کلامِ اقبال بزبانِ اقبال؟ (1)

کلامِ اقبال بزبانِ اقبال؟ (1)
 کلامِ اقبال بزبانِ اقبال؟ (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

6دسمبر 2017ء کو شکاگو سے مجھے اپنے بیٹے کا ایک آڈیو کلپ واٹس ایپ (Whatsapp) پر موصول ہوا۔ اس کلپ کا دورانیہ 9منٹ 33سیکنڈز کا تھا اور اس کے ساتھ یہ عبارت بھی لکھی ہوئی تھی:


Allama Iqbal`s own Voice. He is reciting his own poem۔۔۔ from record of Radio Pakistan.
[علامہ اقبال کی اپنی آواز۔۔۔ وہ اپنی ایک نظم پڑھ کر سنا رہے ہیں جو ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ سے ملی ہے]


میں نے یہ کلپ دیکھی تو دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ دیکھیں حضرت علامہ کی آواز بھی آخر سننے کو مل ہی گئی ۔ لیکن جہاں تک مجھے معلوم تھا اقبال کی کوئی آڈیو یا ویڈیو کلپ کبھی کہیں دیکھی سنی نہیں تھی۔

میں نے سوچا شائد بیٹا امریکہ سے یہ کلپ بھیج رہا ہے تو وہاں سے کسی نے لاہور آکر حکیم الامت کی آواز ریکارڈ کر لی ہوگی۔ لیکن یہ وسوسہ بھی دل میں موجود رہا کہ اسے اب تک منظر عام پر کیوں نہ لایا گیا۔ اس سے پہلے کہ آڈیو کو کلک کرتا، یہ وسوسہ ایک لمحے کو بجلی کی تیزی سے دماغ میں تو آیا لیکن وفورِ اشتیاق کی وجہ سے فوراً ہی نکل گیا اور میں نے سوچنا شروع کیاکہ شائد کسی نجی امریکی ادارے یا ایجنسی کے پاس اقبال کی یہ آڈیو موجود ہوگی اور اسے معلوم نہیں ہوگا کہ اس کی قدر و قیمت کیا ہے۔۔۔ بہرحال انہی خیالوں کے ہجوم میں جب میں نے وہ آڈیو سنی توحضرتِ اقبال اپنی نظم شکوہ سنا رہے تھے۔

آواز میں نقاہت تھی۔ مجھے خیال آیا شائد عمر کے کسی آخری حصے میں یہ نظم ریکارڈ کی گئی ہو گی اس لئے آواز میں وہ سوز و گداز، وہ گھن گرج اور وہ خوش الحانی نہیں جو ہم کتابوں میں اب تک پڑھتے آئے ہیں۔

چنانچہ میں ہمہ تن گوش ہو کر یہ نظم سنتا رہا۔ آواز کا زیرو بم اگرچہ دلسوزی کا زیادہ غماز نہ تھا لیکن پھر بھی لہجہ اور تلفظ واضح تھا۔۔۔میں دل ہی دل میں حضرت علامہ کی آواز سن کر اپنی خوش قسمتی پر ناز کرنے لگا!


کلام اقبال کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اردو نظموں میں بھی فارسی الفاظ و مرکبات کی بھرپور آمیزش ہے۔ تاہم اس آمیزش کی تاثیر کا عالم کیا ہے، یہ الگ موضوع ہے۔ بانگ درا میں موجود اس نظم (شکوہ) کے 31بند (Stanzas) ہیں۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہر مسدس بند تین شعروں اور چھ مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس حساب سے اس پوری نظم کے 31بندوں کے 93اشعار اور 186مصرعے ہیں۔ میں اقبالیات کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی ہوں۔

ایک زمانہ تھا کہ آپ کلیات اقبال (اردو) کی کسی بھی نظم کا کوئی ایک مصرع سناتے تھے تو میں اس کا دوسرا مصرع پڑھ دیتا تھا بلکہ اس کے بعد کے کئی اشعار اور بعض اوقات تو پوری کی پوری نظم زبان پر آ جاتی تھی۔

وجہ یہ نہ تھی کہ میں نے علامہ کے سارے کلام کو رٹاّ لگا رکھا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کلامِ اقبال کا لفظی اور معنوی اعجاز تھا جو غیر ارادی طور پر میرے دل و دماغ میں سما گیا تھا۔ اب بھی عمر کے اس حصے میں اس اعجاز کی جھلکیاں گاہ گاہ مل جاتی ہیں۔

