کیا علامہ اقبالؒ نے جھوٹ بولا؟
مشہور و معروف سماجی شخصیت اور سیاست دان رانا نذرالرحمن گاہے بگاہے شرفِ ملاقات بخشتے ہیں۔ ایک روز کہنے لگے: ....”علامہ اقبالؒ کی اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی سے ملاقات ہوئی؟ کیا بات ہوئی؟ احوال کس کتاب میں ہے؟“.... مَیں نے بتایا کہ اکثر کتابوں میں تذکرہ ہے، سب سے زیادہ تفصیل سے علامہ اقبالؒ کے فرزندِ ارجمند ڈاکٹر جاوید اقبال نے ”زندہ رُود“ میں ذکر کیا ہے۔ اُنہوں نے کچھ ایسی کتابوں کی فرمائش کی، بہرحال تازہ ترین کتاب ”تاریخ ادبیاتِ مسلمانان پاک و ہند“ اُردو ادب جلد پنجم، مُدیر عمومی ڈاکٹر خواجہ محمدزکریا طبع دوم 2012ءپیش نظر ہے.... تیسرا باب: ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ص67 اور 68 پر علامہ محمد اقبالؒ اور مسولینی کے عنوان سے لکھتے ہیں: ”اٹلی کے مطلق العنان حکمران مسولینی سے ملاقات ہوئی تو اُس نے اٹلی کے بارے میں اقبالؒ کے تاثرات جاننا چاہے۔ اقبالؒ نے کہا: ....”یورپ سے منہ موڑ کر مشرق کا رُخ کرو، یورپ کا اخلاق ٹھیک نہیں ہے، مشرق کی ہوا تازہ ہے، اِس میں سانس لو، پھرمسولینی نے پوچھا، کوئی اور مفید مشورہ دیجئے!“.... اقبالؒ نے کہا : ....”شہر کی آبادی مقررہ حد سے تجاوز کرے تو دوسراشہر آباد کرو، آبادی بڑھنے سے شہر کی تہذیبی اور اقتصادی توانائی کم ہوجاتی ہے اور اُن کی جگہ محرکاتِ شر، Evil Forces .... زور پکڑتے ہیں۔
اقبالؒ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ.... ”میرے پیغمبر نے یہ ہدایت 13 سو سال قبل فرمائی تھی“....
یہ بات سنتے ہی مسولینی بے حد متعجب ہوا اور کہنے لگا: ” کیسا شاندار خیال ہے“ باہر نکلے تو اقبالؒ نے صحافیوں کے اصرار پر مسولینی کے بارے میں فرمایا: ....”آپ کا ڈوچے لوتھر ہے مگر انجیل کے بغیر“....!
علامہ نے مسولینی سے متاثر ہو کر مسولینی پر نظم بھی لکھی....”جوبالِ جبریل“ میں موجود ہے:
قدرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ذوقِ انقلاب
قدرتِ فکر و عمل کیا شے ہے؟ ملت کا شباب
قدرتِ فکر و عمل سے معجزاتِ زندگی
قدرتِ فکر و عمل سے سنگِ خارہ لعلِ ناب
’رومتہ الکبریٰ‘ دِگرگوں ہو گیا تیرا ضمیر
ایں کہ می بینم بہ بیداری است یاربّ یا بخواب
چشمِ پیرانِ کہن میں زندگانی کا فروغ
نوجواں تیرے ہیں سوزِ آرزو سے سینہ تاب
یہ محبت کی حرارت، یہ تمنا، یہ نمود
فصلِ گل میں پھول رہ سکتے نہیں، زیرِ حجاب
نغمہ ہائے شوق سے تیری فضا معمور ہے
زخمہ ور کا منتظر تھا تیری فطرت کا رباب
فیض یہ کس کی نظر کا ہے؟ کرامت کس کی ہے؟
وہ کہ ہے جس کی نگہ مثلِ شعاعِ آفتاب!
