جوابِ آں غزل

جوابِ آں غزل
 جوابِ آں غزل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شریف خاندان نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ جو عمران بار بار ان سے حساب مانگتا ہے اب ان کا حساب چکا دیا جائے ،ان سے عدالت کے کٹہرے میں حساب لیا جائے کہ عمران وہ بندہ پیش کریں جس نے شریف فیملی کی طرف سے عمران کو زبان بند رکھنے کا ’’ لو لیٹر‘‘ پیش کیا تھا ۔سچی بات تو یہ ہے کہ کسی بندے نے ذاتی طور پر عمران جیسے ہیرو کو ’’ گُوف‘‘ بنایا ہو تو الگ بات البتہ شریف خاندان کی بلند آواز اس بات کا بین ثبوت ضرورفراہم کر رہی ہے کہ انہوں نے کسی بندے کے ہاتھ عمران کو کسی قسم کا ’’محبت نامہ‘‘ نہیں بھیجا ۔ہم جانتے ہیں کہ ماضی قریب میں سیاسی گھوڑوں کا بیوپار ضرور ہوتا رہا ہے ، چھانگا مانگا جنگل اور مری کے ہوٹل ان گھوڑوں کے چارے کا اہتمام کرتے رہے ہیں لیکن اب زمانہ بدل چکا ہے ،اب نئے سیاسی منظر نامے پر اتنی بڑی بڑی رشوتوں کا رواج رہ گیا ہے اور نہ ہی میاں نوازشریف کی سوبر پالیٹکس اس ٹائم گوارا کرتی ہے کہ کسی سیاسی حریف کا ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے منہ بند کیا جائے، اصل میں منہ ،منہ پر بھی ’’ڈیپنڈ‘‘ کرتا ہے ، عمران خان صاحب کے حوالہ سے یہ بات اب زبانِ زدعام ہے کہ کپتان آج جو بیان داغتے ہیں اگلے دن اس سے مکرے ہوتے ہیں ،لہذٰا شریف برادران ایسے بھی گئے گزرے نہیں کہ کھرے کھوٹے کی تمیز نہ کر سکیں اور ایسے کسی فرد کو اتنی بڑی ڈیل کی آفر کراتے پھریں جس کی کہی بات کا اعتبار نہ ہو ۔یہ کوئی بہت پرانا قصہ نہیں کہ پی ایس ایل فائنل ہونے والا تھا اور عمران خان کا اصرار تھا کہ یہ ایونٹ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کروایا جائے لیکن جب واقعی حکومت پاکستان نے طے کر لیا کہ پی ایس ایل فائنل لاہور میں ہو گا تو عمران نے اس کو ’’ پاگل پن‘‘ کہہ دیا ، ابھی کل ہی کی بات ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ آیا اور عمران خان نے اس فیصلہ کو ’’ تاریخی ‘‘ قرار دیا ، پی ٹی آئی نے خوب بھنگڑے ڈالے مگر فیصلے کے اگلے ہی روز عمران اپنی کل کی باتیں بھول گئے اور فیصلے پر نقطہ چینی شروع کرتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنا ڈالا جبکہ فیصلہ کے مطابق جے آئی ٹی پر مکمل عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ۔اس سے بھی ذرا پیچھے کا ایک ’’ سین ‘‘ یاد کیجئے کہ پیارے کپتان چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات کرکے جی ایچ کیو سے باہر نکلے تو چھوٹتے ہی پوری قوم کو خوشخبری سنائی کہ آرمی چیف جمہوریت کے ساتھ ہیں ،عمران خان نے آرمی چیف کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ خود بھی جمہوریت کے فوائد پر قوم کو لمبا چوڑا لیکچر دیا مگر افسوس کہ آج وہی ’’لیکچرار‘‘ عمران خان ہر چیز اور ہر بیان کو بھول بھال کر پرانی ڈگر پر ہیں اور جمہوریت کے پاوٗں پر کلہاڑی مارنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، حتیٰ کہ بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہے ہیں اور خواجہ سعد رفیق ،عمران خان کی اس ضد پر ایک گیت کا مکھڑا گنگنائے جا رہے ہیں :
’’انوکھا ، لاڈلہ ، کھیلن کو مانگے چاند‘‘
دیکھا جائے تو عمران خان کی ضد واقعی ان بچوں والی ہے جو سارا سال تتلی پکڑنے کے چکر میں رہتے ہیں مگر تتلی ان کے ہاتھ نہیں آتی ،عمران کا فرمان ہے کہ وہ وزیراعظم بننا چاہتے ہیں اور اس ’’ کارِ خیر‘‘ کے ذریعے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن دوسری جانب عدالت میں ایک کیس دائر ہوا ہے کہ چونکہ عمران اور جہانگیر ترین نے ٹیکس بچانے کیلئے آف شور کمپنیاں بنائیں ، درخواست گزار کے مطابق دوسروں کو ’’ صراطِ مستقیم ‘‘ پر لانے کے خواہشمند عمران خان خود صادق ، امین ہونے کے زمرے میں نہیں آتے لہذٰا انہیں کٹہرے میں لایا جائے اور صادق ، امین ہونے کا پورا پورا سبق از سر نو پڑھایا جائے ۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ’’ اُتوں میاں تسبی اور اندر سے کسبی‘‘ والا محاورہ کبھی ’’اولڈ‘‘ نہیں ہو سکا ہم خود تو ہر طرح کی ہیرا پھیریوں اور ٹیکس چوریوں میں ملوث ہیں مگر دوسروں پر بڑے دھڑلے سے انگلی اٹھانے کے ماہر ہیں ،عمران کا نیا بیان ہے کہ شریف برادران 10ارب کی پیشکش لانے والے شخص کو نہیں جانتے ،عمران نے ایک اور راز سے بھی پردہ اٹھایا ہے کہ پیشکش لانے والے شخص کا کہنا تھا کہ 10ارب کی پیشکش بڑھ بھی سکتی ہے یعنی 10ارب کی رقم کو مزید کئی اربوں تک پھیلایا جا سکتا ہے ۔عمران یہ بھی کہتے ہیں کہ جس دن شریف برادران اس حوالہ سے انہیں کٹہرے میں لائیں گے اس دن عدالت سے اس شخص کا تحفظ مانگوں گا ۔عمران یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ جو شخص 10ارب لانے والا تھا اسے خود بھی 2ارب روپئے ملنے والے تھے ۔


