مائنس ون فارمولا

مائنس ون فارمولا
 مائنس ون فارمولا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خیال تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے مائنس ون فارمولے پر کام بند کر دیا گیا ہو گا کہ چیف آف آرمی سٹاف سمیت اعلیٰ قیادت سیاست میں مداخلت کی قائل نہیں مگر یوں لگتا ہے کہ پہلے والی موٹی اور بھاری اسٹیبلشمنٹ نے بہت سارے انڈے دے رکھے ہیں جن سے بچے نکلتے رہتے اور اپنا کام فطرت میں موجود مستقل مزاجی سے کرتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ قمر زمان کائرہ اور ہم نوا شور مچایا کرتے تھے کہ وہ پیپلزپارٹی میں مائنس ون نہیں ہونے دیں گے یعنی وہ ایسی پارٹی وجود میں نہیںآنے دیں گے جس میں جیالے تو ہوں گے آصف علی زرداری موجود نہ ہوں۔ وہ شائد اس خیال میں تھے کہ ماضی کے ضیائی اور مشرفی فارمولوں سے کام چلایا جائے گا، پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو ڈرایا اور دھمکایا جائے گا، انہیں کوڑے لگانے اور جیلوں میں بھیجنے کی راہ ہموار کی جائے گی اور اس کے نتیجے میں اسی پیپلزپارٹی کے اندر سے ایک اور پیپلزپارٹی نکال لی جائے گی، یہ الگ بات کہ اس نئی پیپلزپارٹی میں جانے والوں کا ضمیر انہیں کچوکے لگا تا رہے گا اور پھر ایک وقت آئے گا کہ انہیں دھکیلتا ہوا دوبارہ اصلی تے وڈی پیپلزپارٹی میں پہنچا دے گا جیسے ابھی تھوڑے ہی دن پہلے فیصل صالح حیات پہنچے۔


اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے تو شٹاپو، گلی ڈنڈے اورکوکلی چھپاکوں جیسے کھیلوں سے انٹرنیٹ پر پہنچ گئے ہیں تو ہماری اسٹیبلشمنٹ کے کھیل وہی پرانے رہیں گے تو آپ غلط ہیں۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب مینار پاکستان میں تحریک انصاف نے ایک بڑا جلسہ منعقد کیا تھا اور اس کے نتیجے میں فصلی بٹیروں کی ڈاروں نے پی ٹی آئی کا رخ کیا تھا توکہنے والے کہہ رہے تھے کہ جناب عمران خان ، میاں محمد نواز شریف کے ووٹ بنک میں بڑی نقب لگانے جا رہے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب زرداری صاحب جیسے بڑے سیاستدان اور کائرہ صاحب جیسے سیانے بھی پی ٹی آئی کو خاموشی کے ساتھ راہ دے رہے تھے مگر میں نے روزنامہ’پاکستان‘ سمیت مختلف اخبارات کی پاکستان بھر کے شہروں سے آنے والی سیاسی ڈائریوں سے نوٹس لیتے ہوئے پیشینگوئی کر دی تھی کہ پی ٹی آئی درحقیقت پی پی پی کو ختم کر رہی ہے۔ ان سیاسی ڈائریوں میں ہر ضلعے اور ڈویژن سے ایسے نام موجود تھے جو مقامی سطح پر پی پی پی کو چھوڑتے ہوئے پی ٹی آئی کو جوائن کر رہے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس روز یہ کالم شائع ہوا اس روز سردار ذوالفقار علی خان بطور سینئر وزیر محرم الحرام میں سیکورٹی انتظامات بارے ایوان وزیراعلیٰ میں سینئر صحافیوں کو بریفنگ دے رہے تھے۔بریفنگ ختم ہونے کے بعد چائے پر گپ شپ کے دوران انہوں نے میرے کالم کا حوالہ دیتے ہوئے میرے تجزئیے کو لگی لپٹی رکھے بغیر غلط قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی کا مقامی لیڈر جا رہا ہے مگر اس کا ووٹر نہیں، بحث میری عادت نہیں لہٰذ امیں نے ان کا موقف سن لیا تھا۔ اب میں فردوس عاشق اعوان اور نذر گوندل سمیت پیپلزپارٹی کے بہت سارے نئے پرانے اور کچے پکے لیڈروں کو پی ٹی آئی میں جاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ جیالوں کی ایک تعداد نے یہ فیصلہ پنجاب ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آج سے چار ، پانچ برس پہلے ہی کر لیا تھا۔ یہ وہ پارٹی ہے جس میں گھوڑے سے پہلے گاڑی نے راستے کو چھوڑا ہے، قیادت نے کارکنوں کا اتباع کیا ہے۔