چنانچہ جب حضرتِ اقبال اس ویڈیو کلپ میں ایک بند پر پہنچے تو مجھے شک گزار کہ میری یادداشت میں جس طرح یہ بند اور یہ شعر محفوظ ہے اس طرح اس آڈیو کلپ میں اقبال قرات نہیں کر رہے۔۔۔ وہ بند ذیل میں درج کررہا ہوں:
بوئے گل لے گئی بیرونِِ چمن رازِ چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماّزِ چمن
عہدِ گل ختم ہوا ٹوٹ گیا سازِ چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن
ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنّم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا طلاطم اب تک
لیکن اس بند کا چوتھا مصرعہ اس آڈیو میں اس طرح قرات کیا گیا تھا:
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پروازِ چمن
مجھے شک ہوا کہ اقبال نے اس کلپ میں پردازِ چمن پڑھا ہے یا پروازِ چمن؟۔۔۔ یعنی دال (د) اور واو (و) کا فرق تھا۔ میں نے جب دوسری بار اس کلپ میں اس مصرعہ کو سنا تو اس میں ’’پرداز‘‘ کی جگہ ’’پرواز‘‘ پڑھا گیا تھا۔۔۔ یہ سننا تھا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ جس آواز کو میں اقبال کی آواز سمجھ کے سن رہا تھا وہ ان کی آواز نہیں ہو سکتی تھی۔ مجھ پر سخت مایوسی اور ناگواری کی کیفیت طاری ہوئی اور میں نے اپنے بیٹے کو فوراً whatsapp پر یہ میسج Sendکیا:
The Voice reciting Shikwa is not that of Iqbal`s. I am 101% sure.
[یہ آواز جو شکوہ پڑھ رہی ہے اقبال کی نہیں۔ مجھے 101فیصد یقین ہے۔]


چند ہی منٹوں بعد بیٹے کا جواب آیا۔ اس نے لکھا کہ اس کے جس دوست نے یہ آڈیو بھیجی ہے اس نے ساتھ ہی یہ تفصیل بھی Send کی ہے:
Actually it was performed by Hakeem ul Ummat Iqbal r.a. in an annual congregation of Majlis-e-Eshaat e Islam, Lahore. He was, then` ill and had been carried there in wheel chair. He recited this famous Nazam Shikwa in a tired voice. This is the event of 1937 or 1938.Radio Pakistan afterwards got it from vetted sources.ISPR had secured it. We all are greatful to Radio Pakistan and ISPR for this act of kindnees.
[دراصل یہ نظم حکیم الامت اقبالؒ نے مجلسِ اشاعتِ (؟)اسلام کے سالانہ جلسے میں سنائی تھی۔ اس وقت وہ بیمار تھے۔ اور ان کو وہیل چیئر پر بٹھا کر جلسے میں لایا گیا تھا۔

انہوں نے اپنی یہ مشہور نظم بڑی نحیف آواز میں سنائی تھی۔ یہ 1937ء یا 1938ء کا واقعہ ہے ۔ اس نظم کو بعد میں ریڈیو پاکستان نے مصدقہ ذرائع سے حاصل کیا اور پھر اسے آئی ایس پی آر نے لے لیا۔ ہم اس کرم نوازی کے لئے ریڈیو پاکستان اور آئی ایس پی آر کے شکر گزار ہیں]


مجھے یہ پڑھ کر بہت دکھ ہوا کہ دیکھئے بعض حلقوں نے نہ صرف اقبال کو بدنام کرنے کی مذموم حرکت کی ہے بلکہ ساتھ ہی ریڈیو پاکستان اور آئی ایس پی آر تک کو بھی بیچ میں لپیٹ لیا ہے۔چنانچہ میں نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اس کے جواب میں لکھا:

Radio broadcast came to India in 1930.Nothing was heard about this rendering till today.How come this is now emerging suddenly after 80 years after the death of Iqbal, in 1938.Moreover, an irrefutable proof of the piece being bogus is the wrong recitation of the 4th line of the 28th stanza of Shikwa which is actually like this:
’’اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن‘‘
But the man who is reading it, pronounces the word "پرداز" as "پرواز". How culd Iqbal commit such a blunder even if he was ill? Please listen this line carefully.
[انڈیا میں ریڈیو نشریات 1930ء میں شروع ہوئیں۔ تب سے لے کر آج تک یہ قرات کہاں رہی؟ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اقبال کی وفات کے 80برس بعد اچانک یہ قرات منظر عام پر آ گئی۔

علاوہ ازیں اس قرات کے جعلی ہونے کا ناقابلِ تردید ثبوت یہ بھی ہے کہ اس نظم کے بند نمبر28کا چوتھا مصرعہ اسی طرح ہے:
’’اڑگئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن‘‘


