لاس ویگاس کا قتلِ عام (2)

لاس ویگاس کا قتلِ عام (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پوڈوک کو کس چیز نے اس گھناؤنے جرم پر مجبور کیا یہ بات ابھی تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ میں خود بھی اسی وجہ کی تلاش میں ہوں کہ ایک چنگا بھلا معمر، خوش پوش، امیر کبیر اور جہاں دیدہ شخص ایکدم اتنا سنگدل کیوں ہو جاتا ہے کہ سینکڑوں جانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر خود بھی خودکشی کر لیتا ہے۔ معمول کی کتابی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ آج کل کی دہشت گردانہ تحریکوں (القاعدہ، داعش وغیرہ) سے متاثر ہوکر نارمل انسان بھی انبارمل بن رہا ہے۔ لیکن پوڈوک کبھی بھی اس قسم کی کسی بھی تحریک کے نزدیک تک نہ پھٹکا تھا۔۔۔


دوسری وجہ غربت بیان کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ مرورِ ایام سے کوئی غریب اور نادار شخص اپنے اردگرد کے امیر کبیر معاشرے کو دیکھ دیکھ کر احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی احساس کے زیر اثر وہ خود تو امیر نہیں بن سکتا لیکن امیروں کو دیکھ بھی نہیں سکتا اور انہیں اپنی نگاہوں سے ہٹانے کے لئے قاتل تک بن جانے سے گریز نہیں کرتا۔ برصغیر کی پرانی فلمیں اسی موضوع کی کہانیوں کے گردا گرد بنیں اور مقبول ہوئیں۔ بڑے بڑے ڈاکو اور لٹیرے بھی اسی راہ سے گزرے لیکن ان کا انجام بھی وہی ہوا جو اِن برخود غلط ہیروز کا ہوا کرتا ہے۔ لیکن پوڈوک تو مفلس نہ تھا۔وہ تو دن رات جواء کھیلتا تھا اور لاکھوں کروڑوں میں کھیلتا تھا۔ ویسے بھی آدھا امریکہ جواری ہے۔ ہر شہر میں کئی کئی جوا خانے (کسینو) موجود ہیں۔۔۔ (اور یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے)۔۔۔


امریکہ کے ہر بڑے ہوٹل یا ریستوران میں جوا ہوتا ہے اور اسے باقاعدہ حکومت کی اجازت بلکہ سرپرستی حاصل ہوتی ہے (امریکی قوم بحیثیت قوم بھی ایک جوئے باز قوم ہے!)۔۔۔ پوڈوک، لاس ویگاس کے اس ہوٹل (مانڈلے بے) میں بارہا آیا اور ٹھہرا۔ وہ ’’خوش قسمت جواری‘‘ کے عرفی نام سے مشہور تھا۔ جب وہ کسی ہوٹل میں ہوتا تو کسینو میں جواریوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے۔ ہوٹلوں کی انتظامیہ، پوڈوک کی طرح کی جواریوں کا انتظار کرتی ہیں تاکہ ان کی گاہکی میں اضافہ ہو۔ پوڈوک جب بھی مانڈلے بے میں آکر ٹھہرتا تو اس سے ہوٹل میں قیام و طعام کا کوئی بل وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ اب کی بار بھی اس کو رہائش اور کھانے پینے کی مفت سہولیات ہوٹل کی طرف سے فراہم کی گئی تھیں۔


