اُلٹی گنگا کو سیدھا کون کرے ؟

اُلٹی گنگا کو سیدھا کون کرے ؟
 اُلٹی گنگا کو سیدھا کون کرے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جسٹس (ر) جاوید اقبال کے چیئرمین نیب بننے سے نیب میں بھی جان پڑتی محسوس ہورہی ہے، اُدھر چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار بھی عدلیہ کو انصاف کے لئے سرگرم عمل دیکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے بار کے نمائندوں سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ بار اور بنچ عدالتی نظام کی شہ رگ ہیں، لیکن ان دونوں کا اشتراک انصاف کی فوری فراہمی کے لئے ہونا چاہئے۔ آرمی کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ تو پہلے ہی بہت جرأت مندانہ طریقے سے پاکستان کو محفوظ بنانے کے لئے متحرک و سرگرم ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو ملک کے تین بڑے ادارے اس وقت پوری طرح اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے بالکل واضح ہیں اور عزم بھی رکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا قومی کردار ادا کرنا ہے۔

اب گیند آچکی ہے سیاستدانوں کے کورٹ میں، پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں، اگروہاں بھی وہی سرگرمی اور جذبہ دیکھنے کو ملے جو باقی اداروں میں نظر آرہا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں رہنا چاہئے کہ پاکستان بالآخر اپنی ڈگر کو سیدھا کرنے میں کامیاب رہے گا اور ہم ایک خوشحال اور مستحکم قوم کی صورت میں اپنی منزل کو پالیں گے۔


اب اس غلط فہمی اور پروپیگنڈے کو بھی ختم ہونا چاہئے کہ باقی سب ادارے پارلیمنٹ کے خلاف ہیں اور محاذ آرائی کی صورت موجود ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب ہمارے قومی ادارے آزادی سے کام کرنے لگتے ہیں تو معاشرے کے بالادست طبقے، جو ملک کے قانون کومو م کی ناک سمجھتے ہیں، یہ بیانیہ اختیار کرتے ہیں کہ عدلیہ، نیب یا فوج اپنی حدود سے تجاوز کررہے ہیں اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو سلب کیا جارہا ہے۔

آج کل سب نیب کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور اسے ختم کرنے کے لئے مشاورتیں جاری ہیں، حالانکہ یہ وہی نیب ہے، جس کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ کام نہیں کرتا اور سیاسی انتقام کا نشانہ بناتا ہے۔ کیا نیب کوئی سیاسی ادارہ ہے جو سیاسی انتقام لیتا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ نیب کو حکومتوں نے اپنے مخالفین کے لئے استعمال کیا اور اُسے آزادی سے کام کرنے ہی نہیں دیا گیا۔ اب اگر ایک ایسا چیئرمین نیب آگیا ہے جو بے دریغ اور بلا امتیاز احتساب کرنا چاہتا ہے تو اس کی سپورٹ کی جانی چاہئے۔

دس سال بعد چودھری برادران کے کیس بھی کھل گئے ہیں اور پیپلز پارٹی والوں کے کیسز کو بھی جلد نمٹانے کا حکم جاری کردیا گیا ہے، گویا اچھی شروعات ہیں، معاملات بہتر ہو سکتے ہیں، اگر احتساب کو سب سپورٹ کریں۔ ہر شخص اگر نیب کے شکنجے میں آکر مظلوم یا بیمار بننے لگے تو احتساب کیونکر ہو سکتا ہے؟ اب یہ نہ ہو کہ ملک سے احتساب کا نظام ہی ختم کردیا جائے۔۔۔یعنی ’’ سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘‘۔۔۔ والی صورت حال پیدا ہوجائے۔ یہ تو آج کے زمانے میں ممکن ہی نہیں کہ جب پاناما لیکس اور پیراڈائز لیکس جیسی نقاب کشا رپورٹیں عالمی سطح پر طشت ازبام ہوچکی ہیں۔


کرپشن کا خاتمہ تو اب دنیا بھر کا ایجنڈا نمبر ایک بن چکا ہے۔ جب تک اس پر پردہ پڑا ہوا تھا، معاملات چل رہے تھے، مگر آف شور کمپنیوں کے بارے میں انکشافات اور عالمی بینکوں میں لوٹے ہوئے مال کی موجودگی نے سارے رازوں کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔

سعودی عرب جیسے ملک کو دیکھئے، سعودی عرب میں کرپشن اگر شاہی خاندان کا کوئی فرد کرے گا تو وہ بھی پکڑا جائے گا۔ اب ایک راستہ تو یہ تھا کہ سعودی عرب کی حکومت اپنے ملک کو کرپشن سے پاک صاف ثابت کرنے کے لئے اس معاملے کو دبادیتی اور اسے اندر ہی اندر حل کرلیا جاتا، لیکن ایسا نہیں کیا گیا، بلکہ اپنے اس ایکشن کو سعودی حکومت نے دنیا بھر میں نشر کردیا۔

شاہ سلمان نے باقاعدہ یہ اعلان کیا کہ کوئی کتنا ہی امیر یا بااثر ہو، اگر اس نے لوٹ مار کی ہے تو قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے ہاں تو معاملات کسی اور طریقے سے دیکھے جاتے ہیں۔ جو ہماری برادری یا جماعت سے تعلق رکھتا ہے، اسے سات خون بھی معاف کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔

بڑی سے بڑی عدالت بھی کرپشن کے جرم میں سزا دے تو اُس میں سے انتقام کی بو کو بآسانی تلاش کرلیا جاتا ہے۔ کیسے کیسے انہونے واقعات ہو جاتے ہیں، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آج کل پاکستان میں اقامہ لینے والوں کا بڑا چرچا ہے۔

نواز شریف بھی یہی کہتے پائے جاتے ہیں کہ مجھے پاناما پر نہیں اقامہ پر نکالا گیا۔ مجھے پوری دنیا میں کوئی ایسی مثال ڈھونڈ کر دکھائیں جس میں کسی ملک کے وزیر اعظم نے ایک چھوٹے سے ملک کا اقامہ لیا ہو، تاکہ بوقت ضرورت وہاں ملازمت کرسکے۔

اس سے بھی آگے چلیں، مجھے کسی ملک کا وزیر خزانہ بتائیں جو کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہا ہو، اُس کے اکاؤنٹس منجمد کردیئے گئے ہوں، اُس کے خلاف ایک قومی بینک کا صدر وعدہ معاف گواہ بن گیا ہو کہ میرے نام سے جو قرضے لئے گئے، یا اکاؤنٹس کھولے گئے، اُن سے مجھے لاعلم رکھا گیا۔

گویا ملک کا وزیر خزانہ جعلسازی کا مرتکب ہوا، مگر اس کے باوجود علاج کی غرض سے بیرون ملک جاکر بھی وزارتِ خزانہ کا منصب چھوڑنے کو تیار نہیں۔


یہ شکوہ تو حکومتی جماعت سے اکثر سننے کو ملتا ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات عدلیہ یا فوج نے سنبھال رکھے ہیں۔ یہ کب ہوتا ہے، کیسے ہوتا ہے؟ اس حوالے سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آئی۔

پھر یہ کیسی پارلیمنٹ یا حکومت ہے جو اپنے اختیارات کا بھی دفاع نہیں کرسکتی۔ میرا پختہ یقین ہے کہ اگر سیاستدان اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں، خاص طور پر مالی کرپشن کو اپنی مجبوری نہ بنائیں تو پارلیمنٹ مضبوط ہوسکتی ہے۔

جب پارلیمنٹ کی آزادی و خود مختاری کسی بھی پارلیمنٹرین کی ترجیح ہے ہی نہیں، تو پارلیمنٹ کیسے آزاد و خود مختار ہوسکتی ہے؟ پارلیمنٹ کی بالادستی کے پکے راگ صرف اسی وقت گائے جاتے ہیں، جب اپنے غیر آئینی کاموں یا کرپشن کو چھپانے کے لئے پناہ گاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

کوئی بتائے کہ پارلیمنٹ کون سا عوامی یا قومی مفاد کا کام کرنا چاہتی تھی، جسے عدلیہ، فوج یا نیب کی طرف سے روک دیا گیا ہو؟ اب اس بات کی کیا صفائی پیش کی جاسکتی ہے کہ پارلیمنٹ نے ایک فرد واحد کو پارٹی صدر بنانے کے لئے قانون میں ترمیم کی، جو ملک کی سب سے بڑی عدالت سے نااہل قرار پا چکا ہے۔

کیا اسی قسم کی بالادستی درکار ہے؟ جس پارلیمنٹ کو یہی فکر رہے کہ ملک کے قومی ادارے آزادی سے کام نہ کرنے لگ جائیں، انہیں باندھ کے رکھنا ہے، وہ اپنی بالادستی کیسے منواسکتی ہے؟ پارلیمنٹ ہو یا کوئی بھی قومی ادارہ، اُس کی بالادستی تو صرف اُسی صورت میں قائم ہوسکتی ہے، جب وہ خود بھی آئینی حدود میں رہے اور دوسروں کو بھی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے دے۔ ایک اچھے حکمران کی ایک خوبی یہ بھی تو ہوتی ہے کہ وہ قومی اداروں میں ٹکراؤ نہ ہونے دے۔


پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، لیکن اُسی کی سپرمیسی آئین کی بالادستی کے تابع ہے۔ آئین ہی دیگر آئینی اداروں کو بھی اختیار دیتا ہے اور اُن کی حدود کا تعین بھی کرتا ہے، اس لئے انہیں آئین کے مطابق کام کرنے کا پورا موقع ملنا چاہئے۔ جھگڑا یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان پارلیمنٹ ہی کی طرح ہر چیز میں بالادستی چاہتے ہیں، وہ عدلیہ سے بھی چاہتے ہیں کہ آنکھیں بند کرلے، نیب کو بھی اندھا دیکھنا چاہتے ہیں اور فوج سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ صرف سرحدوں پر توجہ دے، اندرونِ ملک کیا ہورہا ہے، اس کی طرف نہ دیکھے، حالانکہ فوج کراچی آپریشن، ضرب عضب، آپریشن ردالفساد جیسے بڑے آپریشنوں کے ذریعے شہروں کے اندر اپنی ضرورت کو ثابت کرچکی ہے۔ حیرت ہے کہ پاکستان میں اہل سیاست عدلیہ اور نیب سے گھبراتے ہیں، حالانکہ ان کی آزادی و خود مختاری پر تو انہیں فخر کرنا چاہئے۔ جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ یہی وہ اُلٹی گنگا ہے، جسے سیدھا کرنے کی ضرورت ہے، مگر جنہیں یہی راس آئی ہوتی ہے، بھلا وہ اسے سیدھا کیوں کریں گے؟

مزید :

کالم -