شتر بے مہار آزادی نہ مانگیں!

شتر بے مہار آزادی نہ مانگیں!
 شتر بے مہار آزادی نہ مانگیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈان لیکس پر آئی ایس پی آر کا ٹویٹ نامناسب تھا تو پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم کی پریس کانفرنس بھی نامناسب تھی۔ حکومت میں بیٹھ کے حکومت اور دیگر اداروں پر چڑھ دوڑ نا کہاں کی عقلمندی ہے یا دوسرے لفظوں میں اس کی کیا تاویل پیش کی جاسکتی ہے یہ رجحان چل پڑے تو پھر ہر سرکاری محکمے کا سربراہ پریس کانفرنس میں اپنی مشکلات پیش کرنے لگے گا اور ریاست ایک مذاق بن کررہ جائے گی۔ سرکاری اداروں کی ورکنگ کا ایک طریقہ کار ہے جو آئین اور قانون میں وضع کردیا گیا ہے، اس کے مطابق چلنا چاہئے نہ کہ ٹویٹ یا پریس کانفرنس کرکے سارے ماحول کو بے یقینی کا شکار بنادیا جائے۔ اگر پیمرا کے چیئرمین سمجھتے ہیں کہ انہیں کام نہیں کرنے دیا جارہا تو یہ ان کی اہلیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کسی تھانے کا ایس ایچ او تک یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے کام نہیں کرنے دیا جارہا، کیونکہ علاقے کے بدمعاشوں کی طرف سے اسے روزانہ دھمکیاں ملتی ہیں۔یہ کون سا طریقہ ہے کہ صرف دھمکیوں کی بنیاد پر آپ ریاست کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹنے لگیں۔ ابصار عالم تو ابھی تک یہ جواب نہیں دے سکتے کہ انہیں کس اہلیت کی بنیاد پر اس منصب کا اہل قرار دیا گیا۔ یہ نظر کرم کا کمال تھا جو وزیر اعظم نواز شریف کی اُن پر پڑی۔ اب اگر وہ پریس کانفرنس کے دوران یہ کہتے ہیں کہ ان کی وزیر اعظم سے ملاقات نہیں ہو پارہی تو یہ مقامِ حیرت سننے والے کو بہت دور تک لے جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی وزیر اعظم سے ملاقات نہ ہوسکتی ہو۔ یہاں تو عرفان صدیقی بھی تقریب میں یہ بتادیتے ہیں کہ انہیں وزیر اعظم سے ملنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ جب چاہتے ہیں بغل میں کوئی فائل داب کر ان کے پاس چلے جاتے ہیں اور دستخط کرا کے ہی واپس آتے ہیں، پیمرا کا چیئرمین ہونا کوئی معمولی عہدہ تو نہیں ہے، پھر وزیر اعظم نواز شریف نے ابصار عالم کو بلا استحقاق صرف اپنی رائے کے مطابق اس پر فائز کیا۔ابصار عالم جب صحافی تھے تو وزیر اعظم سے بآسانی مل لیتے تھے، اب تو وہ ایک اہم محکمے کے سربراہ ہیں، جس میں رہنمائی کے لئے انہیں بار بار وزیرعظم کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا کہ وہ ملنے والی دھمکیوں کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف کو سب کچھ بتانا چاہتے ہیں ، مگر انہیں وقت نہیں دیا جارہا۔

ابصار عالم کی یہ بات درست ہے کہ پیمرا ایک بہت اہم ذمہ داری نبھا رہا ہے۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا جس طرح ایک سیلاب کی صورت اُمڈ آیاہے۔ اس کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ ملک اور معاشرے کو میڈیا کے ہاتھوں یرغمال نہ بننے دیا جائے۔ اسے شتربے مہا ر بننے سے روکا جائے اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے جو انتشار یا معاشرتی اونچ نیچ پیدا ہوسکتی ہے، اس کی نوبت نہ آنے دی جائے۔ بلاشبہ پیمرانے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں۔ مذہبی و علاقائی نوعیت کے ایسے پروگرام جو معاشرتی تقسیم کا باعث بن رہے تھے، ان پر بین لگایا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر فحاشی وعریانی کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں۔ ان کے حوالے سے بھی پیمرا کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، لیکن پوری قوم چونکہ اس حوالے سے پیمرا کے پیچھے کھڑی ہے، اس لئے یہ کام احسن طریقے سے ہوتے چلے گئے۔ کام اس وقت خراب ہوا جب پیمرا نے کچھ چینلز کی آپس کی جنگ کو اپنی جنگ بنا لیا۔ یہ بات طے ہے کہ پیمرا کتنا ہی طاقتور ہو جائے وہ آزادی اظہار پر پابندی نہیں لگا سکتا۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ پیمرا حکومت پر تنقید کو روک سکے۔ ایسا کرنے کی کوشش میں اس کی غیر جانبداری اور آزادی متاثر ہوسکتی ہے۔ بدقسمتی سے تاثر یہ پیدا ہو گیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے پیمرانے ان چینلز پر ہاتھ ہولا رکھا جو حکومت کے حق میں پروگرام کرتے رہے اور ان چینلز کو مختلف طریقوں سے دبانے کی کوشش کی، جو حکومت مخالفتمشہور ہیں۔ابصار عالم کو جس طرح پیمرا کا چیئرمین بنایا گیا، اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں۔ ایسا انہیں کرنا بھی چاہئے کہ اتنی پر کشش ملازمت نصیب والوں کو ہی ملتی ہے، مگر جب ایسی چیزیں تو اتر سے بے لگام ہونے لگیں تو مزاحمت جنم لیتی ہے۔ سو ابصار عالم کو بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جس کی انہوں نے خود پریس کانفرنس میں تفصیل بھی بیان کی ہے۔ انہوں نے جو فون کال سنوائی وہ بھی کسی دہشت گرد گروپ یا انتہا پسندوں کی طرف سے انہیں موصول نہیں ہوئی، بلکہ ایک چینل کو بند کرنے اور کھولنے کے حوالے سے کی گئی۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات کو پیشہ وارانہ انداز سے آگے بڑھانے کی بجائے بعض امتیازی فیصلوں سے چلانے کی کوشش کی گئی جس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا۔


