وکی لیکس کے تازہ انکشافات اور سی آئی اے

وکی لیکس کے تازہ انکشافات اور سی آئی اے
 وکی لیکس کے تازہ انکشافات اور سی آئی اے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاناما لیکس کیس کو ہمارے ہاں اب نواں مہینہ جا رہا ہے لیکن ہنوز شکمِ عدلیہ سے کچھ برآمد نہیں ہوا۔ خلقِ خدا انتظار میں ہے۔ دیکھیں چاند کس افق پر طلوع ہوتا ہے!۔۔۔ لیکن وکی لیکس کیس نے تو کمال ہی کر دکھایا ہے۔ جو راز ہنوز پردۂ اخفاء میں سمجھے جاتے تھے ان کو طشت ازبام کرکے رکھ دیا ہے اور ساری دنیا کو بتا دیا ہے کہ وہ تمام ڈیجیٹل کھلونے جن کو ہم سب ، بڑے ارمانوں اور حیرت سے دیکھا اور استعمال کیا کرتے تھے وہ اپنے کارہائے منصبی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری مخبری بھی کر رہے تھے ۔۔۔اور مخبری بھی ان امور و معاملات کی جن کو ہم سمجھتے تھے کہ وہ صرف ہمارے اور ہمارے خدا کے درمیان ہیں۔


میں کبھی کبھی انٹرنیٹ کی ’’فیوض و برکات‘‘ پر ان صفحات میں قلم اٹھاتا رہتا ہوں لیکن حالیہ وکی لیکس نے تو میری سارے خدشات سچ اور سارے شبہات درست ثابت کر دیئے ہیں بلکہ ایسے ثبوت فراہم کر دیئے ہیں جو میری سوچوں سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔۔۔


سمارٹ فون، کمپیوٹر، وائی فائی، ٹی وی، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ وغیرہ کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو مجھے تھا لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ میرے سامنے جو ٹیلی ویژن نام کا آلہ رکھا ہے وہ آف بھی ہو تو آن رہتا ہے۔ اس کے اندر کے کیمرے چلتے رہتے ہیں اور اس کے تکنیکی چشم و گوش بھی آن رہتے ہیں، سمعی و بصری ریکارڈنگ ہوتی رہتی ہے اور ساتھ ہی ہماری تمام حرکات و سکنات اور بات چیت کسی ٹیپ پر مرتسم کرنے کی ایکسرسائز بھی جاری و ساری رہتی ہیں۔ ہم بچپن میں سنتے تھے کہ ہمارے دونوں کاندھوں پر خدا نے دو کراماً کاتبین بٹھا رکھے ہیں۔ دائیں کاندھے پر براجمان فرشتہ ہماری نیکیاں لکھتا رہتا ہے (اور بالعموم فارغ بیٹھا رہتا ہے) جبکہ بائیں کاندھے پر تشریف فرما فرشتہ ہماری بدیاں قلم بند کرنے پر مامور ہے (اور کسی بھی لمحے فارغ نہیں بیٹھتا)۔ غالب نے تو صفاتِ الٰہیا اور اس کے معجزات نادرہ کو یہ کہہ کر خراج عقیدت پیش کیا تھا :
آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
ذرا غور فرمایئے کیا بلاغت ہے اس شعر میں جو غالب نے بیان کرنے میں کمالِ اختصار سے کام لیا ہے اور بتایا ہے کہ خدا اگرچہ ظاہر نہیں اور پتہ نہیں کتنے پردوں میں چھپا بیٹھا ہے لیکن ان پردوں کے اندر بھی ہمیشہ ایک آئینہ سامنے رکھ کر میک اپ کرتا رہتا ہے اور اپنے چہرے کے خدو خال اور نقوش و عبارات کو نئی تازگیاں اور نئے جلوے عطا کرتا رہتا ہے۔ اسی مضمون کا غالب کا ایک اور شعر بھی یادوں کی چلمن سے جھانک رہا ہے۔ کہتا ہے:
تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گل درقفائے گل
لیکن خدائے کائنات نے حضرتِ انسان کے نام سے اس کائنات میں اپنا ایک ’’نائب ‘‘ بھی بنا رکھا ہے۔ عرفِ عام میں آجکل اس انسان کو امریکہ کہا جاتا ہے ۔ اسی نائب خدا نے اپنے منکر نکیر بھی پیدا کر رکھے ہیں جو ساری خلقِ خدا کی نیکیاں اور بدیاں تحریر کرتے رہتے ہیں۔ مخلوقِ خدا کو کچھ پتہ نہیں کہ اس کے سارے گناہ و ثواب اور سارے سفید و سیاہ یہ منکر نکیر قلمبند کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔ اصطلاح میں امریکہ نے ان کا نام سی آئی اے (CIA) رکھا ہوا ہے۔