ڈاکٹر صابر کلوروی کی کتاب ”داستانِ اقبال“ میں ص 69 پر”مسولینی سے ملاقات“ کے عنوان سے درج ہے کہ:”اقبالؒ مسولینی سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے ،مگر وہ اپنے کام میں اِس درجہ منہمک تھا کہ اُس نے آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا کہ اُس کے ہاں کون آیا ہے؟.... میز پر کاغذوں کا انبار لگا ہوا تھا.... جب علامہ اقبالؒ شہ نشیں کے قریب پہنچے تو تب مسولینی نے نظریں اُٹھا کر دیکھا اور اپنا ہاتھ مصافحے کے لئے آگے بڑھایا۔ مسولینی کا قد اُونچا نہیں تھا لیکن بازو بھرے بھرے تھے۔ سینہ کشادہ اور آنکھیں شکرے کی طرح چمک رہی تھیں۔ اقبالؒ اُس کے حسنِ اخلاق، شان و شوکت اور مضبوط جسم کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور اُنہیں اِس شخصیت میں روم کے گزشتہ شہنشاہوں کا عکس نظر آنے لگا۔ رسمی مزاج پرسی کے بعد مسولینی نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا:”میری فاشسٹ تحریک کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟“۔
اُنہوں نے جواب دیا:”آپ نے ڈسپلن کے اِس اصول کا بڑا حصہ اپنا لیا ہے جسے اسلام انسانی نظامِ حیات کے لئے بہت ضروری سمجھتا ہے لیکن اگر آپ اسلام کے نظریہ حیات کو پوری طرح اپنا لیں تو سارا یورپ آپ کے تابع ہو سکتا ہے“ ۔
لیکن یہ بات ایسی تھی جو مسولینی کو ذرا کم ہی سمجھ آسکتی تھی۔ مسولینی نے علامہ سے اٹلی کے قیام کے تاثرات پوچھے، اِس پر آپ نے فرمایا: ”مَیں اطالویوں کے متعلق سمجھتا ہوں کہ وہ ایرانیوں سے کافی حد تک مشابہت رکھتے ہیں اور بڑے ذہین وفطین، خوب رو اور فن پرست ہیں، اُن کے پیچھے تمدن کی کتنی ہی صدیاں ہیں مگر اُن میں خون نہیں“۔
مسولینی نے اِس پر حیرت کااظہار کیا تو آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:”ایرانیوں کو ایک فائدہ میسر رہا ہے جو اطالویوں کو میسر نہیں اور وہ یہ کہ ُان کے ارد گرد مضبوط اور توانا قومیں، افغان، کرد اور ترک آباد ہیں جن سے وہ تازہ خون حاصل کر سکتے ہیں آپ اطالوی ایسا نہیں کر سکتے“۔
”اچھا ہم اطالویوں کو کیا کرنا چاہیے“ علامہ نے جواب دیا:”یورپ کی تقلید سے منہ موڑ کر مشرق کا رُخ کرو، اِس لئے کہ یورپ کا اخلاق ٹھیک نہیں، مشرق کی ہوا تازہ ہے، اِس میں سانس لو“۔
مسولینی نے ڈاکٹر صاحب سے کوئی اچھا سا مشورہ طلب کیا۔ اُنہوں نے فرمایا:”ہر شہر کی آبادی مقرر کرکے اُسے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے نہ دو، اِس سے زیادہ بسنے والوں کو نئی بستیاں مہیا کی جائیں“۔
مسولینی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اِس کی وجہ پوچھی تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا:شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی جاتی ہے اُس کی تہذیبی و اقتصادی توانائی کم ہوتی جاتی ہے اور ثقافتی توانائی کی جگہ محرکاتِ شر لے لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں بلکہ میرے پیغمبر نے آج سے تیرہ سو سال پہلے یہ مصلحت آمیز ہدایت جاری فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت دینے کی بجائے دوسرا شہر آباد کیا جائے“۔
یہ حدیث قدسی سنتے ہی مسولینی کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور دونوں ہاتھ میز پر زور سے مارتے ہوئے کہنے لگا: "What an excelent IDIA" (کتنا خوبصورت خیال ہے)۔