امریکہ میں جوئے کے کاروبار کو ایک سائنس کے طور پر بھی لیا جاتا ہے اور ایک آرٹ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کبھی برج (تاش کا ایک معروف کھیل) کھیلی ہو یا کبھی فلاش کھیلنے کا اتفاق ہوا ہو توآپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ان کھیلوں میں کھلاڑی کی استقامت، ذہانت، عیاری، پیش بندی اور اپنے اعصاب پر کنٹرول رکھنے کی صلاحیتوں کا زبردست مظاہرہ ہوتا ہے۔ میں نے خود آرمی سروس کے دوران جی بھر کر برج کھیلی لیکن آرمی کے میسوں (Messes) میں زیادہ سٹیک لگانے کی اجازت نہ تھی۔ اس قسم کے اندرونِ در کھیل افسروں کی حسِ ذہانت اور پہل کاری (Initiative) کو جِلا دینے کے لئے باقاعدہ اِن ڈور گیمز کا حصہ بنائے جاتے ہیں۔ لیکن امریکہ میں جواریوں کی باقاعدہ درجہ بندی بھی کی جاتی ہے۔ بڑے بڑے جواریوں کو وہیل کا نام دیا جاتا ہے(سمندر کی سب سے بڑی اور گرانڈیل مچھلی)۔۔۔ لیکن پوڈوک وہیل نہ تھا۔ وہ درمیانے درجے کا جواری تھا لیکن پھر بھی وہ ایک ایک رات میں لاکوں ڈالر کا جوا کھیلتا تھا اور بالعموم جیت اسی کی ہوتی تھی۔ گویا جوا اس کا کاروبار تھا اور وہ دنیا بھر کے کسینوز میں جا کر اپنا شوق پورا کیا کرتا تھا۔۔۔ چنانچہ پوڈوک کے اس فعلِ شنیع کا تعلق کسی غربت یا ناداری سے نہیں تھا اور نہ ہی اپنے قیام کے دوران پوڈوک کو کسی بڑی ہار کا سامنا رہا ۔ کسینو انتظامیہ کے مطابق ہوٹل کے تین دن کے قیام میں اس نے لاکھوں ڈالر کی ’’کمائی‘‘ کی تھی!


ماہرینِ نفسیات، خودکشی اور اسی طرح کے قتلِ عام میں ملوث افراد کی نفسیاتی کیفیت میں محبت کی ناکامی کو بھی ارتکابِ واردات کا ایک بڑا سبب گردانتے رہے ہیں۔ میں نے جب یہ خبر پڑھی اور معلوم ہوا کہ اس کی ایک گرل فرینڈ بھی تھی تو یہ گمان گزرا کہ شائد گرل فرینڈ نے دھوکا دیا ہو گا، شائد وہ کسی اور کی بغل میں جا بیٹھی ہو گی یا شائد پوڈوک کی عمر اور اس ’’گرل‘‘ کی عمر میں اتنا زیادہ فرق ہو گا کہ جس نے گرل کو کسی زیادہ شفاف پانی کے تالاب میں چھلانگ لگانے کی ترغیب دے دی ہو گی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ تھا۔۔۔ معلوم ہوا کہ اس 64سالہ پوڈوک کی گرل فرینڈ کی عمر شریف بھی 62سال تھی!۔۔۔


موصوفہ اس سے پہلے تین عدد قانونی شوہروں کے حبالہ ہائے عقد میں آ چکی تھیں اور ’’نانی اماں‘‘ ہونے کا امتیاز بھی ان کو حاصل تھا۔ پوڈوک کی اس گرل فرینڈ، ماریلو ڈینلی کا تعلق ویسے تو فلپائن سے ہے لیکن وہ بہت سی دوسری فلپائنی خواتین کی طرح مختلف براعظموں کے ’’مفت‘‘ سیر سپاٹے کرتی رہتی ہیں اور خرچہ بھاڑا کوئی اور اٹھاتا ہے۔۔۔پہلا شوہر ان کو آسٹریلیا سے ملا تھا، دوسرا سیول(جنوبی کوریا) سے اور تیسرا فلپائن سے ہاتھ آیا۔ اور پوڈوک کے ساتھ ان کا یہ معاشقہ ان کی باقاعہ شادیوں کے بار بار ٹوٹنے کے اسباب میں سے ایک سبب بتایا جاتا ہے۔ جب پوڈوک یکم اکتوبر کو اپنے ہوٹل کی32 ویں منزل سے آٹو میٹک رائفلیں فائر کر رہا تھا تو ڈینلی، فلپائن گئی ہوئی تھی۔وہ اب امریکہ (لاس ویگاس) پہنچ چکی ہے۔اس قتلِ عام کی تفتیش پر مامور حکومتی ادارے اب اِس گرل فرینڈ سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پوڈوک سے ارتباط و اختلاط کے دور میں اس نے کبھی یہ بھی محسوس کیا تھا کہ وہ نفسیاتی طور پر ایک Deranged شخص تھا۔ اس نے کبھی اپنی62 سالہ محبوبہ کو اس طرح کا کوئی اشارہ دیا تھا کہ وہ مردم بیزاری یا خلقِ خدا کے درپئے آزار ہونے کے جراثیم رکھتا ہے۔اس سوال پر گرل فرینڈ نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور کہا کہ: ’’ہر گز نہیں۔ میرا محبوب تو سراپا اسیرِ الفت اور گرفتارِ دامِ محبت تھا۔۔۔‘‘تفتیشی اداروں کے اربابِ اختیار حیران ہیں کہ جب سب اشاریئے پوڈوک کو اس قتلِ عام سے بری کرتے ہیں تو پھر آخر وہ کیا سبب تھا کہ جس نے اچانک دُنیا بھر کے نفسیات دانوں کو گونگا کر کے رکھ دیا ہے۔

