وزیر اعظم کا عزم، عمران کا بیان اور جگمگاتا پاکستان
وزیر اعظم نوازشریف نے واشگاف لفظوں میں کہا ہے کہ دہشتگردوں کی کمر توڑ دی، سر بھی کچل دیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پی ایس ایل فائنل کو دہشتگردی کی وارداتوں میں شہید ہونے والے پاکستانیوں کے نام کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں دہشتگردوں کو خبردار کیا ہے کہ ہمارے خطے سے نکل جاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔
اُدھر پیارے عمران خان ارشاد فرماتے ہیں کہ پاکستان میں ’’پھٹییچر‘‘ غیر ملکی کھلاڑی کھیلنے آئے، رانا ثناء اللہ نے اس بیان کو عمران کی ’’پھٹیچر‘‘ سوچ قرار دیا ہے، مریم اورنگ زیب نے پی ٹی آئی کے سربراہ کو ’’عادت سے مجبور‘‘ کہا ہے جبکہ پوری قوم عمران خان کے اس بیان پر سراپا احتجاج ہے اور بچہ بچہ شدید غصے میں ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے ہمارے معزز مہمانوں کو پھٹیچر کہہ کر ان کی شدید تضحیک کی۔ عمران خان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حکومت نے پانامہ کیس کا ’’پریشر‘‘ کم کرنے کے لئے پی ایس ایل فائنل لاہور میں کرایا، عمران نے اپنے اس بیان کے ساتھ اپنے بچپن کی ’’نالائقیوں‘‘ کو کچھ یوں بیان کیا کہ ’’وہ کبھی اتنی پابندی سے سکول نہ گئے تھے جس پابندی سے سپریم کورٹ جاتے رہے۔‘‘ خیر! ہمیں عمران خان کے بچپن اور سکولنگ سے کوئی غرض نہیں ہم انہیں اس قوم کا ’’سابق‘‘ ہیرو سمجھتے ہیں اور اس بات پر کڑھتے ہیں کہ اتنے بڑے ہیرو اس طرح کی گفتگو کر کے اپنا اور ملک و قوم کا وقار کیوں برباد کر رہے ہیں۔؟ یہ وقت اس قسم کی باتوں کا تھا ہی نہیں، ہم دہشتگردوں کے خوفناک چنگل میں تھے جب وزیر اعظم پاکستان نے پی ایس ایل فائنل لاہور میں کرانے کا اعلان کیا۔ یقیناً وزیر اعظم کی خواہش تھی کہ کرکٹ کے اس عظیم میچ سے قوم کا مورال بلند کیا جائے اور دہشتگردوں کو مضبوط پیغام دیا جائے کہ ان کی درندگی اور گھناؤنی وارداتوں سے ہم کمزور پڑنے والے نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سراج الحق اور شیخ رشید کی طرح تمام اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم کے عزم کو سمجھتیں اور تن من دھن سے ان کی آواز پر لبیک کہتی ہوئی قذافی سٹیڈیم کا رخ کرتیں مگر افسوس کہ عمران خان نے اس میچ کو سیاست کی نذر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، انہوں نے ایک طرف اپنی بیان بازی سے غیر ملکی کھلاڑیوں کو خوفزدہ کر کے پاکستان آنے سے روکا اور دوسری طرف جو غیر ملکی کھلاڑی مہمان بن کر ہماری سرزمین پر آئے انہیں ’’پھٹیچر‘‘ اور’’ریلوکٹے‘‘ کہہ کر ان کی تذلیل و تضحیک کی۔ لیکن بات یہاں کب رکی، عمران خان مسلسل بیان بازی کر رہے ہیں اور ان کے ’’فرمودات‘‘ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ’’پی ایس ایل فائنل لاہور میں ہو جانے کے باوجود کوئی بھی غیر ملکی ٹیم پاکستان نہیں آئے گی۔‘‘
