جناب ! زنانہ وار لڑئیے

جناب ! زنانہ وار لڑئیے
 جناب ! زنانہ وار لڑئیے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

محترمہ عاصمہ جہانگیر نے پی ٹی وی کے پروگرام ’ ٹاکنگ پوائنٹ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز شریف کی تعریف کی تومجھے خیال آیا کہ ہر دور میں آمریت کامقابلہ خواتین نے ہی کیا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ اس وقت ملک میں آمریت میں نہیں ہے مگر کچھ یوں لگتا ہے کہ جمہوریت بھی نہیں ہے۔ اس ہونے یا نہ ہونے پرمجھے احمد فراز مرحوم کا ایک شعر یاد ا گیا، ’ جس سمت دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو، اے جان جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو‘ اور’ یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں، ہر سانس میں مجھ کو یہ لگتا ہے کہ تم ہو‘۔ میں نے کراچی میں پیارے بھائی فاروق ستار اور اس سے بھی زیادہ پیارے بھائی مصطفی کمال کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے دیکھا تومجھے ان میں کوئی اور نظر آیا، یہ کوئی اور پرویزمشرف بھی ہوسکتا ہے اور پاکستان میں طویل ترین گورنری کا ریکارڈ قائم کرنے والے عشرت العباد بھی، نظر تو ان کے پیچھے اور بھی بہت سارے چہرے آتے ہیں اور دل یہ گنگناتا ہے ، ’جب بھی چاہے ایک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ، ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ‘،اور عشق کی معراج کہی گئی کہ’ میں نئیں بولدی، میرے وچ میرا یار بولدا‘۔ بات کہیں سے کہیں چلی گئی ، کہنے والوں کے ساتھ یہ بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ کہنا کچھ ہوتا ہے اور کہہ کچھ اور دیتے ہیں، سعد اللہ شاہ نے کچھ ملتی جلتی کیفیت بارے کہا،’ وہ سنتا تو میں کہتا مجھے کچھ اورکہنا تھا، وہ پل بھر کو جو رک جاتا مجھے کچھ اور کہنا تھا‘۔میرا دوست بھولا مجھ سے ہمیشہ عدم اتفاق کرتا ہے اور غالب کا شعر پڑھ دیتا ہے، ’ کھلتا کسی پہ کیوں میرے دل کا معاملہ، شعروں کے انتخاب نے رسوا کیامجھے‘۔ صدیوں سے یہ بات درست ثابت ہوتی آ رہی ہے کہ شعروں کا انتخاب رسوا کر دیتا ہے۔


بات ،محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بات سے شروع ہوئی۔ عاصمہ جہانگیر بھی ہمارے روایتی ، مذہبی اور مشرقی معاشرے میں بغاوت کی ایک عجب تصویر ہیں۔ مجھے جن سے اختلاف ہوتا تھا میں انہیں کافر اور غدار سمجھتا تھا مگر اب میں پرائمری اور مڈل جماعتوں سے اوپر آ گیا ہوں۔ اب میں صرف درسی کتب نہیں پڑھتا جن میں مسخ شدہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ یہ المیہ صرف پاکستان نہیں ہمارے پورے خطے کے ساتھ ہے۔ ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال، ایران اور چین تک میں بڑے، بچوں کو اپنی نظر کی عینکیں پہنا کر دنیا کو دیکھنے کے لئے کہتے ہیں، آہ، پھر شعر یاد آ گیا، جگرمراد آبادی نے کہا تھا، ’ اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا، کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے‘، بہرحال عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے ذکر کے ساتھ ثواب و گناہ کے فلسفے شروع ہوجاتے ہیں جو کالم ہی نہیں بلکہ کالم نگار کو بھی کہیں سے کہیں لے جا سکتے ہیں۔مجھے ایک دوست نے کہا کہ تم عاصمہ جہانگیر سے بات کرتے ہویا عاصمہ جہانگیر کی بات کرتے ہو تو اس میں تمہیں بھی سہولت کار کے طور پرپکڑا جا سکتا ہے، میرا گمان تھا کہ اگر خود تخریب کار نہ پکڑا جائے اور صرف سہولت کار کو ہی مجرم سمجھ لیا جائے تو اس سے انصاف اور قانون کے تقاضے پورے نہیں ہوتے ، میں نے پوچھا کیا وہ تمام وکیل بھی پکڑ لئے جائیں گے جنہوں نے عاصمہ جہانگیر کے ( اس وقت اسم بامسمی) انڈی پینڈنٹ گروپ کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں ووٹ دئیے اور محترم حامد خان کے (محض نام کے حوالے سے) پروفیشنل گروپ کو شکست فاش، خاص طور پر سیکرٹری کی نشست پر فرق تو’آدھوں آدھ‘ کا تھا۔میں نے پوچھا، صدر کی نشست پرفرق کیوں کم رہا جواب ملا کہ حامد خان گروپ کے امیدوار ایک عادی امیدوار تھے جنہیں کمپین کا بہت تجربہ تھا۔


