فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاست

فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاست
 فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاست

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کیا مضحکہ خیز اندازِ سیاست ہے کوئی سچ بولنے کو تیار ہی نہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں فوجی عدالتوں کے قیام پر اتفاق رائے پیدا ہو جائے گا۔ آصف علی زرداری شرط پر شرط لگا رہے ہیں۔ انہوں نے ان عدالتوں کیلئے شرائط کا ایک پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ جس میں سے وہ ایک ایک کر کے برآمد ہو رہی ہیں اور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں ان کی تجاویز پر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ وہ فوجی عدالتوں کو بھی عام قسم کی خصوصی عدالتوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں، تاکہ فیصلے اُسی طرح لٹکے رہیں جیسے عام عدالتوں میں لٹک جاتے ہیں پاکستان میں لیڈر چھوٹا ہو یا بڑا سیاسی جماعت تانگہ پارٹی ہو یا دھرنا پارٹی اس کی سیاست ہمیشہ قومی مفاد میں ہوتی ہے، قومی مفاد کیا ہوتا ہے وہی جو ان کے اپنے مفاد میں ہو۔ ایک دوسری بیماری جس نے ہمیں جکڑ رکھا ہے وہ اتفاق رائے پیدا کرنے کی بیماری ہے جب حکومتوں میں طاقت نہ ہو تو وہ چھوٹے چھوٹے پریشر گروپوں کے سامنے بھی ڈھیر ہو جاتی ہیں انہیں اپنے فیصلوں کے لئے تائید چاہئے ہوتی ہے۔ جب یہ تائید نہیں ملتی تو انہیں یہ پریشر گروپ بلیک میل کرتے ہیں ایک طرح سے سارے معاملے کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے جب کوئی فیصلہ اپنے لئے کرنا ہو تو قومی اتفاق کی شرط کو ایک طرف رکھ دیتی ہے لیکن جب فیصلہ قومی مفاد میں کرنے کی نوبت آتی ہے تو انہی پریشر گروپوں سے اتفاق رائے کی بھیک مانگتی ہے۔ آج فوجی عدالتوں کے دوبارہ قیام کی بحث کو دو ماہ سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں اس حوالے سے اتفاقِ رائے ہے کہ پیدا ہونے کا نام نہیں لے رہا بلکہ اُلٹا ہر روز ایک نئی شرط، ایک نئی اختراع سامنے رکھ دی جاتی ہے۔


آج کل آپریشن ردالفساد جاری ہے جس کے تحت پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں سینکڑوں دہشت گرد گرفتار ہو چکے ہیں اور بیسیوں کو مارا جا چکا ہے اب یہ گرفتار دہشت گرد کیا ہمارے موجودہ عدالتی نظام کے تحت کیفر کردار کو پہنچ سکتے ہیں؟ کیا اس نظام میں اتنی سکت ہے کہ انتہائی خطرناک دہشت گردوں کے خلاف مقدمات کی سماعت کر سکے کیا گواہوں اور ججوں کو اتنا تحفظ حاصل ہے کہ وہ اس خطرناک عمل سے گزر سکیں ان تمام سوالات کا جواب میری طرف سے تو نفی میں ہے۔ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی کے لئے قائم کی گئی عدالتیں عام عدالتیں بن کر رہ گئی ہیں، جن میں مقدمات سالہا سال چلتے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہمارا عام عدالتی نظام مجرموں کو سزائیں دینے کے لئے نہیں، آزاد کرنے کے لئے بنا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کراچی کے حالات سے دی جا سکتی ہے؟ جہاں سینکڑوں خطرناک ملزموں کو پکڑ کر عدالتوں میں کیس بھیجے گئے مگر ان کی ضمانتیں ہو گئیں اور وہ پھر اپنے پرانے کاموں میں مصروف ہو گئے۔ لاہور میں گلو بٹ کی رہائی پر بہت لے دے ہو رہی ہے سب کچھ سامنے آ جانے کے باوجود عدالتی نظام اسے سزا دینے پر قادر نہیں، وہ رہا ہو کر باہر آ گیا ہے اور ٹی وی چینلز اس کی کاروں کو ڈنڈے سے توڑنے والے وڈیو کلپس دکھا کر اپنا فرض پورا کر رہے ہیں۔ دو سال پہلے جب فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں تو یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اس عرصے میں ملک کے عدالتی نظام میں اصلاحات کی جائیں گی اور کریمنل جسٹس سسٹم کو بہتر بنایا جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ سب کچھ جوں کا توں موجود رہا۔ سوال یہ ہے کہ آج ہر کوئی فوجی عدالتوں کے قیام پر اپنی اپنی ڈفلی تو بجا رہا ہے، فوجی عدالتوں کے متبادل تیز رفتار نظام انصاف کے لئے یہ سرگرمی کیوں نہیں دکھا سکا، کیوں سب سوئے رہے اور مدت ختم ہوئی تو پھر ایک نئی بحث میں الجھ گئے۔ اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین یہ چاہتے ہی نہیں کہ ملک میں نظامِ انصاف بہتر ہو۔ وہ انگریزوں کے بنائے گئے 1861ء کے ایکٹ کو ہی ملک میں نافذ رکھنا اور اسی کے تحت فوجداری مقدمات کے فیصلے چاہتے ہیں۔