قوم عمران خان کے ان بیانات پر شدید حیرت میں ہے اور سوچ رہی ہے کہ آخر تحریک انصاف کے سربراہ کو پی ایس ایل فائنل کے لاہور میں انعقاد پر اتنا غصہ کیوں ہے۔؟ وہ کیوں اتنی مخالفت کر کے پاکستان کے بلند مورال کو ڈاؤن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آئے مہمانوں کی تذلیل کر کے اور مستقبل میں آنے والی غیر ملکی ٹیموں کو خوفزدہ کر کے وہ کس ایجنڈے کی تکمیل چاہتے ہیں؟ عمران خان کو سیاسی میدان میں اب تک جو سب سے بڑی کامیابی ملی ہے وہ خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ پی ایس ایل فائنل بھی پشاور زلمی نے جیتا ہے۔ اس جیت پر پختونوں کا بچہ بچہ خوش ہے لیکن افسوس کہ پشاور کی حکمران جماعت کے سربراہ پختونوں کی خوشیوں پر پانی پھیر رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پشاور زلمی کی فتح پر وہ پشاور جا کر خود جشن کا سامان کرتے مگر انہوں نے اس فتح کو گلے کی ہڈی بنا لیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک سینئر کارکن اور ایک ضلع کے سیکرٹری جنرل ہمارے دوست ہیں۔ وہ نہ صرف عمران خان کے بہت ہمدرد ہیں بلکہ انہیں مستقبل میں پاکستان کا وزیر اعظم بھی بنتا دیکھ رہے ہیں۔ لیکن ان دنوں عمران خان کے بیانات پر شدید پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کو شروع شروع میں جو عروج ملا، کچھ سال پہلے جس تیزی سے وہ ملک کے سیاسی افق پر درخشاں ستارے کی طرح چمکے، وہ چمک دمک عمران خان کی نس نس میں بس گئی ہے۔
حالات اب عمران خان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اب انہیں کہیں بھی، کسی بھی طرح کی خاطر خواہ سیاسی کامیابی نہیں مل رہی، اس لئے جھنجلاہٹ کا شکار ہیں اور آئے روز اس طرح کی بیان بازی کر کے اپنی جھنجلاہٹ کا پکا ثبوت دے رہے ہیں۔ مگر ہم ایسا نہیں سمجھتے، ہمارے خیال میں کسی بھی سیاسی لیڈر کا سب سے پہلا وصف یہ ہونا چاہئے کہ اس میں بے مثال ضبط و صبر ہو،جھنجلاہٹ کا مظاہرہ کرنا کسی بھی مدبر قومی ہیرو یا سیاستدان کا شیوہ نہیں لیکن افسوس کہ یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ صاحبو! چھوڑیئے! ہم عمران خان کی جھنجلاہٹ یا بیان بازی پر کچھ بھی لکھنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے لئے خوشی اور مسرت کی بات ہے تو صرف اتنی کہ اس وقت حکومت، فوج، عوام، میڈیا اور ملک کے سنجیدہ دانشور ایک ’’پیج‘‘ پر ہیں سبھی کا عزم ہے کہ اب دہشتگردی اور ہر طرح کی نحوست کو اپنی دھرتی سے کاٹ پھینکنا ہے۔ دہشتگردی یا کسی بھی قسم کی فتنہ کاری کو پنپنے دینا ہے اور نہ ہی اقوامِ عالم کے سامنے اپنے وجود کو کسی طرح کے خوف یا کپکپی میں مبتلا کرنا ہے۔ قوم کے اس شعور اور حمایت نے ہی وزیر اعظم نوازشریف اور شہباز شریف کو بھرپور اعتماد بخشا ہے کہ وہ کھلے لفظوں نہ صرف دہشتگردی کے کرتا دھرتاؤں کو للکاررہے ہیں بلکہ انہیں پاک سرزمین سے اوجھل ہو جانے کا سخت پیغام بھی دے رہے ہیں۔ قوم چاہتی ہے کہ پاکستان پھر سے شاد آباد ہو، کھیت کھلیان سدا آباد رہیں، نئی موٹر ویز بنیں، نئے صنعتی زون تعمیر ہوں اورنج ٹرین ہی نہیں نت نئی جدیدسہولتیں پاکستان کا رخ کریں، ہم اقوامِ عالم میں سر اٹھا کر چلیں اور ہماری آنے والی نسلیں ہم پر فخر کریں کہ ہمارے بڑوں نے انہیں بے مثال، لازوال، ہنستا کھیلتا، لہلہاتا، جگمگاتا پاکستان دیا ہے۔