پرویز مشرف اور آئین کا آرٹیکل چھ
سابق چیف آف آرمی سٹاف اورسابق صدر پاکستان پرویز مشرف کے’’خیالات عالیہ‘‘ پڑھنے سے پہلے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 6کامطالعہ ضروری ہے۔ آئین پاکستان کی طاقت کے زور پریادیگر کسی غیرآئینی ذریعے سے آئین کو منسوخ کرنا، آئین کی تحزیب یاآئین کو معطل کرنا یا التوا میں رکھنا سنگین غداری کاجرم ہے۔ اس جرم کی معاونت یاکسی بھی طریقے سے مدد کرنا سنگین غداری کاجرم ہوگا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد سنگین غداری کے اس عمل کو، یعنی آئین منسوخ کرنے، معطل کرنے اور التواء میں رکھنے کے جرم کوعدالت عظمٰی اورعدالتِ عالیہ جائز قرار نہیں دے سکتی۔جنرل پرویز شرف کے خلاف آئین کی پامالی کے حوالے سے سنگین غداری کے الزام میں مقدمہ عدالت میں زیرِسماعت ہے۔ وہ عدالت اورقانون کا سامنا کرنے کی بجائے بیماری کا جھوٹا عذر بناکر طویل عرصے سے پاکستان سے باہر چلے گئے ہیں اور اب بھی ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ اپنے خلاف سنگین غداری کے الزام کا پاکستان واپس آکر عدالت میں اپنا دفاع کرسکیں۔ جنرل پرویز مشرف نے دبئی میں بیٹھ کر اپنے ایک انٹرویو میں فرمایاہے کہ ’’قو م آئین سے زیادہ مقدس ہے، قوم کو بچانے کے لئے آئین کو نظر اندازکیا جاسکتاہے‘‘۔
قوم اورملک یقیناًآئین پر مقدم ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ملک وقوم کا مفاد آئین پرفوقیت رکھتا ہے، لیکن ایک جنرل کو یہ اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ اکیلا یااس کے چند ساتھی جرنیل جب چاہیں یہ فیصلہ کرلیں کہ اب ملک کے آئین کو نظرانداز کرنے کاوقت آگیا ہے اوراب ہمیں ملک کے آئین کو پامال کرکے ملک میں مارشل لاء نافذکرنے کاحق حاصل ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں جب بھی مارشل لاء لگا، وہ حالات کاتقاضہ تھا۔ خود جنرل پرویز مشرف نے بھی دودفعہ آئین کی توڑ پھوڑ اورآئین کی معطلی کاجرم کیاہے۔ ایک بار جب جنرل پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے اتارا گیا تو انہوں نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس میں ملک وقوم کے مفاد کاکوئی سوال نہیں تھا، بلکہ مسئلہ جنرل پرویز مشرف کی ذات کا تھا۔ انہوں نے کئی مرتبہ یہ اعتراف بھی کیاکہ اگر انہیں چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے الگ نہ کیا جاتا تو وہ اس طرح کا جوابی حملہ نہ کرتے اور آئین کو پامال کرکے ایک منتخب آئینی وزیر اعظم کی حکومت ختم نہ کی جاتی۔ سوال اگرملک وقوم کے مفاد کاہوتا تو یہ بہانہ تراشا جاسکتا تھا کہ قوم آئین سے بڑھ کر مقدس ہے، اس لئے مجبوراً آئین کو نظر انداز کرنا پڑا، لیکن اگر معاملہ ہی خود جنرل پرویز مشرف کی اپنی ذات کا تھا تو پھر مارشل لاء نافذ کرنے کو ملکی مفاد یاحالات کا تقاضہ کیسے قرار دیا جاسکتا؟
