شمالی کوریا اور امریکہ: ایک موازنہ (2)

شمالی کوریا اور امریکہ: ایک موازنہ (2)
 شمالی کوریا اور امریکہ: ایک موازنہ (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کل جب یہ سطور لکھ رہا تھا تو ایک دوست کا فون آیا اور پوچھا کہ کیا آپ نے آج کا نیوزیارک ٹائمز دیکھا ہے؟۔۔۔ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ اس میں شمالی کوریا کے میزائل پروگرام پر ایک مفصل آرٹیکل آیا ہوا ہے، وہ بھی دیکھ لیں۔ میں نے کالم ختم کیا تو دوست کے بتائے ہوئے مضمون کو دیکھا۔ یہ پورے ایک صفحے پر پھیلا ہوا آرٹیکل تھا جس میں تصویر اور خاکوں کی مدد سے شمالی کوریا کے میزائل پروگرام پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ اسی موضوع پر اگلا کالم بھی لکھوں اور اسی لئے آپ یہ دوسری قسط پڑھ رہے ہیں۔


شمالی کوریا کا جوہری اور میزائل پروگرام کوئی ڈھکا چھپا موضوع نہیں۔ مغرب کے بڑے بڑے معروف اخبارات، میگزین اور میڈیا ہاؤسز اس پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔ صرف ہمارا پاکستانی میڈیا اس سلسلے میں نہ کوئی مفصل خبر دیتا ہے اور نہ کوئی ٹاک شو اس موضوع پر آن ائر کیا جاتا ہے۔ ہم کو پاناما لیکس اور کرکٹ میچوں کے بخار سے فرصت ملے تو کسی اور طرف دیکھیں، حالانکہ سنجیدگی سے دیکھا جائے تو جس طرح سارا یورپ اور امریکہ شمالی کوریائی نیو کلیئر پروگرام کی ایک ایک ڈویلپمنٹ کا حساب کتاب رکھتا ہے اسی طرح پاکستان کے جوہری پروگرام اور میزائل ڈویلپمنٹ کی کوریج بھی نہیں بھولتا۔


پاکستان پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اس نے اپنا میزائل پروگرام ، شمالی کوریا کی چھتری میں شروع کیا تھا۔ اگر قارئین یہ جانتے ہیں کہ کوریا کا پروگرام ماضی میں بھی اور حال میں بھی چین کی چھتری میں پروان چڑھا اور اب آگے بڑھ رہا ہے تو قارئین کویہ سمجھ بھی آ رہی ہو گی کہ پاکستان، شمالی کوریا اور چین کی مثلث کے خطوط اور زاویئے کون کون سے ہیں اور کہاں کہاں سے پھوٹتے ہیں۔ امریکہ کو چونکہ پاکستان کے کسی میزائل سے فی الحال براہ راست کوئی خطرہ نہیں جبکہ شمالی کوریا سے ہے اس لئے وہ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر خصوصی توجہ ’’فرماتا‘‘ ہے اور سارے مغربی میڈیا کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اب یہیں دیکھیں ناں کہ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو بین الاقوامی میڈیا پر خبریں آ رہی ہیں کہ شمالی کوریا نے چار بلاسٹک میزائل جاپان کی طرف فائر کئے ہیں۔ ایران کے پریس ٹی وی نے AFP کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سوموار کو علی الصبح پیانگ یانگ (شمالی کوریا کے دارالحکومت کا نام ہے) نے چار میزائل بحیرۂ جاپان کی طرف فائر کئے ہیں جن میں سے تین جاپان کے خصوصی اقتصادی زون (EEZ) میں جا گرے ہیں۔ یہ میزائل بلاسٹک ضرور ہیں لیکن بین البراعظمی بلاسٹک میزائل نہیں۔ جاپان کے وزیراعظم شنزوآبے (Shinzo Abe)نے فوراً ان آبی مقامات کا دورہ کیا جن پر یہ میزائل جا کر گرے۔۔۔۔ جاپانی وزیراعظم نے وہاں پہنچ کر کہا کہ : ’’ان میزائلوں کا مطلب یہ ہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے جاپان پر خطرے کی ایک اور منزل نزدیک آ گئی ہے اور ٹوکیو اب اس کو برداشت نہیں کرے گا‘‘۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بارہا ان میزائل لانچوں کی مذمت کی ہے لیکن بارہا شمالی کوریا نے جواباً یہ کہا ہے کہ اس کو امریکی حملے کا خطرہ ہے اور وہ اسی خطرے کا سدباب کرنے کے لئے ایسے اقدامات کرنے پر مجبور ہے۔ شمالی کوریا کا یہ بیان ان جنگی مشقوں کے جلو میں آیا ہے جو آج کل امریکہ اور جنوبی کوریا کے مابین روبہ عمل لائی جا رہی ہیں۔


