جنرل رضوان اختر کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ
لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے 8اکتوبر کو یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ وہ 9اکتوبر سے اپنے عہدے سے قبل از وقت ریٹائر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے 1982ء میں پاکستان آرمی کی فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور معمول کی پروفیشنل سیڑھیاں چڑھتے ہوئے موجودہ رینک تک پہنچے۔
انہوں نے ایک بریگیڈ اور ایک انفنٹری ڈویژن ضرور کمانڈ کیا لیکن اس کے بعد انہیں کور کی کمانڈ نہ مل سکی اور وہ ڈی جی رینجرز (سندھ) تعینات کر دیئے گئے۔ یہ تعیناتی ایک ایسے وقت میں ہوئی جب عروس البلاد کراچی کے حالات بہت ابتر تھے۔
دہشت گردوں نے براستہ کراچی گویا پورے پاکستان کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ جنرل صاحبپر بہت بھاری ذمہ داریاں تھیں۔ ایم کیو ایم کی سیّال اور متلون سیاست، ’’را‘‘ کی پاکستان مخالف سرگرمیاں اور CIA کی بالواسطہ سپورٹ جو بھارت کی ’’را‘‘ کو آج بھی حاصل ہے ان سب کا انہیں سامنا تھا۔ لیکن جنرل صاحب نے جس خلوص اور شبانہ روز کی محنت و مشقت اٹھا کر کراچی کو امن کی راہوں پر ڈالا، اس کے لئے پاکستان کے ہر طبقے نے ان کی تعریف کی۔ جنرل راحیل شریف اس وقت آرمی چیف تھے جب ان کو کراچی سے اسلام آباد لایا گیا اور جنرل ظہیر الاسلام کی جگہ آئی ایس آئی کا چارج ان کے حوالے کیا گیا۔
بہت سے لوگوں نے جنرل رضوان کی اس نئی پوسٹنگ کو ان کی کراچی میں کارکردگی کے تناظر میں ازراہِ تحسین دیکھا۔ بطور ڈی جی رینجرز (سندھ )ان کو بہت نزدیک سے بین الاقوامی انٹیلی جنس کلچر کی اہمیت اور آئی ایس آئی کی پروفیشنل صلاحیتوں کوبھی جانچنے کا موقع ملا۔ لیکن جب ان کو وہاں سے پوسٹ آؤٹ کرکے میجر جنرل بلال اکبر کو ان کی جگہ لایا گیا تو میرے خیال میں ان کو اپنی اگلی پوسٹنگ پر چنداں اطمینان نہ ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ ان کو لیفٹیننٹ جنرل کے رینک میں پروموشن دے کر کسی کور کی کمانڈ دی جائے گی لیکن چونکہ آئی ایس آئی میں تقرری بھی ایک ’’انعام یافتہ‘‘ (Prized) پوسٹنگ شمار کی جاتی ہے اس لئے انہوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور خیال کیا کہ جب ان کا عرصہ یہاں اسلام آباد میں پورا ہو جائے گا تو ان کو ضرور کسی کور کا کور کمانڈر بنا دیا جائے گا۔ یہ پوسٹنگ ہر فوجی آفیسر کی پہلی تمنا ہوتی ہے کہ اس کے بعد اس کا شمار ان چند چنیدہ فوجی افسروں میں ہو جاتا ہے جو پاک آرمی کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے والوں کی لائن میں لگ جاتے ہیں۔
بالعموم آرمی چیف بننے کے لئے جو پروفیشنل کوالی فیکشنز مدنظر رکھی جاتی ہیں ان میں کور کی کمانڈ بھی شامل ہوتی ہے۔ جنرل رضوان قبل ازیں کمانڈ اینڈ سٹاف کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور امریکہ سے ایک وار کورس بھی کر رکھا تھا۔ ان کو امید تھی کہ وہ آئی ایس آئی سے جب پوسٹ آؤٹ کئے جائیں گے تو ان کوکسی کور کی کمانڈ دے دی جائے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔۔۔
