اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذکیا جائے

اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذکیا جائے
 اُردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذکیا جائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج ایک موقر انگریزی معاصر میں شائع شدہ یہ خبر نظر سے گزری:’’وفاقی حکومت نے تمام محکموں کے سربراہوں کو کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطاق اُردو کو بتدریج سرکاری زبان کے طور پر متعارف کروایا جائے۔ اس سرکلر میں محکموں کے سربراہوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ حکومت کو ایسی تجاویز سے آگاہ کریں جن کو بروئے عمل لا کر ایسے اقدامات کئے جا سکیں کہ اُردو زبان، بطور سرکاری زبان، انگریزی کی جگہ لے سکے‘‘۔


اس خبر کو پڑھتے ہوئے مجھے دو واقعات یاد آئے۔ ایک کا تعلق تو گزشتہ ایک ڈیڑھ برس سے ہے اور دوسرے کو30سال گزر چکے ہیں۔۔۔۔ پہلا واقعہ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ( بلحاظِ آبادی) کے وزیراعظم نریندر مودی صاحب سے متعلق ہے کہ جو ہر ملکی اور بین الاقوامی فورم میں اپنی قومی زبان میں اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ ان کو ایسا کرتے ہوئے کوئی حجاب محسوس نہیں ہوتا، بلکہ وہ سینہ تان کر شُدھ ہندی میں جب تقریر کر رہے ہوتے ہیں تو ان کی جسمانی حرکات و سکنات فطری معلوم ہوتی ہیں۔ چاہے کوئی کتنا زور بھی لگا لے، زبانِ غیر میں شرحِ آرزو کی ہی نہیں جا سکتی۔ کاش ہمارے اربابِ اختیار بھی مودی صاحب سے کیو (Cue) لیں اور کوٹوں کی جیبوں سے پرچیاں نکال نکال کر انگریزی زبان میں لکھے جوابات کا سہارا نہ لیں۔


دوسرا واقعہ میرے اپنے ساتھ پیش آیا۔۔۔ اپریل 1985ء میں آج سے30برس پہلے میری پوسٹنگ انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ اویلوایشن (IGT&E) برانچ میں (بطور میجر) ہوئی تو میرے ڈائریکٹر بریگیڈیئر مشتاق مرحوم نے ایک روز دفتر میں طلب کیا اور میرے سامنے متعلقہ پرنسپل سٹاف آفیسر(PSO)کی برانچ سے جاری شدہ ایک خط رکھ دیا۔ اس خط میں لکھا تھا کہ چونکہ پاکستان کے آئین1973ء کی رو سے1988ء تک اُردو کو سرکاری زبان قرار دے دیا جائے گا، اس لئے صدرِ مملکت جنرل ضیا الحق نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان آرمی میں بھی تمام سطحوں پر نفاذِ اُردو کا بندوبست کیا جائے۔ ڈائریکٹر صاحب نے کہا چونکہ تم اُردو کے طالب علم ہو، اس لئے بتاؤ کہ ہم اس سلسلے میں کیا اقدامات کریں کہ تین برسوں کے اندر اندر(1988ء تک)افسروں کی سطح پر اُردو رائج ہو سکے۔


مَیں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا ہے کہ مَیں اُردو کا طالب علم ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ رابطہ کر کے ایک ایسے آفیسر کو عارضی طور پر اپنے ڈائریکٹوریٹ کے ساتھ اٹیج کرنے کی درخواست کی تھی جو اُردو کا طالب علم ہو۔


’’تو سر:انہوں نے کس کوRecommend کیا ہے؟‘‘ مَیں نے بریگیڈیئر صاحب سے سوال کیا۔


انہوں کا جواب تھا:’’ابھی چند ہفتے پہلے ایجوکیشن کور کا ایک آفیسر آپ کے ہاں پوسٹ ہو کر آیا ہے۔ وہ انگریزی، اُردو اور فارسی کا طالب علم ہے، تینوں زبانوں میں ماسٹرز کی ڈگریاں اعزاز کے ساتھ حاصل کی ہوئی ہیں، اس سے مدد لی جا سکتی ہے‘‘۔


مَیں نے دِل ہی دِل میں سوچا:


اے روشن�ئ طبع تو برمن بلا شدی


تو قارئین کرام! اس طرح مجھے یہ فریضہ سونپا گیاکہ ایک ہفتے کے اندر اندر ورکنگ پیپر تیار کر کے لاؤں، جس میں پاک آرمی میں اُردو زبان کے نفاذ کے لئے چیدہ چیدہ سفارشات/تجاویز درج ہوں۔


