وزیر اعظم صاحب! مجھے آپ کی دلیل سے اتفاق نہیں

وزیر اعظم صاحب! مجھے آپ کی دلیل سے اتفاق نہیں
 وزیر اعظم صاحب! مجھے آپ کی دلیل سے اتفاق نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آگے بڑھنے کے لئے کرپشن سے درگزر کرنے کی جو دلیل وزیر اعظم نوازشریف لائے ہیں، وہ کم از کم مجھے تو ہضم نہیں ہو سکی۔ البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ انہوں نے کرپشن کی حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے، وگرنہ پہلے تو ہمیشہ یہی سننے کو ملتا تھا کہ ایک پائی کی کرپشن ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دیں گے۔ وزیر اعظم آج کل خود کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے ان پر نیب میں بھی انکوائریاں ہوتی رہی ہیں، مگر نیب کے بارے میں بڑ ی آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ انتقامی کارروائی کر رہا ہے، تاہم پاناما کیس نیب سے بالا تر کیس ہے جس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہو رہی ہے اور اس کے لئے جے آئی ٹی بھی بن چکی ہے۔ اس کیس کا فیصلہ وزیر اعظم کی اس دلیل کا فیصلہ کرے گا کہ ہمیں کرپشن کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنا چاہئے یا کرپشن کو ختم کر کے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔۔۔۔ مجھے وزیر اعظم نوازشریف کی اس خوش فہمی سے بھی اتفاق نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن بھی ختم ہو جائے گی اور کرپٹ عناصر بھی اپنے انجام تک پہنچ جائیں گے۔ نجانے وہ کون سی جادو کی پڑیا ہے جو وزیر اعظم نے اس سارے عمل میں ڈھونڈ لی ہے اور جو خود بخود کرپشن کو ایک دن جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی۔ جو راستہ وزیر اعظم نے چنا ہے اس میں تو کرپشن کو ایک قانونی شکل اختیار کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اگر اس فارمولے کو درست مان لیا جائے کہ بڑھتی ہوئی کرپشن کو اگر روکنے کی کوشش کی گئی تو ہم ترقی کے حوالے سے پیچھے رہ جائیں گے، تو پھر ہر آنے والا حکمران یہی کہے گا کہ وہ کرپشن روکنے پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا، بلکہ ملک کو ترقی کے لحاظ سے آگے لے جانا چاہتا ہے، اس لئے کرپشن ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ میرا خیال ہے ملک کے وزیر اعظم کی زبان سے اس قسم کی دلیل ان لوگوں کو تقویت دے سکتی ہے جو کرپشن کے بادشاہ ہیں اور جنہوں نے قومی خزانے کے اربوں روپے لوٹے ہیں۔ اس کا پیغام تو نیچے تک جائے گا اور وہ کرپشن جس سے عام آدمی کو واسطہ پڑتا ہے مزید بڑھتی چلی جائے گی۔


ایک جرم سے نظریں چرا کر کیسے زندہ رہا جا سکتا ہے؟ معاشرے میں قتل و غارت بڑھ جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمیں اسے روکنے پر وقت ضائع کرنے کی بجائے آگے بڑھنا چاہئے۔ ویسے دنیا کا کون سا ایسا معاشرہ ہے جو کرپشن کے باوجود ترقی یافتہ بنا ہو؟ کون سے ملک کی مثال ہم دے سکتے ہیں، الٹا ایسی مثالیں ضرور موجود ہیں کہ جن ملکوں نے کرپشن کو ایک ناقابل معافی جرم قرار دے کر اس کا خاتمہ کیا، وہ آگے بڑھ گئے۔ چین، فرانس، امریکہ، ملائشیا اور جرمنی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ کبھی کوئی ایسی بالٹی بھی پانی سے بھری ہے جس کے پیندے میں سوراخ ہو؟ اگر کرپشن سے اربوں روپے لوٹے جاتے رہیں تو ترقی کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر جب ہم نے کسی پر ہاتھ ہی نہیں ڈالنا تو یہ معجزہ کیسے رونما ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کے منہ کو حرام لگ چکا ہے وہ خود بخود بد عنوانی اور لوٹ مار سے توبہ تائب ہو جائیں گے۔ کیا دنیا کے کسی ملک میں ایسا کبھی ہوا ہے کیا سخت سزاؤں کے بعد کرپشن کو ختم نہیں کیا گیا، کیا چین میں کرپشن کرنے والے کی سزا معلوم نہیں اور کیا اس کی وجہ سے چین کرپشن فری ملک نہیں بن گیا۔؟


