شمالی کوریا اور امریکہ: ایک موازنہ؟ (1)

شمالی کوریا اور امریکہ: ایک موازنہ؟ (1)
 شمالی کوریا اور امریکہ: ایک موازنہ؟ (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کالم نویس کو کالم لکھنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ہے کہ کس موضوع پر لکھا جائے۔ آپ کے اردگرد سینکڑوں موضوعات ہر روز پھیلے اور بکھرے نظر آتے ہیں۔ میڈیا کی بھرمار نے موضوعات کی کثرت کو جنم دے کر کالم نگار کے کام کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ بہت سے موضوعات توجہ طلب ہوتے ہیں۔ آپ کس کس کا انتخاب کریں گے؟ یہ انتخاب آپ کی شخصیت کو بھی واشگاف کر دے گا۔ ’’آپ‘‘ سے میری مراد خود کالم نگار ہے۔ اگر آپ کسی مقامی یا ملکی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو ہو سکتا ہے اس کے قارئین کا حلقہ ء معلومات بہ نسبت ایسے موضوع کے قارئین کے زیادہ وسیع ہو جو علاقائی یا بین الاقوامی قارئین کہلاتے ہیں۔۔۔ کتنے پاکستانی ہوں گے جو ریجنل سطح کے موضوعات پر غور کرتے ہوں گے اور کتنے ایسے ہوں گے جو بین الاقوامی اور گلوبل موضوعات کو پڑھنا یا ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہوں گے؟


کسی بھی بین الاقوامی موضوع پر لکھنے میں ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اس کو سمجھنا ایک خاص سطح کی معلومات کا پس منظر اور مطالعہ مانگتا ہے۔ یہ ایکسرسائز نہ صرف کثرتِ مطالعہ کی طالب ہوتی ہے بلکہ اس کی زبان انگریزی ہوتے ہوئے بھی بعض انگریزی دانوں اور انگریزی خوانوں کے دائرہ تفہیم سے آگے نکل جاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں لیا جا سکتا کہ ایسے موضوع صرف اور صرف ایک محدود حلقہ ء قارئین کے لئے مختص کر دیئے جائیں۔ چونکہ کالم نگار کاایک مقصود قاری کو انفارم اور ایجوکیٹ کرنا بھی ہوتا ہے اس لئے آپ کا فرض ہے کہ اپنے مقامی حلقے سے اوپر اور آگے نکلیں اور علاقائی سطح تک جائیں اور پھر وہاں سے بھی آگے نکل کر بین الاقوامی سطح کے موضوعات کی طرف بھی دھیان دیں۔ انہی بین الاقوامی موضوعات میں ایک موضوع اس آویزش سے بھی عبارت ہے جو ایک عرصے سے امریکہ اور شمالی کوریا کے مابین چل رہی ہے۔


بظاہر تو کہاں شمالی کوریا اور کہاں امریکہ!۔۔۔ دونوں ملکوں کی آبادیوں کا حجم، ان کا علم و ہنر،ان کی عسکری قوت، ان کی تاریخ اور ان کا جغرافیہ، وسائل، رقبہ اور اس طرح کے درجنوں اشاریئے ایسے ہیں جن کا باہمی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ممولے اور شاہباز کو لڑانے والی بات ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اگر شمالی کوریا کو ایک ممولہ تصور کر لیا جائے تو آج یہی ممولہ واقعی شاہباز (امریکہ) کو چیلنج کر رہا ہے۔


تاریخِ عالم پر نظر ڈالیں تو کئی بار ممولوں نے شاہبازوں کو شکست دی اور نیچا دکھایا ہے۔ ماضی ء قریب میں جرمنی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔میرا اشارہ اس جرمنی کی طرف نہیں جس نے پہلی عالمی جنگ کے چار برسوں میں اتحادیوں کو شکست دیتے دیتے خود شکست کھالی تھی اور پھر اتحادیوں (امریکہ، فرانس، برطانیہ وغیرہ) نے 1919ء میں ایک ایسے معاہدے پر جرمنی سے دستخط کروا لئے تھے جس کی رو سے اتحادیوں نے سمجھا تھا کہ ان کا دشمن آنے والی کئی صدیوں تک اپنے کسی علاقائی حریف کے مقابل بھی اٹھ کھڑا نہیں ہو سکتا۔ لیکن عسکری تاریخ کا یہ معجزہ ناقابلِ یقین ہے کہ صرف دو عشروں کے اندر اندر وہی مجبور و لاچار اور بے بس جرمنی اتنا طاقتور ہو گیا کہ صرف دو برس کی جنگ میں (1939ء تا 1941ء) پورے یورپ کو سرنگوں کر دیا۔ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھیں 1942ء کا جرمنی کا فیوہررسارے یورپ کا ایک ایسا تاجدار بن گیا جس کی عظمت و سطوت بے مثال تھی۔ تاریخِ عالم میں کسی بھی ایک فرد نے ایسی شان و شوکت نہیں سمیٹی جتنی اوڈلف ہٹلر کے پاس تھی جو پہلی عالمی جنگ میں محض ایک لانس نائیک (کارپورل) تھا، جو ویانا کے ریلوے سٹیشن پر برسوں تک قلی کے طور پر ریلوے مسافروں کے سامان ڈھوتا رہا اور جس کے پاس سردیوں میں تن ڈھانپنے کے لئے کوئی اوورکوٹ بھی نہ تھا۔