حال ہی میں صحافیوں کے استادوں کے بھی استاد پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن کا ایک فقرہ بیان ہوا تھاکہ شرافت کا جینڈر ( یعنی مرد اور عورت ہونے) سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بات تجربے سے ہی معلوم ہو سکتی ہے ورنہ ہمارے دماغوں میں یہی بٹھایا جاتا ہے کہ مرد بہت بدمعاش ہوتاہے۔میں ا کثر سوچتا ہوں کہ اگر ایک مرد برا ہوتا ہے تو کیا وہ اکیلا ہی برا ئی کرتا ہے اور یقینی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے ۔ جناب مہدی حسن کے اسی کلئے کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے ایک ضمنی اصول بھی وضع کر لیا ہے کہ بہادری کا تعلق بھی جینڈر یعنی جنس سے نہیں ہوتا۔ آپ کسی بھی مرد کے بہادر ہونے کی گواہی صرف اس بنیاد پر نہیں دے سکتے کہ وہ مرد ہے اور آپ کسی عورت کو محض اس وجہ سے کمزور یا بزدل نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایک عورت ہے ،ہاں، آپ سے صرف ایک درخواست ہے کہ یہاں کچن میں نکلنے والے چوہوں اور کاکروچوں کی مثال سے میرے وضع کئے ہوئے ضمنی اصول کو مسترد کرنے کی غلطی مت کیجئے گاکہ انسانی اور سماجی روئیوں میں استثنائی حالتوں کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اب میں اپنی بات کے اس حصے کی طرف آتا ہوں جس کی طرف میر ا دھیان محترمہ عاصمہ جہانگیر کی گفتگو کے بعد گیا تھا اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی ریاست میں آمریت کا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتااور پاکستان کو بدقسمتی کے ساتھ ایک یا دو نہیں بلکہ تین بار اچھی خاصی لحیم شحیم آمریتوں کا سامنا رہا ہے اور ان آمریتوں کے مقابلے میں ہماری بہادر پاکستانی خواتین کا کردار سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔


پہلی آمریت ایوب خا ن کی تھی اور اس کا مقابلہ محترمہ فاطمہ جناح نے کیا تھا، مادر ملت کو الیکشن میں شکست دے دی گئی تھی اور اس کے بعد وہ ایک صبح پراسرار طور پر مردہ پائی گئی تھیں۔ دوسری آمریت ضیاء الحق کی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی فیصلے سے شہید کروانے کے بعداسلامی آمریت کو بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ بے نظیر بھٹوکی کامیابی تھی کہ وہ ضیاء الحق کا طیارہ فضا میں پھٹنے کے بعد عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں۔ تیسری آمریت پرویز مشرف کی تھی اور جب میاں نواز شریف کو اٹک قلعے کی بلند و بالا فصیلوں کے پیچھے چھپا دیا گیا تھا تو بیگم کلثوم نواز نے تہمینہ دولتانہ کے ساتھ مل کر آمرمطلق کے دانت کھٹے کر دئیے تھے۔ میں یہ بات حال ہی میں لکھے جانے والے ایک کالم میں بیان کر چکا ہوں کہ پرویز مشرف کی آمریت کے آغاز میں ان کے پسندیدہ چیف سیکرٹری حفیظ اختر رندھاوا نے مجھے دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مسلم لیگ نون میں دو ہی مرد ہیں ایک کلثوم نواز اور دوسرا تہمینہ دولتانہ، یہ وہ دور تھا جب مسلم لیگی رہنما چودھری برادران کی قیادت میں جوق در جوق بغاوت کر رہے تھے ۔کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ گوجرانوالہ کا وہ سیاسی خاندان جس کا فرزند آج بھی غیرمعمولی اونچا لمبا گھبرو جوان ہے، اس کے بڑوں ایوب خان کی خوشنودی کیلئے ایک گالی سمجھے جانے والی جانور کی مادہ کے گلے میں مادر ملت کا انتخابی نشان لالٹین لٹکا کے جلوس نکالا تھا ۔ میں نے چودھریوں کا ایک تصور سلطان راہی کی پنجابی فلموں میں دیکھا ہے جس میں چودھریوں کو ظالم کے ساتھ ساتھ بہادر بھی دکھایا جاتا ہے مگر مجھے پنجاب کے چودھری کسی بھی آمریت کے مقابلے میں دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر نہیں آتے،وہ گجرات سے تعلق رکھتے ہوں یا پوٹھوہار سے۔ یہ باتیں کسی کی توہین نہیں ہیں کہ یہ ہماری تاریخ ہے جو ہر جگہ لکھی ہوئی ہے ۔اپنی اسی تاریخ کو دیکھتے ہوئے مجھے کہنا ہے کہ اگر مسلم لیگ نون نے عوامی حاکمیت کے تحفظ کے لئے لڑنا ہے تو اسے مردانہ وار کی بجائے زنانہ وار لڑنا ہو گا، سو فیصد اسی طرح جس طرح محترمہ فاطمہ جناح،بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو،محترمہ کلثوم نواز نے زنانہ وار لڑا اور اب مریم نواز شریف لڑ رہی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ چودھری اور خان کہلانے والے بہت سارے مرد وں کے دل عورتوں کو لڑتے ہوئے دیکھ کے بھی ڈرتے ہیں، لرزتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ایسے مرد بہت جلد اردو لغت سے مردانہ وار لڑنے کا محاورہ حذف کروا دیں گے اور اس کی جگہ بہادری اور بے خوفی کے ساتھ مقابلہ کرنے کا مطلب واضح کرنے کے لئے زنانہ وار لڑنے کا محاورہ رائج اور مستعمل ہوجائے گا۔حذف ہونے کی وضاحت میں ماہرین لسانیات ہمارے بہت سارے مردوں کے ہمیشہ جھک جانے والے کردارشرمناک تاریخی حوالوں کے ساتھ درج کر دیں گے۔

مزید :

کالم -