ویسے بھی اگر حالات کا تقاضہ ہونے یہ نہ ہونے کے فیصلے کومہم جو جرنیلوں پر چھوڑ دیا جائے تو پھر ملک پر ہمیشہ مارشل لاء کی رات ہی مسلط رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے یہ بھی ارشاد کیا ہے کہ ’’فوج یعنی ایک فوجی آمر کی حکومت ملک کو پٹڑی پرلاتی ہے، سویلین حکومتیں ملک کوپھر پٹڑی سے اتار دیتی ہیں۔ فوجی آمروں نے ملک کو ہمیشہ سنوارا ہے، ترقی اور خوشحالی بخشی ہے، جبکہ ان کے مقابلے میں سویلین حکمرانوں نے ہمیشہ ملک کو تباہ وبدحال کیا ہے‘‘۔ میں جنرل مشرف کی طرح فوجی آمروں اور سویلین حکمرانوں کے ادوار کے درمیان ملکی ترقی اور خوشحالی کے پیمانے سے موازانہ نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہمارے سویلین حکمرانوں کے مختلف ادوار قومی ترقی وخوشحالی کے اعتبار سے کبھی قابلِ ستائش نہیں رہے، لیکن حکمرانوں کو منتخب کرنے اورمسترد کرنے کا ذریعہ عام انتخابات ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بدعنوان سیاست دانوں کا کڑے سے کڑا احتساب ہونا چاہیے،کیونکہ خائن اور بددیانت حکمران ملک و قوم کے بدترین دشمن ہیں، لیکن یہ سارے کام آئین اورقانون کی بالادستی کوبرقراررکھ کربھی توسرانجام دئیے جاسکتے ہیں۔ یہ انتہائی عجیب منطق ہے کہ دوبار آئین توڑنے والافوجی آمر اپنی سنگین غداری کے جرم پرشرمسار ہونے کے بجائے اپنے گناہ کا عذر اور جواز یہ پیش کررہا ہے کہ اگر ملک ہاتھ سے نکل رہا ہو توکیا میں ملک بچاؤں گایاآئین کے آرٹیکل چھ کو دیکھوں گا؟
جنرل پرویز مشرف نے جب دوسری بار آئین سے انحراف کرتے ہوئے عدلیہ کواپنے غیر آئینی اقدام کا نشانہ بنایا تو اس کی وجہ بھی کوئی ملکی وقومی مفاد نہیں تھا، بلکہ خالصتاً جنرل پرویز مشرف کی ذاتی ہوس اقتدار تھی۔آئین اور آئین کی محافظ عدلیہ جنرل پرویز مشرف کی راہ میں رکاوٹ بن گئی کہ یونیفارم میں پرویز مشرف صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ یہ رکاوٹ دور کرنے کے لئے جنرل پرویز مشرف کو دوسری بار آئین توڑنا پڑا۔ اس میں ملک وقوم کی بھلائی کاتوکوئی معاملہ نہیں تھا۔ ملک ہاتھوں سے نہیں نکل رہا تھا، بلکہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں سے اقتدار نکل رہاتھا۔ اب جنر ل پرویز مشرف کی ذات کو توملک قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اگر ملک بچانے کے لئے جنرل مشرف کو دومرتبہ ملک کا آئین توڑنا پڑا ہے تو پھر ملک سے بھاگ کر جنرل پرویز مشرف کو دبئی یا برطانیہ میں پناہ لینے کی ضرورت کیا ہے۔ وہ پاکستان واپس آئیں اور عدالت میں سنگین غداری کے مقدمے میں اپنا دفاع کریں۔ آخر نواز شریف نے بھی تو سپریم کورٹ کا پاناماکیس میں سامنا کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو اگر ملک کی خاطر آئین کے آرٹیکل 6 کی پرواہ نہیں اور انہوں نے بلاخوف وخطر ملک کے آئین کو دو بار پامال کیا ہے تو پھروہ عدالت سے اس قدر خوف زدہ کیوں ہیں کہ ملک ہی چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کواپنا یہ ’’فلسفہ‘‘ عدالت میں پیش کرنا چاہیے کہ قوم، آئین سے مقدم ہے۔قوم اور ملک کوبچانے کے لئے آئین کو توڑا جاسکتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کوعدالت کو اس نکتے پر بھی مطمئن کرنا ہوگاکہ ایک فوجی آمر کی اقتدار کی ذاتی ہوس کوقومی مفاد سے مقدم کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ دستور پاکستان قوم کی خواہشات کا مظہر ہوتا ہے۔ مسلح افواج کے ارکان دستورِ پاکستان کی حمایت کا باقاعدہ حلف اٹھاتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے دوبار آئین توڑکر اپنے حلف کی بھی نفی کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے جتناعرصہ بھی اقتدار میں گزارا دیکھا جائے توان کاہردن اورہر لمحہ جو حکومت میں گزراوہ خلافِ آئین تھا۔ اس کے باوجود اگر پرویز مشرف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا تو پھر وہ خود اختیارکردہ جلاوطنی ختم کریں اور آرٹیکل 6کاسامنا کرنے کے لئے عدالت میں پیش ہو جائیں۔موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اس اعلان نے ہمیں تو خوش کردیا ہے کہ’’ہم ایک ایسے پاکستان کی طرف بڑھ رہے ہیں، جہاں قانون کی بالادستی ہوگی‘‘۔ قانون، آئین اور عدالتوں کی بالادستی تو اس وقت ہی ثابت ہوسکتی ہے، جب ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو بھی سنگین غداری کے مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہونے پرمجبور کردیا جائے گا۔ ہمارا عدالتی نظام اگر اتناکمزور ہوگا کہ آئین توڑنے کے ملزم کو ہم لندن یادبئی سے واپس لاکر عدالت کا سامنا کرنے کا پابند نہیں بنا سکتے تو پھر ملک میں قانون کی بالا دستی کا دعویٰ ایک مذاق بن کررہ جائے گا۔ اگر ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم کو اپنے اقامہ میں درج تنخواہ کاجو وصول بھی نہیں کی مگر قابلِ وصول تھی کاغذات نامزدگی میں ذکر نہ کرنے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نااہل قرار دے سکتی ہے تو ملک میں ایسا مضبوط عدالتی نظام بھی ہونا چاہیے، جو ایک فوجی آمرکوملک کاآئین توڑنے کے جرم میں سزادے سکے۔
جنرل پرویز مشرف کو اگر کسی بھی وجہ سے سنگین غداری کے جرم میں ہمارا عدالتی نظام سزا دینے میں ناکام رہتا ہے توپھر نوازشریف یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان کے خلاف نااہلی کا فیصلہ قانون اور خود عدل وانصاف کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ملک میں عدالتی ادارے بھی اسی وقت محترم ہوں گے، جب عدالتوں کی نظر میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہوگا اورکسی کو بھی یہ زعم نہیں ہوگا کہ وہ عدالت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہے۔ چاہے وہ سابق چیف آف آرمی سٹاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں مجھے اصغرخان کیس بھی یاد آگیاہے۔ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ جنرل اسلم بیگ وغیرہ کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لانے کا حکم دے چکی ہے، لیکن سپریم کورٹ کے حکم کی روح کے مطابق ابھی تک جنرل اسلم بیگ اوران کے ساتھ شریک جرم کسی دوسرے جرنیل کے خلاف کوئی کارروائی شروع ہی نہیں ہوئی۔ جنرل اسلم بیگ اوران کے ساتھی آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کرنے کے جرم کااعتراف بھی کرچکے ہیں، لیکن کسی بھی متعلقہ سرکاری ادارے نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود بااثر ملزموں کے خلاف کوئی قانونی اقدام کرنے کی جرأت نہیں کی اورسپریم کورٹ نے بھی پلٹ کرنہیں پوچھا کہ ہمارے اس حکم پر عمل کیوں نہیں ہوا۔۔۔ کیا ہمارے ملک میں قانون اورآئین کی بالادستی ہے؟