دریں اثناء جنرل راحیل شریف ریٹائر ہو گئے اور جنرل رضوان اختر کی جگہ جنرل نوید مختار کو آئی ایس آئی کا سلاٹ (Slot) سونپ دیا گیا اور جنرل رضوان اختر کو کور کی کمانڈ دینے کی بجائے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا کمانڈنٹ پوسٹ کر دیا گیا۔ ( پاکستان آرمی میں ایک عرصے سے اس پوسٹنگ کو امریکی روائت کے تتبع میں کمانڈنٹ کی بجائے پریذیڈنٹ کہا جاتا ہے)۔۔۔ نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے اپنی نئی ٹیم کے انتخاب میں جاری سیٹ اپ میں جو تبدیلیاں کیں وہ ہر نیا چیف کرتا آیا ہے۔ اسے اپنی معتمد ٹیم لانی ہوتی ہے۔
یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی کہ آرمی چیف نے اپنی سلیکشن کے صرف دو ہفتوں بعد جنرل رضوان کوآئی ایس آئی سے تبدیل کر دیا۔ لیکن NDU کا پریذیڈنٹ اور کسی کور کا کمانڈر ہونے میں جو فرق ہے وہ ظاہر و باہر ہے۔۔۔ میرا ذاتی خیال ہے (اور ہو سکتا ہے میں سراسر غلط ہوں) کہ جنرل رضوان کے دل میں اس پوسٹنگ نے کئی گرہیں ڈال دیں!
پہلی گرہ وہی تھی جس کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا گیا کہ ان کو کور کی کمانڈ نہیں دی گئی تھی (جو ان کے مطابق ان کا حق بنتا تھا) لیکن یہ ’’حق‘‘ والی بات کوئی ایسی بات بھی نہ تھی جو قطعی اور حتمی ہو۔ ماضی میں لاتعداد لیفٹیننٹ جنرلوں کو کور کی کمانڈ نہیں دی گئی اور وہ دوسرے مناصب پر فائز ہو کر اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہو گئے۔ جنرل رضوان کو بھی اگر کور کی کمانڈ دے دی جاتی تو وہ اپنا مقرر کردہ عرصہ (بطور لیفٹیننٹ جنرل) پورا کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتے۔
دوسری گرہ شائد یہ تھی کہ ان کے خیال کے مطابق آرمی چیف کو ان پر وہ اعتماد نہ رہا تھا جس کی بناء پر ان کو کورکمانڈر مقرر کیا جاتا۔۔۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ جنرل رضوان کی سوچ کی یہ گرہ ان کے لئے زیادہ کرب ناک تھی۔ ہر ماہ GHQ میں جو کور کمانڈرز کانفرنس ہوتی ہے اس میں کور کمانڈرز تو ہوتے ہی ہیں، ان کے علاوہ GHQ میں تعینات پرنسپل سٹاف آفیسرز (PSOs) بھی شامل ہوتے ہیں اور ڈی جی آئی ایس پی آر بھی ہم نے دیکھا کہ تشریف فرما ہوتے ہیں کہ ان کانفرنسوں میں ان کا ہونا ایک پروفیشنل تقاضا ہے۔ میرا خیال ہے ہر ماہ جب یہ کانفرنس ہوتی ہوگی تو لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کے دل کے کسی گوشے سے یہ ہوک ضرور اٹھتی ہوگی کہ کاش وہ بھی اس منتخب اور اہم مجلس میں شریک ہوتے! ۔۔۔ ان کا ماضی کا پروفیشنل کیرئر میں پہلے بتا چکا ہوں۔ لیکن یہ بھی لکھ چکا ہوں کہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر لیفٹیننٹ جنرل کورکمانڈر بنا دیا جائے۔ لیکن انسان کی آرزوؤں کی بھی تو کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی!