یہ سی آئی اے والے جدید ڈیجٹیل آلات کی مدد سے آپ کا سارا کچا چٹھا ریکارڈ کرتے اور اسے بوقت ضرورت استعمال کرنے کا ایک عظیم کام کرتے رہتے ہیں۔ وکی لیکس نسبتاً ایک نیا ادارہ ہے جس کا سربراہ جولین آسانج (Julian Assange) ہے۔ یہ عصرِ حاضر کا وہ موسیٰ ہے جو فرعون کے گھر میں پرورش پا رہا ہے ۔اسی فرعون کے دماغ کا سب سے بڑا پرزہ CIA کہلاتا ہے۔ وکی لیکس اور سی آئی اے ایک دوسرے کے اسی طرح کے دشمن ہیں جس طرح ناگ کا دشمن سپیرا ہے۔ اگر میری طرح فلم نگینہ کے گیت کا یہ مکھڑا آپ کے ذہن میں بھی گھوم رہا ہے تو اسے یاد کیجئے:
میں تیری دشمن، دشمن تو میرا
میں ناگن تو سپیرا۔۔۔
یہ CIA گویا ایک ناگن ہے اور وکی لیکس سپیرا ہے۔ اس سپیرے نے ماضی میں بھی ناگن کے کئے روپ بے نقاب کئے اور کئی ’’دانتوں‘‘ (Fangs) کا پردہ چاک کیا ۔ لیکن اس بار تو سپیرے نے ناگن کے کئی دانت سب کے سامنے کھول کر دکھا دیئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس سپیرے کی پٹاری میں ابھی اور بھی کئی ’’منکے‘‘ پوشیدہ ہوں گے جو وہ مستقبل میں گاہے گاہے کھول کر ناگن کے خوبصورت لیکن قاتل سراپا کو برہنہ کرتا رہے گا۔ فی الحال وکی لیکس نے جس ’’منکے‘‘ کو برسرِ عام کیا ہے اس میں آپ کے سمارٹ فون کی بعض Appsہیں جن کو واٹس آپ (whatsapp)، یوٹیوب، سگنل اور ٹیلی گرام کا نام دیا جاتا ہے۔ موخر الذکر دو Apps یعنی سگنل اور ٹیلی گرام پاکستانی پبلک میں عام مستعمل نہیں لیکن یورپ، امریکہ اور دنیا کے دوسرے جدید ممالک میں عام استعمال ہوتی ہیں۔ ان آلات یا سہولیات کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے جس طرح مستفید ہوتے ہیں اور باہمی پیغام رسانی کی منازل طے کرکے فیض یاب ہونے کی نشاط انگیزی کا لطف اٹھاتے رہتے ہیں وہ ہماری طرف سے لاکھ پوشیدہ سمجھی جائیں لیکن CIA کی نگاہوں میں الف برہنہ ہوتی ہیں!
امریکی CIAکا ایک خصوصی شعبہ ایسا ہے جو ہر آن اور ہر لمحہ ایسے آلات (Devices) ایجاد کرتا رہتا ہے جو جدید ترین مواصلاتی آلات کے کوڈ توڑنے میں لگا رہتا ہے۔ آپ کو خبر بھی نہیں ہوتی لیکن آپ کے ایسے تمام پیغامات اور ایسی گفتگوئیں جو آپ موبائل پر کرتے ہیں، ان کی ایک ایک تفصیل کو بڑی پیشہ ورانہ مہارت سے اُچک لیتا ہے اور آپ کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی کسی بھی حرکت کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔ عہدِ حاضر کا ہر لکھا پڑھا( یا اَن پڑھ) انسان جس کی رسائی سمارٹ موبائل تک ہے اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی وہ تمام سمعی و بصری (Audio Visual) سرگرمیاں جن کو وہ پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے یا بزعم خود پوشیدہ رکھ رہا ہوتا ہے، وہ نہ صرف CIA کے لئے پوشیدہ نہیں ہوتیں لیکن واشگاف اور عریاں ہوتی ہیں۔
سی آئی اے کے سپرکمپیوٹر، ایپل آئی فون کے ios سسٹم یا سام سنگ کے Androidسسٹم یا کسی بھی دوسرے سوشل میڈیا کے کسی بھی سسٹم کو ہیک (Hack) کرنے کی تکنیکی مہارت سے مالا مال ہیں۔ لیکن وہ جو میں کالم کے شروع میں عرض کیا ہے ہر فرعون کے لئے ایک موسیٰ بھی پیدا کر دیا جاتا ہے تو آج یہ وکی لیکس، موسیٰ بن کر CIA کے فرعون کو بے نقاب کر رہا ہے۔ مستقبل قریب میں ایک سنوڈن (Sno wden)کے علاوہ نجانے اور کتنے آسانج اور سنوڈن پیدا ہوں گے جو خدائی کے ان جھوٹے دعویداروں کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔


اگر اسے خود ستائی نہ سمجھیں تو ایک ذاتی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ میں چار پانچ برس سے سمارٹ فون استعمال کر رہا ہوں۔ میرے لئے اس میں دیگر معلومات کی طرح دفاعی موضوع کی گلوبل معلومات کا بھی ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ میں نے اپنے موبائل پر بہت سے ایسی Appsڈاؤن لوڈ کر رکھی ہیں جوہر آن دنیا بھر کی دفاعی خبروں کی کوریج کرتی اور پھر مجھ جیسے اَن گنت لوگوں تک پہنچاتی رہتی ہیں۔ یہ سہولت محض دفاعی موضوعات تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کے علوم و فنون کے جویا اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ لیکن تقریباً دو برس سے میں محسوس کر رہا ہوں کہ ’’کوئی‘‘ میری نگرانی کر رہا ہے۔ میری Appsپر خبروں کے جو نوٹیفکیشن آتے رہتے ہیں وہ میرے ان سوالات یا ان معلومات کے متوازی یا مساوی یا متعلق ہوتے ہیں جن کو میں وائی فائی یا نیٹ کے ذریعے براؤز (Browse) کرتا رہتا ہوں۔ مثال کے طور پر میں نے امریکی بی۔52 کے ارتقائی مراحل کو جاننے کے لئے مختلف Appsاور گوگل سے استفادہ کرنے کی کوشش کی۔یہ معلومات تو مجھے ایک سٹینڈرڈ طریقے سے مل گئیں لیکن ساتھ ہی ’’کوئی‘‘ اَن دیکھی شخصیت کسی اور Apps پر یہ نوٹیفکیشن بھی آن کر دیتی ہے کہ ایف۔ 117 سیٹلتھ کی ہسٹری کیا ہے اور بی ون اور بی ٹو بمباروں کی تفصیل کیا ہے تو میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ معلومات تو میں نے گوگل سے پوچھی ہی نہیں تو یہ نوٹی فیکیشن چہ معنی دارد؟


اسی طرح میں نے یو ٹیوب سے لتا، رفیع، نورجہاں یا کسی اور معروف پہلے بیک سنگر کے کسی مشہور پرانے نمبر (گیت) کو سننے کی کوشش کی تو وہ گیت تو سنا دیا گیا اور میں بہت خوش بھی ہوا کہ چلو ’’ماضی پرستی‘‘ کا ارمان پوراہو گیا لیکن کچھ عرصہ بعد دیکھا تو موبائل پر انہی گلوکاروں اور انہی فلموں کے کئی اور گانوں کا نوٹیفکیشن بھی آیا ہوا تھا اور یہ گانے بھی واقعی میرے لئے فردوسِ گوش تھے۔


پھر میں نے ازراہِ تجسس (یا از راہِ شرارت سمجھ لیجئے) ایک بار یوٹیوب پر مختلف جانوروں کی ’’جفتی‘‘ (Mating) کے بارے میں جاننے کی کوشش کی یعنی شیر، گینڈا، بندر اور اونٹ وغیرہ کے ’’اسرار و رموز‘‘ پر سے پردہ اٹھانا چاہا تو وہ پردہ تو حسبِ طلب اٹھا دیا گیا لیکن ساتھ ہی کئی روز تک مختلف دوسرے جانوروں کے ’’اسرار و رموز‘‘ کے نوٹیفکیشن بھی موصول ہوتے رہے۔ گویا مجھے بتایا جا رہا تھا کہ : ’’حضور آپ نے تو صرف کسی ایک آدھ ’’رمز وایما‘‘ کی بات پوچھی تھی، ہم توآپ کو پورے عالمِ حیوانات کے ’’اسرار و رموز‘‘ سے آگاہ کئے دیتے ہیں۔۔۔ لیجئے، لطف اٹھایئے!‘‘


قارئینِ گرامی! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی کوئی بھی حرکت جو آپ ان ڈیجٹیل کھلونوں سے کھیلتے ہوئے کرتے ہیں وہ CIA کی آنکھ سے چھپی نہیں رہ سکتی۔ اگر آپ کو کوئی شک ہو تو میری طرح آزما کر دیکھ لیجئے۔ مجھے یقین ہے آپ کے ساتھ بھی یہی ’’سلوک‘‘ روا رکھا جاتا ہو گا۔ فرق یہ ہے کہ میں اسے ضبطِ تحریر میں لے آیا ہوں اور آپ شاید ’’ازراہِ احتیاط‘‘ایسا کرنے سے ہچکچاتے ہوں۔۔۔لیکن کب تک؟


میں امید کرتا ہوں کہ کوئی قاری جو اس موضوع کی مزید ٹیکنیکل تفصیلات سے آگاہ ہوں، وہ کسی کالم کے ذریعے قارئین کو یہ بتائیں کہ وکی لیکس کے ان انکشافات کے تناظر میں ہم پاکستانیوں اور پاکستان کے سرکاری اور نجی اداروں کو کون کون سی ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں جو اخذِ معلومات کی ترسیل کی راہ میں بھی حائل نہ ہوں لیکن نجی خلوت کو بھی ڈسٹرب نہ کر سکیں۔

مزید :

کالم -