بلاول! نانا کی بجائے والد کے نقشِ قدم پر چل کر وزیراعظم بننے کے خواہاں
28سالہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری 49ویں یوم تاسیس کی 7روزہ تقریبات کی کامیابی پر بڑے خوش ہیں۔ بلاول ہاؤس بحریہ ٹاؤن لاہور میں 30نومبر سے شروع ہونے والی تقریبات میں چاروں صوبوں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت و بلتستان کے کارکنان نے بھرپور شرکت کی۔ تاسیسی میلہ کے آخری پروگرام میں عارف لوہار اور ساتھیوں نے خوب رنگ جمایا۔بختاور اپنے بھائی کے ساتھ کارکنان کے بھنگڑوں سے لطف اندوز ہوتی رہیں ۔رومن زبان میں لکھی ہوئی تقریریں بلاول بھٹو نے جس جوشیلے انداز میں پڑھیں اور کارکنان سے داد وصول کی محسوس ہوا 7روزہ میلے کے جوش و خروش نے بلاول بھٹو سمیت پارٹی عہدے داروں کو خوش فہمی میں مبتلا کر دیا ہے۔ آخری پروگرام میں جس انداز میں شریف شریف شریف اب نہیں آئندہ نہیں کے نعرے لگائے گئے خوش فہمی کے ساتھ ساتھ لگتا ہے غلط فہمی بھی انہیں ہوگئی ہے۔ بحریہ ٹاؤن لاہور جسے پُرسکون علاقہ قرار دیا جاتا ہے اور بحریہ ٹاؤن کے رہائشی بڑے فخر سے اپنی منفرد اور پرسکون رہائش کا تذکرہ کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سات روزہ تقریبات کے بعد بحریہ ٹاؤن سے منتقلی کے پروگرام بنانا شروع ہو گئے ہیں۔ انہیں پتہ چل گیا ہے بلاول ہاؤس مستقل بن چکا ہے میلے جاری رہیں گے یہی حال بحریہ ٹاؤن میں کاروبار کرنے والے افراد کا ہے اگر حقیقی رنگ دیکھنا ہو تو بحریہ ٹاؤن کی سیکیورٹی والوں سے پوچھ لیں ان کے ڈسپلن اور فول پروف سیکیورٹی کا کیا حشر ہوا پنجاب پر جمہوری قبضے کا خواب کسی جگہ پورا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو بحریہ ٹاؤن لاہور ضرور فتح کر لیا گیا ہے معلوم ہو رہاہے کہ نوجوان چیئرمین ہر صورت وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی وراثتی روایات کو اگر دیکھا جائے تو بلاول کا حق بھی بنتا ہے۔ اسے وزیراعظم بنا دیا جائے بلاول بھٹو زرداری کی ترجیحات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کسی مشیر نے بتا دیا ہے تخت لہور فتح ہو گیا تو پورا ملک آپ کا ہو جائے گا شائد اسی لئے 7روز تک چار دیواری کے اندر تین سے چار ہزار افراد سے خطابات میں ان کا ہدف تخت لاہور ہی رہا۔ بلاول کی طرف سے بطور چیئرمین ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد پنجاب کی تنظیم سازی جو ہوئی ہے اس انتخاب کو داد دینا ہوگی واقعی اچھے افراد کا انتخاب کیا گیا ہے۔ قمرزماں کائرہ اور ندیم چن مقبول شخصیات ہیں میں خود قمر زماں کائرہ کے انداز گفتگو سے بڑا متاثر ہوں مگر بلاول ہاؤس میں ان کے ایک انٹرویو سے مجھے دھچکا لگا جس میں فرماتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جمعتہ المبارک کی چھٹی خوشی سے نہیں کی تھی بلکہ علماء کرام کے دباؤ میں کی تھی یہ بیان ان کی شخصیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ موروثی سیاست کے امین بلاول بھٹو زرداری بھی سیکولر اور بلاول بائیں بازو کی جماعت بنانے کا عزم کر چکے ہیں۔ ان کی تقریروں سے اور عمل سے بھی لگتا ہے انہیں اسلامی تقاضوں اسلامی قوانین سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ ہر صورت 2018ء میں وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔
بلاول زرداری کا نیا عزم بھی قابل توجہ ہے جس میں ان کا لگایا ہوا نعرہ سامنے آیا ہے’’ پھر زرداری‘‘، بلاول بھٹو خود وزیراعظم اور والد محترم جو خود ساختہ جلاوطنی کا شکار ہیں ان کو دوبارہ صدر دیکھنا چاہتے ہیں زمینی حقائق کے برعکس بات ہے۔ آصف علی زرداری کا 5سالہ دور اقتدار یقیناًبڑے تحمل اور صبر کا طلب گار رہا ہے مگر ان پر لگنے والے الزامات اب الزامات تک محدود نہیں رہے بلکہ 10پرسنٹ سے شروع ہونے والا نعرہ 100پرسنٹ سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔ والد محترم ابھی وطن واپسی کے لئے بارگیننگ میں مصروف ہیں بیٹا انہیں ایک دفعہ پھر صدر کے نعرے پر عمل درآمد کا خواہش مند ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کرپشن کے مبینہ الزامات سے ابھی باہر نہیں آ سکی کہ اب لبرل اور سیکولر بننے کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے سندھ حکومت نے اقلیتوں کے تحفظ کے نام پروٹیکشن آف منارٹی بل منظور کر کے شراب کی خرید و فروخت کی اجازت دے دی ہے اور ساتھ ہی غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے کے لئے عمر کی حد مقرر کر دی ہے 18 سال سے کم عمر افراد کے اسلام قبول کرنے کی اگر اسلام اجازت دیتا ہے اسلامی مملکت پاکستان کا قانون اجازت دیتا ہے تو سندھ حکومت کون سا اسلام لانا چاہتی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی لبرل پاکستان کی خواہش اور 2018ء میں وزیر اعظم بننے کا خواب اتنے محاذ کھولنے اور اپنے نانا مرحوم کی تاریخ کو پس پشت ڈال کر والد کے نقش قدم پر چل کر ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اپنی جماعت کو لبرل، سیکولر اور بائیں بازو کی جماعت بنا کر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی طے کردہ آئینی حدود سے دور جا رہے ہیں اور آئین کے اسلامی تقاضوں پر چلنے یا پورا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ذوالفقار علی بھٹو کے جرأت مندانہ اور تاریخ ساز فیصلے کے خلاف بلاول کسی مسیحی کو پاکستان کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں جو اسلامی تعلیمات اور 1973ء کے آئین کے تحت ممکن نہیں ہے 1973ء کے آئین کے تحت کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ غیر مسلم بن سکتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اگر اقلیتوں کا اتنا ہی درد ہے تو وہ اپنی خواہش سندھ میں کسی مسیحی یا ہندو کو وزیر اعلیٰ بنا کر پوری کر سکتے ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ آج تک پیپلزپارٹی کی اقلیتوں سے محبت نعروں سے آگے نہیں بڑھ سکی اور اس نے آج تک کسی رکن کو اپنی تنظیم میں بھی کوئی عہدہ نہیں دیا۔ 1973ء کے آئین کے مطابق قرآن و سنت اور اس کی تعلیمات کے خلاف کوئی دستور سازی نہیں ہو سکتی اسلام نے اقلیتوں کو خود بڑے حقوق دے رکھے ہیں ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
بلاول زرداری کو اپنی تاریخ یاد رکھنا چاہئے 2013ء کے قومی انتخابات میں پیپلزپارٹی 3 صوبوں اور مرکز سے 2008ء سے 2013ء کے درمیان پیپلزپارٹی کی طرز حکمرانی اور کرپشن کی وجہ سے شکست سے دو چار ہوئی تھی موجودہ حالات میں بھی پلڈاٹ کے سروے میں پیپلزپارٹی کو کرپشن میں سرفہرست قرار دیا گیا ہے سندھ کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی مثبت اقدام ہے لیکن بیورو کریسی اور سیاسی لیڈروں کے ذریعے جاری کرپشن کے سیلاب کو روکنا بھی چیئرمین پیپلزپارٹی کی ذمہ داری ہے۔ اب محسوس ہونے لگا ہے 2018ء میں تو وزیر اعظم بننے کا خواب پورا ہو یا نہ ہو البتہ سندھ حکومت کا پروٹیکشن بل نئی مصیبت لا سکتا ہے ملک بھر کی مذہبی تنظیموں سمیت سندھ کے مذہبی تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز میں بل واپس لینے کے لئے نئی صف بندی ہو رہی ہے ملی یک جہتی کونسل سرگرم عمل ہے سندھ حکومت کو الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ فوری طور پر بل واپس نہ لیا گیا تو ملک گیر تحریک شروع کریں گے۔
نوجوان چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری سے درخواست کرنی ہے آپ اپنے ٹریک کو درست رکھیں آپ کی ترجیحات آپ کے جلسوں میں اعلانات وقتی طور پر تو گرم جوشی پیدا کر سکتے ہیں دور رس نتائج آپ کے حق میں نہیں آئیں گے اگر پاکستان میں آپ کو کسی جگہ سے سپورٹ مل سکتی ہے تو وہ نانا جان محترم ذوالفقار علی بھٹو کی سنہری روایات پر عمل کر کے مل سکتی ہے اگر آپ اپنے والد محترم کے نقشے قدم پر چل کر وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں تو یہ سفر طویل ہو سکتا ہے اور نا ممکن بھی؟ اس پر ضرور سوچیں۔