۔۔۔بظاہر دیکھنے کو ہٹلر ایک ممولہ ہی تو تھا اور باقی ساری دنیا شاہبازوں کی دنیا تھی۔ صرف ایک جاپان تھا جو جرمن ممولے کا اتحادی بنا اور’’محوریوں‘‘ (Axis) میں شامل ہو گیا۔ تیسرا ممولہ اٹلی تھا جو جنگ کے تین سال کے بعد 1942ء میں ’’زخمی‘‘ ہو کر ایسا گرا کہ پھر اٹھ نہ سکا۔ چنانچہ دیکھا جائے تو جرمنی اور جاپان ہی اس جنگ کے آخری تین سالوں تک دنیا بھر کے شاہبازوں سے نبرد آزما رہے۔۔۔ یہ مثال اس لئے دے رہا ہوں کہ یہ مستقبل قریب میں ایک بار پھر دہرائی جانے والی ہے۔ مستقبل قریب کا ممولہ (شمالی کوریا) معروف عالمی شاہبازوں (امریکہ اور یورپ وغیرہ) کو نہ صرف زخمی کر سکتا ہے بلکہ صفحہ ء ہستی سے بھی مٹا سکتا ہے۔۔۔۔ یہی وہ موضوع ہے جس پر آج چند حروف لکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔


سب سے پہلے تو میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرنِ حاضر (یعنی اکیسویں صدی عیسوی) کا اوڈلف ہٹلر، کم جانگ۔ اون (Kim Jong-un) ہے۔ آپ اسے مخفف کرکے ’’جانگ۔ اون‘‘ کہہ لیں تو آسانی ہوگی۔یہ شمالی کوریا کا بالکل اسی طرح کا آمر، بادشاہ، شہنشاہ، صدر ،وزیراعظم اور سب کچھ ہے جس طرح کا قرنِ گزشتہ (بیسویں صدی عیسوی) کا ہٹلر تھا۔ ۔۔۔ فرق یہ ہے کہ ہٹلر کی قوت و شوکت کا راز اس کے ملک جرمنی کی ’’رعایا‘‘ اور فوج میں پوشیدہ تھا جبکہ جانگ۔ اون کا راز نہ صرف شمالی کوریا کی رعایا اور فوج میں ہے بلکہ چین جیسی ابھرتی ہوئی عالمی قوت کی عسکری، سائنسی اور کمرشل جبروت و صولت میں بھی ہے۔


ذرا نقشہ دیکھئے۔۔۔۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ شمالی کوریا ،بظاہر چین کے محلاتی پلازہ کی ایک ڈیوڑھی /راہداری ہے۔ چین اگر لشکر جرار ہے تو شمالی کوریا اس کا ہر اول کہا جاسکتا ہے۔ چین ہی کی مدد سے آج شمالی کوریا اس قابل ہوا ہے کہ وہ مستقبل میں اپنے جوہری وارہیڈز (بموں) اور بین البراعظمی بلاسٹک میزائلوں (ICBMs) سے، سرزمین امریکہ (Main Land)کو براہ راست نشانہ بنا سکے۔