ازراہ اتفاق اتوار (8اکتوبر) کو میری ایک ایسے دوست سے سیر حاصل ملاقات ہوئی جو وردی پوش تو نہیں تھا لیکن حال ہی میں NDU سے (بطور سٹوڈنٹ) فارغ التحصیل ہوا تھا اور اپنے پریذیڈنٹ کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ جنرل صاحب کا مداح بھی تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم نے پورے کورس کے دوران کلاس میں کسی بھی موقع پر جنرل رضوان کے منہ سے ایسے الفاظ نکلتے نہیں سنے کہ ان کو اپنی موجودہ تقرری میں کسی بھی طرح کا کوئی تاسف تھا۔۔۔ ہر گز ایسا نہیں تھا۔ وہ بالکل مطمئن اور نارمل رہتے تھے۔ اور جب میں نے یہ دریافت کیا کہ آپ کی نظر میں اس اچانک اور قبل از وقت ریٹائر ہو جانے کی پشت پر کیا سبب کارفرما ہو سکتا ہے تو انہوں نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر بتایا کہ یہ جو افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ ان کا کوئی بھائی بند PIA میں کسی اعلیٰ عہدے پر فائز تھا تو شائد موجودہ پولیٹیکو ملٹری صورت حال کے تناظر میں ان کی ذات پر شکوک کی کوئی پرچھائیں پڑی ہوں گی اور جنرل صاحب نے مناسب سمجھا ہو گا کہ وہ ایک سال پہلے ہی ریٹائر ہو کر اس مبینہ اور بے بنیاد داغ کو دھو ڈالیں۔ ہماری آرمی ہائی کمانڈکی یہ اَنا پرستی اور یہ صدق گوئی ایک ایسی دیرینہ روائت ہے جس کا شائبہ تک ملک کی سویلین قیادت میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔
لیکن پھر ساتھ ہی وہ صاحب کہنے لگے کہ موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی (جنرل نوید مختار) کے بارے میں بھی تو یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ان کی کوئی قرابت داری بھی کسی سیاسی فیملی سے ہے۔
میں نے ان کو لقمہ دیا اور کہا کہ کسی آرمی چیف یا کسی جرنیل کے کسی قرابت دار کا کسی سینئر سویلین عہدے پر فائز ہو جانا تو کوئی جرم نہیں ہوتا۔ پاکستان آرمی کا کوئی ہی جرنیل ایسا ہو گا جس کا کوئی رشتے دارکسی سول سروس یا سول عہدے پر تعینات نہ ہوگا۔ یہ سوچ سراسر بے بنیاد ہے کہ آرمی یا کسی دوسری ملٹری سروس (نیوی اور ائر فورس) کا کوئی سینئر آفیسر اپنے کسی ایسے قریبی عم زاد یا بھائی بہن کی طرفداری کرے گا جو کسی سویلین عہدے پر فائز ہو۔
اور یہ جو جنرل رضوان اختر نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے خط میں یہ لکھا ہے کہ میری اس ریٹائرمنٹ پر کسی قسم کا کوئی ایسا خودساختہ تبصرہ نہ کیا جائے جو معاملے کو کسی اور طرف کھینچ لے جائے تو یہ بھی ان کا ایک دبنگ اور قابلِ تعریف بیان ہے۔اور پھر اگلا فقرہ یہ بھی لکھا کہ فوج مجھے جب بھی کسی قومی فریضے کی تکمیل کے لئے آواز دے گی، میں حاضر ہو جاؤں گا۔۔۔میرے خیال میں ان کا یہ بیان ایک نہائت متوازن بیان ہے جس میں کسی الل ٹپ (Rash) وجہ یا سبب کی کوئی پرت مجھے نظر نہیں آتی۔ انہوں نے یہ فیصلہ نہائت سوچ سمجھ کر کیا ہے اور اگر کسی وقت مستقبل میں ان سے قوم نے کسی ایسے فریضے کی تکمیل میں ہاتھ بٹانے کا تقاضا کیا جو ان کے منصب اور مرتبے کے شایانِ شان ہوا تو وہ جس طرح پہلے 35سال تک وردی میں فوج اور ملک کی خدمت میں کوشاں رہے ہیں اسی طرح مستقبل میں بھی غیروردی پوش ہوتے ہوئے کوئی اسی طرح کی ذمہ داری نبھانے سے گریز نہیں کریں گے:
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں