نرگس کے پھول

نرگس کے پھول
 نرگس کے پھول

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمران خان صاحب جلسوں پر جلسے کئے جا رہے ہیں، ان جلسوں کی وجہ نزول کیا ہے اس بارے کسی کو علم نہیں، یہ درست کہ عوامی رابطہ مہم سیاستدانوں کا آئینی، قانونی، سیاسی اور جمہوری حق ہے مگر یہ امربھی ایک حقیقت ہے کہ ہر حق ، ہر وقت استعمال کے لئے نہیں ہوتا۔ اس وقت نہ انتخابی مہم شروع ہوئی ہے اور نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کوکسی ایسے بحران کا سامنا ہے کہ عوام کوان کے شہروں میں جا کر اعتماد میں لینے کی کوئی ضرورت ہواور یوں بھی اب پرنٹ اور الیکٹرانک کے بعد سوشل میڈیا نے عوام سے رابطے کو بے حد آسان بنا دیا ہے۔ جب آپ سوشل میڈیا کی ایپس مثلا فیس بک یا ٹوئیٹر پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو یہ رابطہ یک طرفہ سے بڑھ کے دو طرفہ ہوجاتا ہے۔اگر ایک مقبول رہنما ہیں تو آپ کے لئے مزید آسانیاں موجود ہیں۔ درجنوں نیوز چینل آپ کی رہائش گاہ پرآپ کی پریس کانفرنس کومحض سو ، سوا سو لوگوں کی چائے کا اہتمام ہونے پر لائیو دکھانے کے لئے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں۔ یوںآپ گھر بیٹھے اپنی بات قوم تک پوری تفصیل کے ساتھ پہنچا سکتے ہیں۔خان صاحب کے جلسوں کو سنئے کہ وہ کوئی انکشافات نہیں کر رہے، پرانی باتوں کی تکرار ہے، مخالفین کی نقلیں اتاری جا رہی ہیں، ایک سال میں بارہ موسم ہونے جیسی لغو باتیں کر کے اپنے آپ کو ایکسپوز کیا جارہا ہے۔


جلسوں کا انعقاد کوئی سستا اور آسان کام نہیں ہے،کسی بھی شہر میں کسی جلسے سے خطاب کے لئے ایک سیاسی رہنما سب سے پہلے اپنی جو سب سے قیمتی شے صرف کرتا ہے وہ اس کا وقت ہے مگر جلسوں کے انعقاد میں صرف وقت ہی خرچ نہیں ہوتا، مہنگائی کے اس دور میں کسی بھی بڑے جلسے کی تیاری کے لئے فی بندہ ایک ہزار روپے یا اس سے بھی زیادہ ضائع ہوجاتے ہیں اور آپ محض تقریر جھاڑ کے واپس آجاتے ہیں۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے پاس اربوں روپے کہاں سے آ رہے ہیں کہ ہر دوسرے، تیسرے روز کروڑوں پانی کی طرح بہا ئے جا رہے ہیں ۔ اس وقت خان صاحب جیسے لیڈرکے لئے غور و فکر کی خاطر زیادہ اہم باتیں بھی موجود ہیں جیسے مثال کے طور پر انتخابات کو بروقت یقینی بنانے کے لئے نئی حلقہ بندیوں کا عمل شفاف طریقے سے کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے یا عام انتخابات میں دھاندلی نہ ہونے کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خیبرپختونخوا کے عوام کو فیس بک کی بجائے حقیقی ریلیف کیسے دیا جا سکتا ہے۔خان صاحب اور ان کے قریبی ساتھیوں کو اس وقت بہت سارے مقدمات کا بھی سامنا ہے مگر وہ عدالتی فیصلوں بارے مطمئن نظر آتے ہیں۔ کیوں مطمئن نظر آتے ہیں، اس کا جواب عدالتی کارروائی کا مطالعہ کرنے والوں کو بخوبی علم ہے۔نواز شریف کی پارٹی حکومت میں ہے مگر انہیں عمران خان کی نسبت کہیں مختلف کارروائیوں اور رویوّں کا سامناہے۔


میں نے ایک سینئر صحافی سے استفسار کیاکہ عمران خان جلسوں پر جلسے کیوں کئے جا رہے ہیں مگر مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا،ہاں، یہ ضرور کہا گیا کہ گرمی کو گرمی مارتی ہے اور لوہے کو لوہا کاٹتا ہے لہٰذا اب دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی جلسے شروع کر دینے چاہئیں۔ انہوں نے اضافی فائدہ یہ بیان کیا کہ اس کے نتیجے میں انتخابی ماحول بن جائے گا جو کسی بھی غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدام کی راہ میں رکاوٹ بن سکے گا مگر میرا خیال یہ ہے کہ قوم کو خواہ مخواہ کے بخار میں مبتلا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ ہم ہر وقت ہنگامی حالت کا شکار رہتے ہیں اور اس نے ملکی معیشت ہی نہیں بلکہ قومی نفسیات پربھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں حلقہ بندیوں کا ایشو پیدا ہونے کے بعد حکمران جماعت بروقت انتخابات کے انعقاد کے لئے ہلکان ہورہی ہے اور نجانے خان صاحب کس دنیا میں رہتے ہیں کہ انہوں نے قبل از وقت انتخابات کاشوشا ایک مرتبہ پھر چھوڑ دیا ہے۔ خان صاحب جیسی اور جتنی فہم و فراست رکھنے والے ان کے ترجمان فواد چودھری نے اس سلسلے میں خیبرپختونخوا کی اسمبلی توڑنے کی پیش کش بھی کر دی ہے اور مجھے یقین ہے کہ ایسی تجویز پر، آمنا سامنا ہونے پر، محترم پرویز خٹک کافواد چودھری پر ہاتھ بھی اٹھ سکتا ہے کہ فواد چودھری کو خٹک صاحب کے چھابے میں ہاتھ مارنے کا حق کس نے دیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ پیش کش سینیٹ کے انتخابات کی راہ کھوٹی کرنے کی ایک ناکام بلکہ بے ہودہ کوشش لگتی ہے۔آئین، جمہوریت اور عوام سے تحریک انصاف کی وابستگی کا بھانڈا پھوٹ چکا اور اب اس نے ایک صوبائی حکومت ہونے کی بنیاد پر وفاق کے ساتھ بھی کھلواڑ شروع کر دیا ہے۔


سوال اس وقت بے وقت کی راگنی کے طور پر شروع جلسوں کا ہے۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ خان صاحب فارغ رہتے ہیں، نہ گھر بار کی ذمہ داریاں ہیں اور نہ ہی ان کابظاہر کوئی کاروبار ہے، انہوں نے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوتا ہے لہذا دوسروں کے خرچے پر اپنے نعرے کیا برے ہیں۔خان صاحب اپنے علاوہ کسی دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔نفسیات کی لغت میں نرگسیت کی مختصر ترین تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ فرد میں عشق کا مرکز اس کی اپنی ذات ہوجائے۔ خود بیتی، خود پرستی اور حب ذات نرگسی شخصیت کے اہم عناصر ہیں۔ اردو انسائیکلووپیڈیا کی فرہنگ نفسیات میں درج ہے کہ جب یہ کیفیت شدید صورت میں ظاہر ہو تو نفسی اعصابی خلل کا باعث بھی بن سکتی ہے خاص طور پر اس وقت جب اپنی ذات سے متعلق کوئی خواہش پوری نہ ہونے پر لاشعور میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور داخلی کھینچا تانی کے نتیجے میں جسم بھی متاثر ہوتا ہے،دوسرا ردعمل مراجعت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ میں عمران خان صاحب کو بانوے کے ورلڈ کپ میں کامیابی کو پاکستان کی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر بیان کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، ان کی وزیراعظم بننے کی خواہش کا جائزہ لیتا ہوں تو دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی صحت برقرار رکھے۔ ان کی ذات اور سیاست کا تھوڑا سا مطالعہ ہی بتاتا ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ ان کی جماعت بھی نرگسیت کا شکار ہے۔ وہ اپنے آپ کو سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ انہیں اپنے آپ میں کوئی خامی اور کوئی کوتاہی نظر نہیں آتی اور یہ کوئی معمولی صورتحال نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ نرگسیت تو افراد میں پائی جاتی ہے، جماعتو ں میں نہیں تو میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ جناب مبارک حیدر کی آٹھ، نو برس پہلے شائع والی کتاب ’تہذیبی نرگسیت ‘ کا مطالعہ ضرور کریں، کچھ زیادہ مہنگی کتاب نہیں ہے مگر یہ ضرور واضح کرتی ہے کہ صرف افراد ہی نہیں بلکہ گروہ اور قومیں بھی اس مرض کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ نتیجہ بھی کچھ زیادہ غلط اور غیر منطقی نہیں کہ دہشت گردی کرنے والے گروہ بھی نرگسیت کا ہی شکار ہوتے ہیں۔ نرگسیت میں افراد اور گروہ گردوپیش کے حقائق سے آنکھیں چرا کر اپنے آپ کودنیا کی اہم ترین حقیقت سمجھنا اور اپنی ہی ذات اور خیالات کے نشے میں بدمست رہنا شروع کر دیتے ہیں۔


ہر کوئی میر اانتظار کر رہا ہو، میری راہ میں دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے ہو، ہر دیوار پر میرا نام لکھا ہو اور ہر طرف میری تصویریں چسپاں ہوں، میری باتوں کو حرف آخر سمجھا جارہا ہو،میرے نعرے لگ رہے ہوں، ہجوم میرے قریب آنے کے لئے ترس رہا ہو، نوجوان لڑکے بالعموم اور نوجوان لڑکیاں بالخصوص میرے ساتھ سیلفی بنانے کے باولے اور باولیاں ہور ہی ہوں، یہ قابو سے باہر ہوتی خواہش واقعی معمولی صورتحال نہیں ہے۔ کہتے ہیں قدیم یونان کی دیو مالا میں نارسس نام کا ایک خوبصورت ہیرو تھا جو اپنی تعریف سنتے سنتے اتنا خود پسند ہو گیا کہ ہروقت اپنے آپ میں مست رہنے لگا اور ایک روز پانی میں اپنا عکس دیکھتے دیکھتے خود پر عاشق ہو گیا۔ وہ رات دن پانی میں اپنا عکس دیکھتا رہتا۔پیاس سے نڈھال ہوجانے کے باوجود پانی کو ہاتھ نہ لگاتا کہ پانی کی سطح میں ارتعاش سے کہیں اس کا عکس نہ بکھر جائے چنانچہ وہ اپنے ہی عکس میں گم بھوکا پیاسا ایک روز جان سے گزر گیا اور دیوتاوں نے اسے نرگس کے پھول میں تبدیل کر دیا جو آج تک پانی میں ا پنا ہی عکس دیکھتا رہتا ہے، ہم نرگس کے ان پھولوں کا کیا کریں؟

مزید :

کالم -