زرداری صاحب ایک جلاوطنی کاٹ کے اس وقت واپس آ گئے جب جنرل راحیل شریف کی قیادت کے ساتھ ساتھ بہت سارے دوسرے جرنیلوں کی ذمہ داریاں بھی تبدیل ہوئیں ،خیال تھا کہ انہوں نے اسلام آباد میں پشاور کے پٹھان کارکنوں سے خطاب میں جو بڑھکیں ماری تھیں جو فراموش ہو گئیں اور چاربرس پہلے ہونے والے انتخابات کے بعد اب نواز شریف کی صورت ایک ہی ہدف باقی ہے۔ ماضی کے مقابلے اس مرتبہ’ پاشا فارمولہ‘ پچاس فیصد کامیاب اور پچاس فیصد ناکام رہا، یعنی وہ مسلم لیگ نون کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی خاطر ایک لیڈر تراشنا چاہتے تھے ، وہ لیڈر تراشنے میں کامیا ب رہے، یہ امر سو فیصد درست ہے کہ اس وقت سب سے بڑا اینٹی نواز شریف لیڈر عمران خان ہی ہے، نوے کی دہائی کے آخر کے بعد ایک مرتبہ پھر ووٹر پرو نوا ز شریف اور اینٹی نواز شریف دو بڑے دھڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے اور عمران خان وہ واحد لیڈر ہے جو نواز شریف سے نجات حاصل کرنے کے لئے کسی بھی سیاسی اور غیر سیاسی ہی نہیں بلکہ اخلاقی اور غیر اخلاقی راستے کا چناؤ بھی کر سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے لیڈر تو تراش لیا مگر ناکامی یہ ہوئی کہ وہ نواز شریف کی بجائے راستہ دینے والے آصف علی زرداری کو ہی کھا گیا کیونکہ نواز شریف نے خطرہ بھانپتے ہوئے عمران خان کے سامنے شہباز شریف کی جارحانہ سیاست کی ایک باڑ کھڑی کر دی تھی۔ نواز شریف خود تو کم بولے مگر چودھری نثار علی خان ، خواجہ سعد رفیق اور خواجہ آصف سمیت ان کے بعد پوری قیادت نے عمران خان کااپنے اپنے انداز میں خوب مقابلہ کیا۔


ایک دوسرا خیا ل یہ تھا کہ بلاول بھٹو زرداری اپنے باپ کے ہاتھوں اپنے ماں اور نانا کی لٹائی ہو ئی سیاسی جائیداد واپس چھین لیں گے، انہیں کِسی حد تک پارٹی کے اندر والد صاحب نے موقع بھی دیا مگر وہ بھی ناکام رہے ہیں او ریوں پاکستان کے انتخابی معرکوں میں سب سے بڑے میدان یعنی پنجاب اوراس کے بعد خیبرپختونخوا میں واضح ہوتا چلا جا رہا ہے کہ اب مقابلہ نواز شریف کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان ہی ہو گا ۔ ابھی انتخابات میں کم و بیش ایک برس کا عرصہ پڑا ہے اورمسلم لیگ نون کی کامیابی اسی میں ہے کہ پیپلزپارٹی ایک ایسی جماعت میں تبدیل نہ ہو جس کے پاس ہر حلقے میں چند ہزار ووٹ بھی نہ ہوں۔ اینٹی نواز شریف ووٹ کی تقسیم کوئی مختلف امر نہیں ہے کہ آنے والے انتخابات میں اینٹی نوازشریف ووٹ بنک میں آصف علی زرداری ، چودھری برادران اور سراج الحق سمیت دیگر سیاسی کھلاڑی بھی اپنا حصہ مانگیں گے اور کوشش کریں گے کہ یہ تمام کا تمام عمران خان ہی نہ اڑا کر لے جائیں مگر عمران خان ان کھلاڑیوں کو کس حد تک اکاموڈیٹ کر سکتے ہیں یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔


بات پیپلزپارٹی پر عملی طور پر مائنس ون فارمولے کے اطلاق سے شروع ہوئی اور اگلے عام انتخابات میں ووٹروں کی ممکنہ تقسیم تک پہنچ گئی، یہ سیاسی منظر نامہ اس وقت مزید مسلم لیگ نون کے حق میں ہوجائے گا جب عمران خان اپنی مقبولیت کے زعم میں جماعت اسلامی کو سیٹوں کی زکواۃ دینے کے علاوہ کسی دوسرے سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے انکار کریں گے کیونکہ پیپلزپارٹی سمیت دیگر جماعتوں سے ناکام امیدواروں کی پی ٹی آئی کی طرف اڑان صرف اور صرف پارٹی ٹکٹ کے لیے ہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے جیالوں کا ووٹ گذشتہ عام انتخابات میں ہی تقسیم ہو گیا تھا، جیالوں کی ایک بڑی تعداد گھر بیٹھ گئی تھی، دوسری تعداد نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا اور تیسری بڑی تعداد مسلم لیگ نون کی طرف چلی گئی تھی۔ پیپلزپارٹی میں اس مرتبہ ہونے والا مائنس ون ایسا ہے جو کسی ڈر، خوف یا لالچ کے بغیر ہوا ہے اور اب پیپلز پارٹی کے ان لوٹا ہوجانے والے لیڈروں کے ضمیر پر کسی قسم کا بوجھ یا جیالوں کا دباو بھی نہیں نظر نہیں آتا کیونکہ وفاداری تبدیل کرنے والے آصف علی زرداری پر مفاہمت کی سیاست جیسے ’’ جرم‘‘ کے ’’ ارتکاب‘‘کا الزام لگا رہے ہیں مگر مجھے کہنے دیجئے کہ اس مائنس ون کی وجہ مسلم لیگ نون سے مفاہمت کی سیاست نہیں بلکہ نااہلی اور کرپشن کی داستانیں رقم کرنا ہے جو بہرحال زرداری صاحب نے انہی لیڈروں کے ساتھ مل کرتحریر کی ہیں جو اب پی ٹی آئی کا حصہ بن چکے ہیں کیونکہ مفاہمت کی سیاست تو مسلم لیگ نون نے بھی کی تھی اور اسے عین ملک و قوم کے مفاد میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے تسلسل کے لئے استعمال کیا تھا۔

مزید :

کالم -