جیسا کہ ہم جانتے ہیں جنوبی کوریا میں آج بھی ہزاروں امریکی ٹروپس صف بند ہیں۔ دراصل جنوبی کوریا، امریکہ کی ایک غیر علانیہ کالونی بنا ہوا ہے جس میں نہ صرف امریکی ٹروپس اس خطے کے امن کے لئے خطرہ ہیں بلکہ کئی امریکی بحری جنگی جہاز بھی جنوبی کوریا کی بندرگاہوں میں موجود ہیں اور جنوبی کوریا کے فضائی مستقروں پر امریکی جنگی طیاروں کے کئی سکواڈرن بھی رکھے ہوئے ہیں اور وہ بھی امریکہ اور جنوبی کوریا کی جاری ایکسر سائزوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں بحرالکاہل میں درجنوں جزیروں پر امریکی بحری اور فضائی مستقر موجود ہیں جن پر ہزاروں لاکھوں امریکی ٹروپس جنگ عظیم دوم کے خاتمے (اگست 1945ء) سے لے کر آج تک مقیم رکھے گئے ہیں۔ اس صف بندی کا مقصد ایک تو امریکہ کو دنیا کی واحد سپرپاور کے طور پر سامنے لانا ہے اور دوسرے چین اور روس کو خبردار کرنا ہے کہ وہ اس خطہ ء بحرالکاہل (Pacific Theatre) کا رخ نہ کریں۔


شمالی کوریا اور جنوبی کوریا دوسری جنگ عظیم سے پہلے ایک ملک تھے۔ آج اس کے دو حصے کر دیئے گئے ہیں۔ شمالی نصف چین سے ملا ہوا ہے اور جنوبی نصف امریکہ کی کالونی بن کے رہ گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نارتھ کوریا کو چین کی زبردست زمینی، فضائی، بحری امداد اور عسکری سپورٹ حاصل ہے۔ نارتھ کوریا کا سارا تیل چین کے راستے ہی سے وہاں پہنچتا ہے جس سے شمالی کوریا کی صنعتی اور ملٹری انڈسٹریل مشینیں چلتی ہیں۔


گزشتہ قسط کے آخر میں، ایک فقرہ لکھا گیا تھا: ’’بارک اوباما، جونگ۔ اون کی امکانی قوت سے بہت خائف رہتا تھا۔ اس نے تین برس قبل اپنی وزارت دفاع کو حکم دیا تھا کہ شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام پر سائبر (Cyber) حملے پلان کرو اور اسے امریکی سرزمین کا رخ کرنے کی اجازت نہ دو‘‘۔۔۔ بعض قارئین نے ٹیلی فون کئے کہ یہ سائبر حملے کیا ہوتے ہیں اور کیا امریکہ پاکستان اور شمالی کوریا پر بھی یہ ’’حملے‘‘ کر سکتا ہے؟۔۔۔


سائبر وارفیئر ایک بالکل نیا طریقہء جنگ ہے۔ اسے انفرمیشن وارفیئر بھی کہا جاتا ہے اور اس کی ابتداء انٹرنیٹ کی ابتداء سے منسلک ہے ۔آپ یہ سادہ سا مقولہ یاد رکھیں کہ جب بھی کوئی نیا جنگی ہتھیار ایجاد ہوتا ہے، اس کا توڑ ساتھ ہی ایجاد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں ایجادیں ایک دوسرے سے ہمیشہ منسلک اور ملحق رہتی ہیں۔ مثلاً جب ٹینک ایجاد ہوا تو ٹینک شکن وسائل بھی ایجاد ہونے لگے۔ طیارہ ایجاد ہوا تو طیارہ شکن توپخانہ (Ack Ack Arty) سامنے آ گیا۔ میزائل آئے تو میزائل شکن دفاع بھی ساتھ ہی چلا آیا۔۔۔ اسی طرح جب انٹرنیٹ ایجاد ہوا اور اس کو ملٹری ایجادات میں استعمال کیا جانے لگا تو دنیا اس کی تاثیر پر حیران رہ گئی۔ اس لئے ساتھ ہی ایک ’’انٹرنیٹ شکن‘‘ ایجاد بھی سامنے آ گئی۔۔۔۔ اسی کو سائبر وار فیئر کہا جاتا ہے۔ ۔۔۔ اس کی تعریف (Definition) یہ کی جاتی ہے: ’’سائبر وار فیئر کی اساس انٹرنیٹ پر ہے۔ یہ جنگ دراصل انفرمیشن اور انفرمیشن سسٹم کے خلاف لڑی جاتی ہے۔ سائبر حملے دشمن کی سرکاری ویب سائٹوں اور نیٹ ورکس کو غیر فعال اور ناکارہ بنا سکتے ہیں، انٹرنیٹ پر اساس رکھنے والی سروسز کو ناکارہ کر سکتے ہیں، کلاسیفائیڈ ڈاٹا چوری کر سکتے ہیں یا اس کو تبدیل کر سکتے ہیں جبکہ پورے کے پورے فنانشل سسٹم کو اپاہج کرکے رکھ دینے کی سکت رکھتے ہیں!‘‘