سچی بات ہے کہ ہمیں عمران خان کے ان سب بیانات پر مسلسل ہنسی آئے جا رہی ہے، پہلی بات یہ ہے کہ اگر پیشکش لانے والے شخص کو شریف برادران جانتے ہی نہیں تو پھر اتنا بڑا ٹاسک ایک اجنبی کے حوالے کیسے کر دیا گیا ۔؟ دوسرا یہ کہ اتنی بڑی تحریک انصاف ایک عدد شخص کو شریف برادران کے ڈر سے اگر تحفظ نہیں دے سکتی تو پھر کاہے کی جماعت ہے ۔؟ خدا نخواستہ ایسی جماعت اگر حکومت میں آ جاتی ہے تو ملک و قوم کو تحفظ کیسے فراہم کر سکے گی۔؟تیسری اہم بات یہ ہے کہ 2ارب روپئے کے لالچ میں یہ سب کرنے والا شخص صادق ، امین تو دور کی بات پرلے درجے کا چور اور گھٹیا قسم کا بروکر ہے ، ایسے چور کو تحفظ دینا کسی بھی طرح اخلاقی سطح پر قابلِ قبول نہیں ، عمران اور تحریک انصاف کا تو فرض تھا کہ ایسے شخص کو سب سے پہلے ننگا کرتی کہ 2ارب کا لالچی شخص انہیں گھٹیا قسم کی آفر دلوا رہا ہے اور ملکی سیاست کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگا رہا ہے ، مگر افسوس کہ تحریک انصاف نے ایسا کچھ نہ کیا ۔ الٹا لالچی چور کا نام چھپا کر قوم کے ساتھ ہاتھ کیا ۔۔۔ ’’کاش! کوئی تحریک انصاف کو بتائے کہ ہم بتلائیں کیا۔‘‘


اصل میں 2018ء کے الیکشن میں 12ماہ باقی ہیں ، تحریک انصاف جانتی ہے کہ نوازشریف اس ملک کے پاپولر ترین لیڈر ہیں ، نوازشریف نے اپنے پانچ سالہ دور میں بے بہا ترقیاتی کام کروائے ہیں ، ملکی معیشت یوں بہتر ہوئی ہے کہ دنیا کی 23ویں بڑی معیشت کا روپ دھار چکی ہے ،سی پیک اور گوادر پورٹ پر تیزی سے کام جاری ہے ،موٹر ویز کا جال بچھ رہا ہے ،صنعت کا رُکاپہیہ چل پڑا ہے ،سٹاک مارکیٹیں بلندیوں کو چھو رہی ہیں ،نوازشریف حکومت کے چار سالوں میں ابھی تک کرپشن کا کوئی ایک سکینڈل بھی سامنے نہ آ سکا ہے ،نوازشریف اپنے وعدے کے مطابق 2018ء تک لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کرنے جا رہے ہیں ، ایسے حالات میں تحریک انصاف کو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اگلا الیکشن بھی نوازشریف کی جھولی میں ہے ،اس لئے تحریک انصاف کی تڑپ بِن پانی کی مچھلی والی ہے ،تحریک انصاف کے پاس ایک ہی ٹاسک ہے کہ کسی طرح پانامہ لیکس کے بہانے شریف خاندان پر کیچڑ اچھالا جائے اور یوں 2018ء کے الیکشن میں اپنی تھوڑی بہت پوزیشن بنا لی جائے لیکن لگتا ہے کہ تحریک انصاف کی دال گلنے والی نہیں ،شکست تحریک انصاف کا مقدر کا بن چکی ہے اور یہی بات پیارے کپتان کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی ،کیا ہی اچھا ہو کہ عمران خان اپنی ضد کی بازی ہار دیں اور ملک و قوم کے لئے کھیلنا شروع کر دیں ، سیاست کو قوم کی خدمت جانیں ، کیونکہ یہ کوئی کرکٹ میچ نہیں ،سیاست میں باوٗنسرز ، چوکے ، چھکے نہیں لگائے جاتے بلکہ یہ اور طرح کا کھیل ہے ، اسی لئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ عمران جائیں اور جا کر کرکٹ کھیلیں ، سیاست ان کے بس کا روگ نہیں ، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اب کرکٹ بھی عمران خان کے بس کا کھیل نہیں ، کیونکہ کرکٹ نوجوانوں کا کھیل ہے اور عمران خان اب جوان نہیں رہے۔

مزید :

کالم -