اگست 1945ء میں جاپان پر دو ایٹم بم پھینک کر امریکہ نے سمجھا تھا کہ اس پر کوئی جوابی ایٹم بم نہیں پھینکا جاسکتا۔ یہ زعم اسے 60,50 برسوں تک رہا۔ یورپ کے دو بڑے ملک برطانیہ اور فرانس تو اس کے اپنے اتحادی تھے، ایشیاء کا اسرائیل اس کی ایک آؤٹ پوسٹ تھی، یورپ کا سوویت یونین، 1991ء میں ٹوٹ کر روس رہ گیا تھا اور اس کا جوہری اور میزائلی پروگرام بھی سرد جنگ کے چالیس برسوں (1950ء تا1990ء) کے دوران زنگ آلود ہو چکا تھا۔ لیکن خالقِ کائنات (فطرت) تو کبھی اس کرۂ ارض پر کسی واحد حکمران کا مددگار نہیں رہا۔ وجہ یہ ہے کہ ساری کائنات جو آج تک ظاہر ہو چکی ہے یا پردۂ اخفا میں ہے اس کا واحد حکمران وہ خود ہے، کوئی دوسرا نہیں۔ لہٰذا اس نے اپنی ’’کسی دنیا‘‘ میں کسی کو بھی اپنا ہمسر بنانا گوارا نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ اپنی ہر زمین پر ’’مخلوق خداوندوں‘‘ کے دو پیکر پیدا کردیتا ہے۔ کرۂ ارض کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ یہاں پر خیروشر کے نام سے دو قوتیں ہمیشہ موجود رہی ہیں جبکہ واحد سپر پاور ( یا سپریم پاور) خدا خود رہا ہے۔ وہی خیر بھی ہے،شر بھی۔ سچ بھی ہے،جھوٹ بھی۔ بالابھی، پست بھی۔ زبردست بھی، زیر دست بھی۔ اوپر بھی، نیچے بھی۔ مشرق، مغرب، شمال اور جنوب میں وہی ایک تو ہے۔ وہی یکتا و یگانہ ہے، بے مثال اور بے عدیل ہے، بے نظیر ہے اور لاثانی ہے!
۔۔۔ وہی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔وہی خدا ہے
امریکہ 26,25 برس تک ( 1991تا 2017ء) واحد سپرپاور بننے کے زعم میں گرفتار رہا لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ حال ہی میں شمالی کوریا کے جوہری اور میزائلی پروگرام نے اس کے غرور کا فانوس چکنا چور کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔ بقول مرزا یا س یگانہ چنگیزی:
خودی کا نشّہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ، مگر بنا نہ گیا
شمالی کوریا، بحرالکاہل کے مغربی ساحل پر اور امریکہ اس کے مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ اگر ان دونوں کے بیچ میں بحرالکاہل کا4000بحری میلوں کے پاٹ کا پانی حائل نہ ہوتا تو امریکہ کب کا کوریا کو فتح کر چکا ہوتا یا کوریا، امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا چکا ہوتا۔ لیکن بحر الکاہل کی اس عظیم آبی دیوار نے شمالی کوریا اور امریکہ دونوں کو روک رکھا تھا۔ لیکن اب جو نگ۔ اون کے شمالی کوریا نے دو تین برسوں سے دنیا کی اس واحد سپر پاور کو زچ کررکھا ہے۔ آپ جونگ۔ اون کے ظاہری سراپا کو نہ دیکھیں۔ بظاہر یہ گو ل مٹول اور پپو سا چہرہ رکھنے والا شخص اپنے عزائم کے اعتبار سے ہٹلر کے مسخرانہ چہرے سے بھی زیادہ بھولا بھالا اور کودَن نظر آتا ہے لیکن اس کے اندر کم از کم ایک ہزار ہٹلر پوشیدہ ہیں! بارک اوباما ، اس کی پوشیدہ امکانی قوت سے بہت خائف رہتا تھا۔ اس نے تین برس قبل اپنی وزارت دفاع کو حکم دے دیا تھا کہ شمالی کوریا کے جوہری اور میزائلی پروگرام پر سائبر (Cyber) حملے پلان کرو اور اسے امریکی سرزمین کا رخ کرنے کی اجازت نہ دو۔ چنانچہ پینٹا گون صبح و شام و شب اسی کام میں لگ گئی۔ پھر یہ ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے شمالی کوریا کے جوہری بموں کے دھماکے ناکام ہونے لگے، اس کے میزائل فضا ہی میں جلنے بجھنے اور ٹوٹ کر بکھرنے لگے اور اس کے جوہری بم بردار میزائلوں کی اڑان لائن (Trajectary) طے شدہ کمپیوٹرائزڈ راستوں سے بھٹکنے لگی۔۔۔ امریکی وزارت دفاع کے سائبر سائنس دانوں کی خوشی دیدنی تھی! (جاری ہے)

مزید :

کالم -