چلیں، یہ مان لیتے ہیں کہ پیمرا کے چیئرمین کو اس بات کا حق حاصل تھا کہ وہ پریس کانفرنس کرکے اپنا مافی ضمیر بیان کرتے۔ یہ بھی تسلیم کہ انہیں ایسی رکاوٹوں کا ذکر کرنے کی بھی اجازت ہونی چاہئے ، جن کا انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن یہ انہوں نے کیسے کہہ دیا کہ پیمرا کے تمام اختیارات تو ہائی کورٹ نے سنبھال لئے ہیں یہ کون سی آزادی ہے، جو وہ طلب کررہے ہیں؟ وہ شاید خود کو ایک ایسے جزیرے کا فرد سمجھے ہوئے ہیں، جہاں ان کے سوا اور کوئی موجود ہی نہیں۔ یہ بات تو آج تک کسی ادارے نے نہیں کی کہ اس کے اختیارات عدلیہ نے سنبھال لئے ہیں۔ یہ ابصارعالم کی کس قدر بھونڈی دلیل تھی کہ اگر عدالتوں نے حکم امتناعی ہی دینا ہے تو بتادیں ہم کام کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک طرف پیمرا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ٹی وی چینلز کی بے لگام آزادی کو کسی صورت قبول نہیں کرے گا اور انہیں پیمرا کے ضابطوں پر چلنے کا پابند بنائے گا، مگر دوسری طرف وہ خود اپنے لئے ایک ایسی آزادی مانگ رہے ہیں، جوکسی مہذب معاشرے میں موجود ہی نہیں ہوتی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیمرا ملک کے عدالتی ، انتظامی اور پارلیمانی نظام سے ماورا قرار پائے۔ اس پر کسی کا کوئی بس نہ چلے اور وہ جو چاہے کرتا رہے۔ ایسا مادرپدرآزاد جزیرہ تو شاید کسی جنگل میں بھی نہ ملے۔ وہاں بھی جانوروں کی کوئی نہ کوئی تو عملداری رہتی ہوگی۔ یہ کہنا کہ ہم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں، عدالت حکم امتناعی دے دیتی ہے۔ یعنی جو عدلیہ کا بنیادی اختیار ہے، وہ بھی ابصار عالم کو پسند نہیں۔


عدالت کا حکم امتناعی نا انصافی کو روکنے کے لئے ہوتا ہے، اگر آپ سچے ہیں اور آپ نے جو فیصلہ کیا وہ آئین اور قانون کے مطابق ہے تو حکم امتناعی پہلی پیشی میں خارج ہو جائے گا۔ اگر کیس بدنیتی پر مبنی ہے تو ظاہر ہے، عدالت انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ کالعدم قرار دے دے گی، اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے کام اور اختیار میں مداخلت ہو رہی ہے تو آپ بھی عدلیہ پر تنقید کرکے کیا اس کے کام اور اختیار میں مداخلت نہیں کر رہے؟ حیرت ہے کہ ابصار عالم نے اپنے اور ساتھیوں کے قتل کی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم ، چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف سے تحفظ دینے کی اپیل کی ہے۔ حالانکہ یہ تو اتنا اونچا لے جانے والا کام ہی نہیں تھا۔ انہیں سب سے پہلے تھانے میں ایف آئی آر درج کرانی چاہئے تھی اور پھر ایف آئی آر کو وہ تمام معلومات اور کالز کا ریکارڈ پیش کرنا چاہئے تھا، جو انہیں اب تک موصول ہوئی ہیں، مگر انہوں نے ایسا تو کچھ بھی نہیں کیا بس سیدھا ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کرڈالی۔ جس سے ملک میں خواہ مخواہ یہ تاثر پھیل گیا کہ بڑے سے بڑا ادارہ بھی دھمکیوں کی زد میں ہے، جس سے یوں لگتا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور ہر طاقتور اپنی زبان بول رہا ہے۔۔۔ مَیں سمجھتا ہوں جو لوگ اپنی خوش قسمتی سے کسی قومی ادارے کے اعلیٰ عہدے پر بیٹھ جاتے ہیں، انہیں غلامی کا طوق اپنے گلے میں نہیں ڈالنا چاہئے،انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ منصب کے تقاضوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور ایسا مثبت کردار ادا کریں کہ کوئی ان کی طرف انگلی تک نہ اٹھاسکے، دھمکی تو بہت دور کی بات ہے۔

مزید :

کالم -