قارئین شائد اِس بات پر بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ پوڈوک کے ہوٹل کے کمرے میں 23عدد رائفلیں اور گولیوں کے دس باکس کیوں پائے گئے تھے اور اس کے آبائی گھر سے مزید 19خود کار رائفلیں کیوں برآمد ہوئی تھیں۔کیا امریکہ میں اسلحہ پر کوئی پابندی نہیں؟ کیا وہاں ممنوعہ بور کا اسلحہ خریدنا جرم نہیں؟ اگر نہیں تو کیا یہ بات امریکی معاشرے میں امنِ عامہ کے لئے ایک بڑا خطرہ نہیں؟
لیکن آپ حیران ہوں گے کہ امریکہ میں کسی بھی شخص پر چھوٹے اور درمیانے بور کے اسلحہ جات رکھنے پر کوئی پابندی نہیں،کوئی لائسنس نہیں۔اگر آپ امریکی شہری ہیں تو جتنا اسلحہ چاہے خرید کر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔آپ کو کسی پولیس سٹیشن پر بُلا کر یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ آپ کے پاس 100 رائفلیں اور راؤنڈوں کے 200 باکس کیوں ہیں۔


اس فیاضی اور لکھ لٹ کلچر کی پشت پر امریکہ کا وہ ادارہ ہے جس کا نام ’’نیشنل رائفل ایسوسی ایشن‘‘ (NRA)ہے۔ یہ سمجھئے کہ یہ NRA، کانگریس سے بھی زیادہ پاور فل باڈی ہے۔ اب تک کسی ری پبلکن یا ڈیمو کریٹک حکومت کو یہ جرأت نہیں ہو سکی کہ وہ اس تنظیم پر پابندی لگا سکے۔اس کی وجہ عجیب و غریب ہے۔۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ اس طرح کی پابندی لگا دیں گے تو اپنی رعایا پر بے اعتمادی کے مرتکب ہوں گے،لیکن سب کو معلوم ہے کہ اصل وجہ اسلحہ فروشوں کی طرف سے اس کاروبارِ اسلحہ فروشی کی زبردست پذیرائی ہے۔امریکہ کی 32،33 کروڑ آبادی میں اگر ہر گھر میں ایک ایک رائفل بھی ہو تو اس اسلحہ فروشی کے کاروبار کی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔


امریکہ کی نجی اسلحہ ساز کمپنیاں وہی ہیں جن کے زیادہ حصص پٹرول اور ڈیزل کمپنیوں کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں اور وہ اپنے کاروبار میں خسارہ برداشت نہیں کرتیں۔ ان کی بلا سے اگر معاشرے میں قتل و غارت گری ہوتی ہے یا امن و امان کا کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔اسی تازہ قتلِ عام کے سانحے کے ردعمل کے طور پر دیکھ لیجئے کہ اسلحہ فروشوں کی دکانوں میں خریداروں کا غیر معمولی رش دیکھنے میں آرہا ہے۔ہر امریکی اپنی حفاظت کے لئے کم از کم ایک ’’فائر آرم‘‘ رکھنے پر مجبور ہے اور یہی اسلحہ فروش ہیں جو ہر چار برس بعد جب الیکشن ہوتے ہیں تو کروڑوں اربوں ڈالر الیکشن مہم میں اپنی پسند کی سیاسی پارٹیوں کو چندہ دیتے ہیں۔ظاہر ہے مُلک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی اس ’’من و سلویٰ‘‘ سے محروم ہونے کا رسک مول نہیں لے سکتی۔۔۔ اور پھر یہی تو جمہوریت کا حسن بھی ہےٖ!(ختم شد)

مزید :

کالم -