آصف علی زرداری نے فوجی عدالتوں کے لئے جو 9 تجاویز رکھی ہیں، وہ تو پورا آئینی پیکج ہیں۔ اگر اسی قسم کی تجاویز ایک آئینی بل میں شامل کر کے انہیں پارلیمینٹ سے منظور کرالیا جائے اور عدالتی نظام انہی کے مطابق کام کرے تو شاید فوجی عدالتوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ فی الوقت ایسی تجاویز کا مقصد تو یہی نظر آتا ہے کہ کسی طرح ایسی فوجی عدالتیں قائم کی جائیں جو نیم فوجی اور نیم سول ہوں۔ مثلاً فوجی عدالت میں سیشن جج کی موجودگی بھلا کیونکر اسے فوجی عدالت رہنے دے گی؟ پھر اس سیشن جج کا کام کیا ہوگا۔ کیا وہ پنچ کے ایک رکن کے طور پر موجود ہوگا یا پھر اس کی حیثیت ایک مشاورت کنندہ کی ہو گی۔ا گر وہ بنچ کارکن ہوگا تو فیصلہ کرنے میں کس رکن کو افضلیت حاصل ہو گی، فوجی عدالت کا سربراہ تو کوئی فوجی افسر ہی ہو سکتا ہے، اُس کا اختیار کتنا ہوگا۔ فوجی عدالت میں عدلیہ کے جج کا شامل ہونا اسے کس طرح فوجی عدالت رہنے دے گا؟ اس کا جواب کون دے گا؟ کوئی بھی نہیں، کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ان عدالتوں کے لئے سیشن ججوں کی نامزدگی تو چیف جسٹس کریں اور یہ جج بے اختیار رکن کی حیثیت سے فوجی عدالت میں بیٹھے رہیں صاف لگ رہا ہے کہ آصف علی زرداری معاملے کو اُلجھا رہے ہیں۔ وہ فوجی عدالتوں کو آدھا تیتر آدھا بٹیر کے فارمولے پر چلانا چاہتے ہیں اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ فوجی عدالتوں کا قیام صرف اس وجہ سے نہیں کیا جاتا کہ وہ فوری فیصلے کریں بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا عام عدالتی نظام ایسے خطرناک مجرموں اور دہشت گردوں کو سزا دینے کے لےء وہ ماحول ہی فراہم نہیں کرتا، جس میں گواہوں اور پراسیکیوشن کے نظام کو تحفظ دیا جا سکے۔ ایسا تو بیسیوں مرتبہ ہو چکا ہے کہججوں نے کیسز سننے سے انکار کیا اور گواہ عدالت میں پیش ہی نہ ہوئے۔ جو ہوئے انہیں بعد ازاں قتل کر دیا گیا۔ اگر فوجی عدالتوں میں بھی ایسے مجرموں کو وہی سہولتیں فراہم کرنی ہیں جو عام عدالتوں میں ملتی ہیں، تو ان عدالتوں میں گواہوں اور دیگر افراد کو کیسے پیش کیا جا سکے گا؟ مرضی کا وکیل فراہم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے مجرمان ایسے افراد کو بھی وکیل مقرر کر سکتے ہیں جو ان کی انتہا پسندانہ سوچ سے اتفاق رکھتے ہوں ایسے میں عدالت کی سیکورٹی یا رازداری کو کیونکر برقرار رکھا جا سکے گا؟ مجرموں کا وکیل تو عدالت کے لئے سیکیورٹی رسک بن جائے گا، جو گواہوں کے نام بھی جانتا ہوگا اور پراسیکیوشن کرنے والوں کو بھی۔ ملک کی موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ ایسی تجاویز سامنے لائی جائیں جن کے ذریعے عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ موجودہ حالات میں فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد بھی یہی ہے۔ لیکن تجاویز ایسی پیش کی جا رہی ہیں جیسے ہم عوام کے مقابلے میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ یہ بچگانہ سوچ ہے کہ فوجی عدالتوں کو اگر مکمل اختیارات دے دیئے گئے تو سیاستدانوں کے خلاف بھی فیصلے آ سکتے ہیں۔ ملک میں ابھی ایسی اندھیر نگری والی صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی۔ آزاد میڈیا اور عدلیہ کے ہوتے ہوئے ایسی باتیں احمقانہ لگتی ہیں پھر یہ بھی ہے کہ فوجی عدالتوں میں کیس حکومت کا محکمہ داخلہ بھیجتا ہے اور اس کا بنیادی فوکس صرف یہی ہے کہ وہ دہشت گرد جو عام عدالتوں میں پیش ہی نہیں کئے جا سکتے، فوجی عدالتوں کے ذریعے اپنے کئے کی سزا پائیں۔ مگر افسوس اس پر بھی سیاست ہو رہی ہے اور ہر کوئی اپنے مطلب کی پوائنٹ سکورنگ کر رہا ہے۔ صرف یہی نہیں اپنی ذاتی سو چ اور مفاد کو قومی مفاد کا لبادہ اوڑھا کر قوم پر احسان کرنے کی بڑھک بھی ماری جا رہی ہے۔
ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہئے

مزید :

کالم -