مسولینی سے علامہ اقبالؒ کی ملاقات کوئی 40 منٹ جاری رہی۔ جب وہ مسولینی کے کمرے سے باہر نکلے تو صحافیوں نے اُنہیں گھیر لیا اور مسولینی سے اپنی ملاقات کے بارے میں تاثرات بیان کرنے کو کہا ۔علامہ اِس موقع پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہ تھے ،لیکن جب لوگوں کا اصرار بڑھ گیا اور اُنہوں نے علامہ کا راستہ روک لیا توآپ نے کہا:”آپ کا ڈوچے بغیر بائبل کے لُوتھر ہے“ ۔
یہ سب متذکرہ بالا معلومات اکٹھی کر لینے اور رانا نذر الرحمن صاحب کی خدمت میں کتاب ”داستان اقبال“ پیش کرنے کے بعد خیال آیا کہ ماہرین اقبالیات، ادب میں ڈاکٹر، پی ایچ ڈی حضرات اور اُردو کے پروفیسر صاحبان سے معلوم کروں کہ کیا حضرت علامہ اقبال ؒکی ملاقات مسولینی سے ہوئی؟ ہوئی تو کتنے دوراینے پر محیط تھی؟ اور کیا بات ہوئی؟ چنانچہ فون پر ڈاکٹر تبسم کاشمیری ڈاکٹر انور محمود خالد (فیصل آباد)، ڈاکٹر ریاض قدیر، ڈاکٹر طاہر تونسوی (فیصل آباد)، ڈاکٹر مظفر عباس، ڈاکٹر اجمل نیازی، ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، پروفیسر جلیل عالی، پروفیسر سحر انصاری(کراچی)، ڈاکٹر قاری محمد طاہر (فیصل آباد)، پروفیسر احمد عقیل روبی، پروفیسر غلام حسین ساجد، افسانہ نگار ذکاءالرحمن، خالد علیم (سابق مدیر سیّارہ) اور بہت سے اُردو کے پروفیسروں کے علاوہ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا سے بالمشافہ ملاقات کرکے یہ سوال کیا گیا.... اکثر پروفیسروںکو بے خبر ہی پایا اور اکثر کو تفصیل سے آگاہی نہ تھی‘ نہ وہ مطمئن کر سکے۔ تاہم ڈاکٹر ریاض قدیر نے بتایا کہ سہ ماہی ”سیّارہ“ کے کسی اقبال نمبر میں ”اقبال اور مسولینی“ کے عنوان سے کسی کا مضمون تھا ،وہ شمارہ مل جائے تو شاید تسلی بخش جواب مل سکے،”زندہ رُود“ بھی دیکھوں گا تو حوالہ دے سکوں گا، ملاقات تو ہوئی مگر بہت مختصر تھی.... ڈاکٹر انور محمود خالد اور پروفیسر جلیل عالی نے تفصیلی روشنی ڈالی۔ پروفیسر احمد عقیل روبی کا خیال تھا کہ شاید دوران سفر بحری جہاز میں ملاقات ہوئی۔ بعض کہتے ہیں مسولینی سے ٹائم مانگا گیا مگر نہ ملا ۔بعض کا کہنا ہے اٹلی میں ملاقات ہوئی جو ایک دو منٹ کی تھی۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے کہا کہ مولانا غلام رسول مہر یا مولانا عبدالمجید سالک نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے مگر اٹلی کے اُردو داں،اقبال سکالر (غالباً سکندر بوسانی) پاکستان آئے تھے، تو اُن سے بھی یہ سوال کیا گیا تو اُنہوںنے کہا تھا: ”مسولینی کے سرکاری ریکارڈ میں تو کہیں اَتا پتا نہیں ملتا۔ ممکن ہے علامہ ملے ہوں تو مہر یا سالک سے ذکر کیا ہو اور وہی آج تک لکھا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں اگر کہیں کوئی ملاقات ہوئی بھی تو بہت مختصر، محض ایک دو منٹ کی تھی“....!
مَیں نے کہا مگر جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے، مسولینی بہت بڑے ہال نما کمرے میں بیٹھا تھا، دو منٹ تو وہاں تک چل کر جانے ہی میں لگ گئے ہوں گے؟ بہرحال اِس سوال پر سب سے زیادہ دلچسپ تبصرہ پروفیسر ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا تھا ۔اُنہوں نے ارشاد فرمایا کہ ”کوئی ملاقات نہیں ہوئی، کوئی بات نہیں ہوئی، علامہ نے جھوٹ بولا“!
غرض جتنے منہ اتنی باتیں.... ماہرین اقبالیات اس تبصرے پر کوئی تبصرہ فرما سکیں گے کیا؟