مَیں نے جو تجاجویز پیش کیں، ان کا خلاصہ ذیل میں درج کر رہا ہوں۔ اگر آج کوئی کوئی حکومتی عہدیدار اس کالم کو پڑھے تو شائد ان سطور سے کچھ نہ کچھ استفادہ کیا جا سکے۔ یہ حقیقت بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ پاک آرمی میں(آج بھی) دو زبانیں رائج ہیں۔ ایک آفیسرز کی سطح پر اور دوسری جے سی اوز،این سی اوز اور سولجرز کی سطح پر۔ یہ ذو لسانی صور حال نفاذِ اُردو کے سلسلے میں معاون بھی ہے اور مزاحم بھی۔ اس پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن اس کالم میں نہیں۔


بہرکیف یہ ایک بسیط موضوع ہے۔ مَیں ان چند تجاویز کو ذیل میں درج کر رہا ہوں جو مَیں نے اپنے ورکنگ پیپر میں پیش کی تھیں:
(1) ایک انگلش اُردو ملٹری ڈکشنری تیار کی جائے جو روزمرہ فوجی بول چال اور تحریر و تصنیف میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کے اُردو مترادفات (Synonyms) پر مشتمل ہو۔ ان اصطلاحات کو آرمی لیول پر سکہ بند اور حتمی اصطلاحات تصور کیا جائے اور تمام فوجی ٹریننگ انہی کی بنیاد پر استوار کی جائے۔


(2) ایک اور ڈکشنری (چھوٹے سائز کی) تیار کی جائے جس میں معروف اور مروج اصطلاحات کی اُردو زبان میں تشریح موجو ہو۔ مثلاً ایک انگریزی اصطلاح Attack ہے۔ اس کا اُردو ترجمہ اگرچہ (حملہ) موجود ہے لیکن ایک تو اس حملے کے پراسس کی تشریح موجود نہیں اور دوسرے اُن اقسامِ حملہ کی کوئی وضاحت اُردو میں دستیاب نہیں جو انگریزی میں آفیسرز لیول پر عام پڑھائی اور استعمال کی جاتی ہیں۔مثلاً:
(جوابی حملہ)1- Counter Attack


(چھل حملہ)2-Fient Attack


(بگاڑو حملہ)3-Spoiling Attack


(ارادی حملہ)4-Deliberate Attack


(مقامی حملہ)5-Local Attack


(مغالطائی حملہ)6-Diversionary Attack


(تعویقی حملہ)7-Holding Attack


(اصلی حملہ)8-Main Attack


حملے کی ان مختلف اقسام کی تشریح لکھنے لگوں تو ایک الگ دفتر درکار ہو گا۔


(3)ان اصطلاحات کو اُردو زبان میں ترجمہ کرنے سے پہلے ان شعبوں(Arms and Services) کی خدمات حاصل کی جائیں جو ان کی لکھائی پڑھائی اور بول چال میں عام استعمال ہوتے ہیں۔


(4) افسروں کے تدریسی اداروں میں پروفیشنل نصاب کو اُردو میں ڈھالا جائے۔


(5)انگریزی زبان میں شائع شدہ مشہور و معروف کلاسیکل لٹریچر کی شاہکار تصانیف کو اُردو میں ترجمہ کر کے تمام یونٹوں اور فارمیشنوں میں تقسیم کیا جائے۔


(6)جنرل ہیڈ کوارٹر سے اُردو زبان میں ایک ماہانہ/ سہ ماہی میگزین شائع کیا جائے جس میں عسکری موضوعات پر آرٹیکل شامل ہوں۔
(7) ان سارے اقدامات کو روبہ عمل لانے کے لئے ایک تدریجی ٹائم ٹیبل مقرر کیا جائے اور اس کے لئے کم سے کم دس برس کی مدت رکھی جائے۔


مَیں یہ لکھتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہوں کہ میری ان سفارشات/تجاویز کو تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن ’’ستم‘‘ یہ ہوا کہ مجھے کہا گیا کہ ان ساری مساعی/کاوشوں کو خود ہی بروئے کار لاؤں اور آگے بڑھاؤں۔۔۔۔ اس کے بعد کی کہانی دراز ہے۔ جب بارہ برس بعد جی ایچ کیو سے میری ریٹائرمنٹ ہوئی تو مندرجہ ذیل نتائج سامنے آ چکے تھے:


