پنجاب بجٹ 2017ء۔۔۔ ایک جائزہ
جاپان اور میکسیکو دونوں کی آبادیً 12 کروڑ سے کچھ اوپر ہے اور یہ دونوں ملک دنیا میں آبادی کے اعتبار سے گیارہویں اور بارہویں نمبر پر ہیں۔ ہمارے صوبہ پنجاب کی آبادی کتنی ہے؟ اس کی اصل تعداد تو مردم شماری کے نتائج جاری ہونے کے بعد ہی پتہ چلے گی لیکنپنجاب کی آبادی 12 کروڑ کے لگ بھگ ضرور ہے، گویا صوبہ پنجاب دنیا کے کئی ملکوں سے بھی بڑا ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ صوبہ پنجاب کی آبادی دنیا کے دو سو ممالک سے زیادہ ہے۔جمعہ کی شام پنجاب کی وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے 2017-18ء کا تقریباً بیس کھرب روپے کا سالانہ بجٹ پیش کیا۔ جیسا کہ ہر بجٹ کے بعد ہوتا ہے حکومت کے حامی اسے تاریخ کا سب سے بہترین ، متوازن اور عوام دوست بجٹ کہتے ہیں جبکہ مخالفین اسے جھوٹے اعدادو شمار کا پلندہ، غریب دشمن اور تاریخ کا سب سے غیر متوازن بجٹ کہتے ہیں، اس دفعہ میں نے بجٹ تقریر بہت غور سے سنی تاکہ حکومت کے حامی اور مخالفین کی فکسڈ رائے سننے کی بجائے خود بجٹ کی روح اور اعداد وشمار پر غور کروں۔ دوسرا یہ کہ پنجاب کے سیکرٹری خزانہ حامد یعقوب شیخ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ پہلا بجٹ تھا اور مجھے قوی امید تھی کہ بجٹ شایان شان ہوگا۔
پنجاب کے بجٹ میں بھی ترقیاتی کاموں کے لئے ریکارڈ رقوم رکھی گئی ہیں جو الیکشن کے سال کی مناسبت سے متوقع بھی تھیں۔ اگلے سال کے لئے پیش کئے گئے پنجاب کے بجٹ کو میں نہ صرف ایک ترقیاتی بجٹ سمجھتا ہوں بلکہ سوشل ڈویلپمنٹ اور انسانی ترقی کے اعشاریوں کے اعتبار سے انتہائی ترقی پسند بجٹ کہا جاتا ہے۔ اس بجٹ میں نہ صرف شہری اور دیہی علاقوں پر یکساں فوکس کیا گیا ہے بلکہ صوبے میں علاقائی تفاوت کو بھی کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے پنجاب کے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے اس بجٹ میں جو ویژن پیش کیا گیا ہے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔بجٹ تقریر سے اندازہ ہوا کہ وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف شہروں کے بعد اب دیہی علاقوں میں معیارِ زندگی بلند کرنے کا مضبوط ارادہ کر چکے ہیں۔ اس بجٹ میں تعلیم، صحت، زراعت، آبپاشی، انفراسٹرکچر، مواصلات، بہبودِ آبادی، صاف پانی، امن و امان اور عوام کی دوسری اہم ضروریات کو جس طرح فوکس کر کے پنجاب کی تاریخ کی سب سے ریکارڈ رقومات مختص کی گئی ہیں۔ دنیا کے تمام اہم ممالک یا ان کے صوبے اور ریاستیں اپنے اہم ترین شہر کی برانڈنگ کرتے ہیں۔اپوزیشن پارٹیاں اکثر یہ الزام لگاتی ہیں کہ مسلم لیگ نواز دوسرے علاقوں اور شہروں کو نظر انداز کرکے زیادہ پیسہ لاہور پر خرچ کرتی ہے۔
اول تو یہ بات سرے سے درست ہی نہیں کیونکہ پچھلے نو برسوں کے دوران پنجاب کے تمام اہم شہروں اور اضلاع میں بے مثال ترقیاتی کام ہوئے ہیں اگر اس الزام کو درست تصور بھی کر لیا جائے تو بھی پنجاب کا پوری دنیا کو دکھانے کا چہرہ لاہور ہی ہے اور لاہور کی برانڈنگ اسی طرح ضروری ہے جیسا دنیا بھر کے ممالک اپنے اہم ترین شہر کی برانڈ ڈویلپمنٹ کرتے ہیں،کیا برطانیہ والے لندن اور مانچسٹر یا فرانسیسی پیرس کی برانڈنگ نہیں کرتے؟ پنجاب کے دور دراز اضلاع جن میں خاص طور پر جنوبی پنجاب کے تین ڈویژنوں ڈیرہ غازی خان، ملتان اور بہاولپور ڈویژنوں کے اضلاع شامل ہیں، تاریخ میں پہلی بار ان کی سنی گئی ہے اور اب پنجاب کے 36 اضلاع میں ترقی کے نئے ریکارڈ قائم ہونے کے دروازے کھل گئے ہیں۔ بات بہت سیدھی سی ہے، انفرا سٹرکچر جتنا بہتر ہو گا اتنی زیادہ ترقی ہو گی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا رخ بھی اتنا زیادہ پنجاب کی طرف ہو گا۔ اس سال کے بجٹ میں ترقیاتی کاموں کے لئے 635 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے اور اس بھاری ترقیاتی بجٹ کی وجہ سے الیکشن کے قریب ہمیں پنجاب کے طول و عرض میں اور ہر انتخابی حلقہ میں بہت زیادہ ترقیاتی کام ہوتے نظر آئیں گے۔ میاں شہباز شریف کی حکومت کا یہ لگاتار دسواں (مجموعی طور پر تیرہواں) بجٹ ہے اور اگر گذشتہ دس سال کا گراف بنایا جائے تو بتدریج ترقیاتی بجٹ میں ہر سال اضافہ کیا گیا ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد کئی اہم وزارتیں وفاق سے صوبوں کو منتقل ہو گئی تھیں جن میں صحت اور تعلیم خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، اس کے علاوہ امن و امان بھی صوبوں کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اگر ایک عام شہری کے حساب سے دیکھا جائے تو اس کے لئے وفاقی سے زیادہ صوبائی بجٹ اہم ہوتا ہے ۔ اس سال پنجاب کے صوبائی بجٹ میں تعلیم کے لئے 345 اور صحت کے لئے 263 ارب روپے رکھے گئے ہیں، اسی طرح صوبہ کے عوام کی حفاظت کے پیش نظر امن و امان کے لئے 198 ،پولیس کے لئے 97 اور پنجاب کے شہروں کو محفوظ بنانے کے لئے سیف سٹی پراجیکٹس کے حوالے سے 45 ارب مختص کئے گئے ہیں۔ تعلیم کے شعبہ میں ’’پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب‘‘ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ بھکر اور اٹک میں نئے میڈیکل کالج قائم کئے جائیں گے۔ زراعت بھی ایک ایسی اہم وزارت ہے جسے اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق میں برقرار تو رکھا گیا تھا لیکن اس کے زیادہ تر فنڈز صوبوں کو منتقل کر دئیے گئے تھے۔ دیکھا جائے تو زراعت کی بنیادی پالیسی سازی وفاق کے پاس ہی ہے لیکن فنڈز کی طرح آپریشنز صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں۔پنجاب حکومت نے اپنے موجودہ دورانیہ کے آخری بجٹ میں پنجاب کے زرعی بجٹ میں دوگنا اضافہ کیا ہے، اسی طرح آبپاشی کے صوبائی بجٹ میں تقریباً 41 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
اس سال پنجاب کے زرعی اور صنعتی شعبوں کی ترقی کے لئے 155 ارب روپے کی ریکارڈ رقوم رکھی گئی ہیں۔ سماجی شعبہ کے لئے 201 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، سماجی ترقی ہی خوش حالی لانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، ماضی کی حکومتوں نے سماجی شعبہ میں مجرمانہ غفلت برتی لیکن امکان ہے کہ اب پنجاب کے عوام صحیح معنوں میں ترقی اور خوش حالی کی جانب اپنا سفر شروع کریں گے۔ تعمیرات کے شعبوں میں ٹیکس میں بھاری کمی اور نوجوانوں کو 50 ہزار اورنج گاڑیاں، لیپ ٹاپ سکیم وغیرہ بھی عام لوگوں کو بہت فائدہ پہنچائیں گی۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایک اور اہم قدم یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے لئے 361 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے دیہی آبادی کی بڑے شہروں میں نقل مکانی کم ہو گی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح مواصلات اور سڑکوں پر رکھے گئے 95 ارب روپے بھی بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ کم کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اگلے کئی سال زیادہ تر ترقیاتی منصوبے چھوٹے اضلاع اور شہروں میں بنانے چاہئیں اور کوشش کرنی چاہئے کہ پنجاب کا ہر ضلعی صدر مقام سہولتوں کے اعتبار سے نہ صرف خود کفیل ہو بلکہ آئندہ نئی یونیورسٹیاں، میڈیکل اور انجینئرنگ کالج اور نئی صنعتیں بھی وہیں لگائی جائیں۔پنجاب میں 36 اضلاع ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام اضلاع میں ترقی کا اتنا زیادہ پوٹینشل موجود ہے کہ ہر ضلعی صدر مقام صنعت و حرفت ، کاروبار ، اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ معیارِ زندگی کا مرکز بن سکتا ہے۔