پولیس کے آئی جی صاحبان فٹ بال کیوں؟ (2)

پولیس کے آئی جی صاحبان فٹ بال کیوں؟ (2)
پولیس کے آئی جی صاحبان فٹ بال کیوں؟ (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو اے ڈی کھوجہ سے کیا لینادینا، لیکن قانون کی حکمرانی ایک ایسا خواب ہے جو ہر پاکستانی دیکھتا ضرور ہے۔ابھی سندھ ہائی کورٹ کی وجہ سے چارج دوبارہ اے ڈی کھوجہ کے پاس ہی ہے کیونکہ ہائی کورٹ نے حکم دے رکھا ہے کہ حتمی فیصلے تک انہیں نہ ہٹایا جائے۔ دوسری طرف خیبر پختونخوا کا منظر نامہ بھی دلچسپ ہے۔ 16 مارچ کو آئی جی خیبر پختونخوا ناصر درانی ریٹائر ہوئے تو آئی جی کا عارضی چارج سینئر ایڈیشنل آئی جی اختر علی شاہ کو دیا گیااور پھر کچھ دنوں بعد مستقل آئی جی کے طور پر صلاح الدین محسود کی تقرری کر دی گئی۔ یہ ایک غلط فیصلہ تھا جسے نہ عوام نے تسلیم کرنا تھا اور نہ ہی پولیس فورس نے۔ یہ کتنی نا مناسب بات ہے کہ خیبر پختونخوا میں 21 گریڈ کے چھ ایڈیشنل آئی جی افسران کی موجودگی میں 20 گریڈ کے افسر کی تقرری کر دی جائے۔ اختر علی شاہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی زنجیرِ عدل ہلا چکے ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ عدالت عالیہ ان کی رٹ پٹیشن پر کیا فیصلہ دیتی ہے، اس پر کچھ دنوں انتظار کرنا ہوگا۔ خیبر پختون خوا میں آئی جی کی تقرری میں وفاقی حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ صوبے سے جو تین نام پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے وزیر اعظم ہاؤس کو بھجوائے تھے ان میں صلاح الدین محسود کا نام پہلے نمبر پر تھا،وفاقی حکومت نے پہلے نام کو ہی منظور کر لیا۔


خیبر پختون خوا میں ہونے والے میرٹ کا یہ قتل عام اس پارٹی کی طرف سے کیا گیا ہے جو پچھلے تین چار سال سے شفافیت کا علم اٹھائے شہر شہر احتجاج کرتی پھرتی ہے، کبھی دھرنے دیتی ہے اور کبھی وفاقی دارالحکومت کو لاک ڈاؤن کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ عمران خان اور ان کے وزیر اعلی پرویز خٹک کو پتہ ہی نہیں ہے کہ 20 گریڈ کا افسر ڈی آئی جی سے اوپر نہیں لگ سکتا،ان دونوں لیڈروں کے لئے عرض ہے کہ صوبے کا آئی جی 22 ویں گریڈ کا ہوتا ہے یا پھر 21ویں گریڈ کا سینئیر افسر۔ میں نے اختر علی شاہ کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھا ہے ، جس طرح انہوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے دئیے گئے فیصلوں کے حوالہ جات دئیے ہیں، مجھے لگتا ہے عدالت عالیہ پی ٹی آئی کی طرف سے لگائے گئے ایک انتہائی جونئیر افسر کی تقرری کو منسوخ کر دے گی۔ بہر حال خیبر پختون خوا میں آئی جی کی تقرری پر ہونے والا فٹ بال کا آخری سکور کیا ہوتا ہے اس کا بھی آئندہ کچھ دنوں میں پتہ چل جائے گا۔


اگلے ہفتہ پنجاب نے بھی اپنا نیا آئی جی لگانا ہے۔ میرا گمان ہے کہ سندھ اور خیبر پختون خوامیں برپا ہونے والے عدالتی معرکوں اور میڈیا میں اٹھنے والے طوفان کی وجہ سے میرٹ کے مطابق کسی سینئیر افسر کو ہی آئی جی پنجاب بنانا ہو گا۔ کون سا افسر میرٹ کے مطابق سب سے زیادہ کوالیفائی کرتا ہے اس کا علم ہر ایک کو ہے اور تمام نگاہیں بھی اسی بات کی منتظر ہیں کہ کب شہباز شریف پنجاب کا نیا آئی جی مقرر کرتے ہیں۔کسی کو فٹ بال کا میچ دیکھنے کا شوق ہو تو تینوں صوبوں میں پولیس کے اعلی افسران کا حال دیکھ لے۔ آئی جی صاحبان کی تقرریوں میں میرٹ اور قانون سے زیادہ صوبائی حکومتوں کی اپنی اپنی سیاسی مصلحتیں واضح طور پر نمایاں ہیں۔ چونکہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے تو ان تقرریوں میں سیاسی مفادات کا عمل دخل بھی اس تناسب سے بڑھ رہا ہے جس کا نقصان عوام کو ہو رہا ہے ۔جسٹس خلیل الرحمان خان نے یہ بات 1989ء میں کہی تھی اور ہم آج تک اس بات کو نہ صرف سینے سے لگائے بیٹھے ہیں بلکہ حتی المقدور کوشش بھی کرتے ہیں کہ ان سینئیر افسران کو واقعی فٹ بال بنا کر رکھیں۔ (ختم شد)

مزید :

کالم -