*۔۔۔ 800 صفحات پر مشتمل ایک سٹینڈرڈ انگلش۔اُردو ملٹری ڈکشنری مرتب ہو کر شائع ہو چکی تھی اور تمام فوجی یونٹوں میں تقسیم کر دی گئی تھی۔


*۔۔۔ عسکری اصطلاحات کی تشریح کی لغت بھی ترجمہ ہو کر ساری فوج میں تقسیم کر دی گئی تھی۔


*۔۔۔ پروفیشنل میگزین کی فوری اشاعت شروع ہو گئی تھی۔ اس کا نام’’ پاکستان آرمی جرنل (اُردو)‘‘ رکھا گیا۔ یہ ایک باتصویر سہ ماہی میگزین تھا جس کا ہر شمارہ کم از کم دس پروفیشنل مضامین پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کی ضخامت تقریباً250سے لے کر300صفحات تک تھی۔ 1985ء سے لے کر دسمبر1996ء تک (کہ جب مَیں ریٹائر ہوا) اس کی اشاعت میری ادارت میں جاری رہی۔ (آج بھی یہ میگزین جی ایچ کیو سے شائع ہو رہا ہے۔)


پاک فوج کی طرف سے انگریزی زبان میں شاہکار پروفیشنل تصانیف/سوانح عمریاں/ خود نوشتیں اُردو میں ترجمہ ہو کر پوری پاک آرمی میں تقسیم کی گئیں۔ جن افسروں نے ان کتب کے ترجمے کئے اُن میں مُلک کے نامور مصنفین شامل ہیں۔


مَیں نے یہ کالم اپنی ’’خود ستائی‘‘ کے لئے تحریر نہیں کیا، صرف یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر صاحبانِ اختیار کا عزم، راسخ ہو تو کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا۔ فوج میں چونکہ وقت کی پابندی کو اولیت حاصل ہے، اس لئے جنرل ہیڈ کوارٹر میں سال 1988ء کی جو ’’حتمی تاریخ‘‘ دی گئی تھی، اس کے آتے آتے پاکستان آرمی میں نفاذِ اُردو کے سلسلے میں بہت سا کام ہو چکا تھا۔ پھر 17اگست 1988ء کو جب جنرل ضیا الحق کاC-130 کریش میں انتقال ہو گیا تو سینئر جرنیلوں نے ان کے جانشین آرمی چیف (جنرل مرزا اسلم بیگ )کو کسی نہ کسی طرح اس بات پر قائل کر لیا کہ افسروں کی سطح پر انگریزی ہی کو باقی رکھا جائے۔ ۔۔۔ وہ دن اور آج کا دن،جتنے بھی آرمی چیفس آئے، انہوں نے1973ء کے آئین کی خلاف ورزی میں سویلین حکومت کا ’’پورا پورا‘‘ ساتھ دیا!


اب اگر کابینہ نے سویلین محکموں کے سربراہوں کو بتدریج نفاذِ اُردو کا ٹارگٹ دے دیا ہے تو یہ ایک ’’مبہم ٹارگٹ‘‘ ہے۔ اس کی حتمی ’’ٹائم لائن‘‘ طے کی جائے اور اس کی ترجیحات طے کی جائیں کہ کس محکمے نے کس لیول پر کیا کرنا ہے اور کہاں تک آگے بڑھنا ہے۔ اس پراسس کی تدریجی مانیٹرنگ کے لئے بھی ایک الگ شعبہ قائم کیا جائے جو متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کو جواب دہ ہو۔


سب سے پہلے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ یہ مثال قائم کریں کہ تمام بین الاقوامی فورموں میں اپنی قومی زبان میں خطاب کیا کریں۔(بیورو کریسی کی باری ان کے بعد آنی چاہئے جو خودبخود آ جائے گی)۔


چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ وہ یورپ میں کسی مشترکہ کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ وہ چونکہ انگریزی زبان میں کئے گئے سوالوں کے جواب چینی زبان میں دے رہے تھے اس لئے ایک مترجم (Interpreter) ان کے جوابات کو انگریزی میں ترجمہ کر کے میڈیا کو بتاتا جا رہا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں جب وہ مترجم چو این لائی کا نقطہۂ نظر واضح کر رہا تھا تو انہوں نے مترجم کو ٹوکا اور پھر فَر فَر بڑی فصیح و بلیغ انگریزی میں تادیر اپنا مافی الضمیر میڈیا کو بتاتے اور سب کو حیرت زدہ کرتے رہے!

مزید :

کالم -