی صورت میں موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی 2006میں قومی اسمبلی میں کی گئی دھواں دار تقریر ملاحظہ کیجیے۔ اور ہاں! پٹواری حضرات ہر گز دل چھوٹا نہ کریں، ایسی نظمیں اور غزلیں بہت سے سیاستدان ماضی میں فی البدیہہ سنا کرعارضی داد وصول کرچکے ہیں۔اور اپنے خان صاحب نے دھرنے کے ہنگام میں اسی موضوع پرکس نوعیت کی گل پاشی فرمائی؟ چلو۔ مٹی پاو!


کسی من چلے نے تو یہ بھی افواہ پھیلا رکھی ہے کہ سابق سپہ سالار کے بردار دور حق میں کاروباری معاملات میں خاصے کامران ٹھہرے۔اتنے کامران کہ ابھی تک چرچا جاری ہے۔بظاہر تو یہ خبر ایویں خوامخواہ کی شْرلی معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اگر ہمارے خلیفہ جی کے کالم اکٹھے کئے جائیں تو سابقہ سپہ سالار کے اوصاف پر تین ضخیم جلدوں پر مبنی ایک سیرت مرتب ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس خبر پر اجتناب، اجتتاب، ا جتناب۔۔ حضور والا!
ہماری دانست میں تو معاملہ محض اتنا ہی تھا؛
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے


اب تو سائیں نے نو ہزار ایکڑ بھی دان دئیے، ہاں معاملہ قریب ایک دہائی سے زیرالتوا تھا، نہ جانے سائیں یا ان سے پہلے والوں نے ‘‘عرضی’’ پر کان کیوں نہ دھرے۔ حیرت ہے دو ہزار آٹھ سے پہلے تو اپنے ہی خدمتگار سندھ میں حکومت فرما رہے تھے۔حیرت ہے ویسے۔


اور تو اور اب عزیزی عزیر بھی حلقہ محبان میں بہ نفس نفیس شامل ہوچکے تو پھر فکر کاہے کی۔راوی کو تو چین ہی چین لکھنا چاہیے۔ رہی بات صفائی مہم کی، تو حضور اس بے تْکی تحریر کے باوجود ہم یہی کہیں گے کہ اب کے بار صفائی ہر پاسے ہی ہو جائے تو بہترہے۔ اب چاہے اس کے لیے پنڈی کا صابن استعمال ہو یا کراچی کا اب یہ کٹی کٹا بھی نکل جانا چاہیے۔

مزید :

کالم -