ترقی یافتہ ملکوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ کیا لفظ ’’سائبر جنگ و جدل‘‘ زیادہ بامعنی ہے یا ’’سائبر دہشت گردی‘‘ سے اس کا مفہوم زیادہ واضح ہوتا ہے۔ ’’سائبر دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح اس لئے زیادہ موزوں سمجھی جا رہی ہے کہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ سائبر حملہ کرنے والا کون ہے؟ اور اس نے یہ حملہ کب کرنا ہے؟


اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج دنیا کا سارا کاروبار (اس میں کاروبارِ جنگ بھی شامل کر لیں) انٹرنیٹ اور کمپیوٹر پر چلتا ہے۔ سسٹم ’’ڈاؤن‘‘ ہے تو آپ بینکوں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ یہ سسٹم اَپ کب ہوتا ہے اور ڈاؤن کب ہوتا ہے، اس کی پوری طرح خبر نہیں۔اسی طرح ’’کمپیوٹر ہیکنگ‘‘ ایک نئی اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ڈاکو (Hacker) جب چاہے آپ کے سسٹم کے اندر گھس کر سسٹم کو ناکارہ یا غیر فعال بنا سکتا ہے، قیمتی معلومات چوری کر سکتا ہے، اعدادوشمار تبدیل کر سکتا ہے اور ایسی تباہی مچا سکتا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔۔۔ یعنی کمپیوٹر نے جتنی آسانیاں پیدا کی ہیں، ان سے زیادہ مشکلات بھی پیدا کر دی ہیں۔
وسیع جتنا بھی ہوتا جا رہا ہے ذہنِ انسانی
حقیقت اور مبہم، اور مبہم ہوتی جاتی ہے
فرض کریں کہ آپ نے کسی لانچنگ پیڈ سے میزائل فائر کیا۔ اس کے کمپیوٹر میںیہ ڈاٹا فیڈ (Feed) کیا کہ اس کی اڑان لائن کا زاویہ فلاں ڈگری ہو گا اور اس کی منزل مقصود فلاں فلاں علاقہ ہو گی۔ اب اگر کوئی ڈاکو (Hacker) اس کمپیوٹرائزڈ ڈاٹا کو کمپیوٹر سسٹم کے اندر داخل ہو کر کرپٹ (Corrupt) کر دے تو میزائل کی منزل مقصود تبدیل کی جا سکتی ہے۔ فرض کریں یہ میزائل جو آپ نے فائر کیا ہے نیو کلیئر میزائل ہے اور اس کی نوک پر ایک جوہری بم بھی رکھا ہوا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ جوہری بم دشمن کے کسی ٹھکانے پر گرنے کی بجائے خود آپ کے کسی ٹھکانے پر جالگے اور آپ کو ٹھکانے لگادے!۔۔۔ اس تبدیلی (Deviation) کا تجربہ بھی کیا جا چکا ہے اور اسے قابلِ وقوع پایا گیا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ’’سائبر وار فیئر‘‘ کی سرحدیں کہاں سے کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔

سائبر سائنس دان اور انجینئر اس کا حل نکال رہے ہیں۔ کمپیوٹر سافٹ ویئر کو ’’غلطی پروف‘‘ بنایا جا رہا ہے اور اس کی سیکیورٹی پر اربوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس فن کی باقاعدہ ایک کمانڈ قائم ہے جس کو ’’سائبر کمانڈ‘‘کہا جاتا ہے۔ اس کی تنظیم اور اس کے سٹاف میں کمپیوٹر سائنس کے بہت بڑے علماء و فضلا اور ماہرین کو بھرتی کیا جاتا ہے ۔ ان لوگوں کا دن رات کام یہی ہے کہ اپنے کمپیوٹر نیٹ ورکس کو دشمن کے لئے ناقابلِ تداخل اور ناقابلِ تسخیر بنا دیں جبکہ ساتھ ہی دشمن کے نیٹ ورکس کے اندر گھسنے کے راستے تلاش کریں، اسے غیر فعال اور منجمد کرنے کے طریقے ایجاد کریں اور اسے ناکارہ کرکے دشمن کے حملے کو اس کے اوپر الٹا دیں!۔۔۔ دیکھیں یہ سلسلہ کہاں جاکر ختم ہوتا ہے!(ختم شدہ)

مزید :

کالم -