وزیر اعظم نوازشریف کا یہ کہنا بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں کرپشن بڑھتی ہی چلی گئی ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ بدعنوانی کے اتنے واقعات ہیں کہ ان کی گنتی بھی مشکل ہے اس امر کی گواہی ہے کہ اس سیلاب کے آگے بند نہ باندھنے کی وجہ سے آج یہ صورت حال ہو چکی ہے کہ اس کا کوئی سرا ہی نہیں مل رہا۔ یہ دو عملی کیسے چل سکتی ہے؟ اس کا تو صاف مطلب یہ ہے کہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر جو ٹیکس دیتی ہے اس میں سے آدھا کرپشن مافیا لے جاتا ہے ایک روپے کا پراجیکٹ پانچ روپے میں مکمل ہوتا ہے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور ہر پاکستانی مقروض سے مقروض تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

سیلاب کو روکنے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ ابھی چڑھ رہا ہوتا ہے، جب وہ کناروں سے چھلکنے لگے تو اس کے آگے کوئی بند کیونکر باندھا جا سکتا ہے؟ اگر کرپشن کو اس طرح قبولیت کا سرٹیفکیٹ دے کر ہم آگے بڑھتے رہے تو ایک دن آئے گا کرپشن ہم پر مکمل غالب آ جائے گی۔ قانون پیچھے رہ جائے گا اور کرپشن آگے آ جائے گی۔ یہ کام اب بھی ہو رہا ہے۔

جیسا کہ امریکی ادارے کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ 70 فیصد پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ رشوت دے کر ان کا ہر کام ہو جاتا ہے۔ گویا ہم نے جو سرکاری محکمے بنا رکھے ہیں، وہ کرپشن کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ یہ کینسر تو اندر ہی اندر پھیلتا چلا جائے گا۔ اس کے خاتمے کی کون سی تدبیر وزیر اعظم اختیار کریں گے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ناسور خود بخود ختم ہو جائے گا۔ نہیں صاحب نہیں۔ یہ تو ایک خام خیالی ہے اور کرپشن مافیا کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ ملک کے چیف ایگزیکٹو کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی۔ اچھی بات صرف وہی ہے جس میں یہ کہا جائے کہ کرپشن کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور کرپٹ عناصر کو بلا تفریق کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ کرپشن کیسوں پر توجہ دی گئی تو قوم کا وقت ضائع ہوگا۔ جو ہم کرنا نہیں چاہتے حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دنیا بھر کی قومیں اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ قوم کا وقت اور سرمایہ بچانا ہے تو کرپشن کو ختم کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور قوم کا سرمایہ بھی۔ قومی منصوبے اسی لئے وقت پر مکمل نہیں ہوتے کہ بدعنوانی کی وجہ سے جو لوٹ مار مچتی ہے، وہ منصوبوں کی تکمیل کے لئے درکار سرمایہ بچنے ہی نہیں دیتی۔ سب کچھ تو کمیشن اور کک بیک کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری منصوبے لاگت کے لحاظ سے تکمیل تک تین سے چار گنا زائد مالیت کے ہو جاتے ہیں کوئی راستہ ہے ہی نہیں کہ ہم کرپشن کا دھندہ بند کئے بغیر اپنے منصوبوں کو بروقت پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں یا تو ان منصوبوں کی لاگت اتنی زیادہ رکھی جائے کہ وہ کرپٹ مافیا کی لوٹ مار کے باوجود منصوبے کی تکمیل کر سکے یا پھر مدت میں اضافہ کیا جاتا رہے اور وقت کے ساتھ ساتھ لاگت بھی بڑھتی رہے۔ کرپشن کی گرم بازاری میں کوئی اس بات کی ضمانت کیسے دے سکتا ہے کہ قوم کے سرمائے کو اس کی فلاح و بہبود پر استعمال کیا جائے گا۔ اب وزیر اعظم نوازشریف کے مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ چونکہ کرپشن کے خلاف ایکشن کی بات نہیں کر سکتے، کیونکہ خود کرپشن کیس میں ملوث ہیں، اس لئے انہوں نے یہ کمزور دلیل ڈھونڈی ہے کہ کرپشن چونکہ بہت بڑھ گئی ہے، اس لئے اس پر گرفت کرنے کی بجائے اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ ترقیاتی منصوبے آگے بڑھتے رہیں۔ عوام تک وزیر اعظم کے اس بیان کا مجموعی تاثر یہی پہنچا ہے کہ حکومت نے کرپٹ مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور وزیر اعظم نے کرپشن روکنے کے خلاف اپنی حکومت کی بے بسی کا اظہار کر دیا ہے۔


زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، خود وزیر اعلیٰ شہباز شریف آئے روز یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے منصوبوں میں کرپشن کا خاتمہ کر کے اربوں روپے بچائے ہیں۔ وہ یہ کہتے بھی نہیں تھکتے کہ پنجاب میں کرپشن کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تو دونوں بھائیوں کی سوچ اور حکمت عملی میں اس فرق کو کس نظر سے دیکھا جائے؟ کرپشن کو ماضی یا حال کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا، کرپشن تو کرپشن ہوتی ہے۔ اگر ماضی کی کرپشن پر کسی کو پکڑا نہیں گیا ،کوئی سزا نہیں دی گئی تو یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ حال میں کرپشن نہیں ہو رہی۔ ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو بیٹھے بٹھائے کسی کرپٹ کو نیک بنا دیتی ہے؟ اگر سزا کا خوف نہ ہو تو کون لوٹ مار سے باز آتا ہے؟ ہمارے ہاں کرپشن کی بیخ کنی کے نام پر کتنے ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان کی موجودگی میں اگر ملک کا وزیر اعظم یہ کہے کہ کرپشن اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس پر توجہ دینا وقت ضائع کرنے کے برابر ہے تو پھر ان اداروں کا جواز کیا رہ جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ کچھ عرصہ پہلے جب نیب نے چند با اثر شخصیات پر ہاتھ ڈالا تھا تو وزیر اعظم نوازشریف نے ہی پریس کانفرنس کر کے یہ دلیل پیش کی تھی کہ نیب اگر افسران کو خوفزدہ کرتا رہا تو حکومتی مشینری کام کیسے کرے گی؟ اُس وقت بھی یہ سوال اُٹھا تھا کہ آیا کرپٹ حکومتی مشینری کو کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے اور آج بھی وزیر اعظم کے حالیہ بیان پر یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا ترقی اور کرپشن ساتھ ساتھ چلتے ہیں ؟ اور کیا ہمیں ایک بار رک کر اس برائی کا خاتمہ کرنے کے لئے پورا زور نہیں لگا دینا چاہئے۔ کرپشن سے صحت وقت اور سرمایہ ہی ضائع نہیں ہوتا، بلکہ معاشرے کی اخلاقیات بھی تباہ ہو جاتی ہیں اور گڈ گورننس کا خواب بھی کبھی پورا نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم صاحب! مجھے آپ کی دلیل سے اتفاق نہیں، کیونکہ اگر سب لوگ کچرا کھانا شروع ہو جائیں، تب بھی کچرا حلال نہیں ہو جاتا حرام ہی رہتا ہے۔

مزید :

کالم -