لیکن وہ شخص جو اس کلپ میں یہ نظم قرات کررہا ہے وہ ’’پرداز‘‘ کو ’’پرواز‘‘ پڑھ رہا ہے! اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اقبال بیمار تھے تو بھی وہ اپنی نظم کو غلط پڑھنے کی بلنڈر کیسے کرسکتے تھے؟ براہ مہربانی اس مصرعے کو دوبارہ غور سے سنئے]


میں نے وضاحت کرتے ہوئے بیٹے کو فون پر بھی بتایا کہ اس مصرع میں جو لفظ ’’پرداز‘‘(حرف دال کے ساتھ) استعمال ہوا ہے اس کا مصدر ’’پرداختن‘‘ ہے۔ اس فعل (Verb) کا معنی اردو میں اختیار کرنا، اپنانا اور اٹھانا وغیرہ ہے۔

پرداز اسی پر داختن مصدر سے مشتق ہے اور زمزمہ کا مطلب سریلا اور دلنشیں نغمہ یا گیت ہے اور ’’زمزمہ پرداز‘‘ کا مطلب ہے نغمہ خواں ، نغمہ سنانے والا، گیت سنانے والا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔جبکہ ’’پرواز‘‘(حرف واو کے ساتھ) گرامر کی رو سے اسم (Noun) ہے جس کا معنی ’’اڑان‘‘ ہے۔

اس تناظر میں اس مصرعے میں ’’زمزمہ پرواز‘‘ باکل ایک بے معنی اور لغو مرکب ہوگا۔ میرا خیال ہے پڑھنے والے ’’اقبال‘‘ نے اس مصرعہ کے پہلے نصف حصے میں ’’اڑگئے ڈالیوں سے‘‘ والے ٹکڑے سے یہ مطلب اخذ کیا ہوگا کہ یہ لفظ ’’اڑنے‘‘ اور پرواز سے متعلق ہے اسی لئے حضرتِ علامہ نے اسے ’’پرواز‘‘ باندھا ہوگا، پرداز نہیں۔

اس مصرع کا لغوی مطلب یہ ہے کہ:’’ وہ پرندے جو یہ سریلا گیت گایا کرتے تھے وہ تو شاخوں سے اڑ گئے‘‘
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پردازِ چمن
لیکن اگر ہم پرداز کی جگہ پرواز یعنی ’’د‘‘ کی جگہ ’’و‘‘ لگادیں تو یہ سارا مصرعہ بے معنی ہوکے رہ جائے گا۔ اس لئے ’’زمزمہ پروازِ چمن‘‘ کی ترکیب بالکل بے معنی ہو جائے گی اور اسی لئے مجھے 101%یقین ہے کہ اس آڈیو کلپ میں یہ نظم پڑھنے والا حکیم الامت اقبال نہیں ہوسکتا۔


اس کے بعد میں نے تیسری بار اس ویڈیو کلپ کو بغور سنا تو اس میں دو غلطیاں اور بھی سامنے آئیں۔ ایک کا تعلق نظم پڑھنے والے کی اسی غیرارادی کم علمی سے ہے جس نے پرداز کی بجائے پرواز پڑھا ہے جبکہ دوسرے کا تعلق ارادی غلطی سے ہے۔۔۔ میں ان دونوں غلطیوں کو قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔


پہلی غلطی کا تعلق ’’اعراب‘‘یا کسرئ اضافت اور نیز کلام اقبال کی فنی گہرائیوں اور مفہوم کی وسعتوں سے بے خبری سے ہے۔ اس نظم کے جس دوسرے بند کو غلط تلفظ اور رموزِ اوقاف کی نافہمی کی وجہ سے قرات کیا گیا ہے۔ وہ یہ ہے:


ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
سازِ خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم

اے خدا شکوۂ اربابِ وفا بھی سن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
اس بند کے تیسرے مصرعے میں ’’جعلی اقبال‘‘ نے ’’سازِ خاموش‘‘ کی جگہ ’’ساز خاموش‘‘ پڑھا ہے۔ یعنی ساز کی ’’ز‘‘ کے بعد کسرائے اضافت کو غائب کردیا ہے جس سے سارا مفہوم غتر بود ہوگیا ہے۔ یہاں بھی وہی ٹھوکر کھائی گئی ہے اور سمجھا گیا ہے کہ اگر ’’ساز خاموش‘‘ پڑھ دیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ’’ساز خاموش ہیں‘‘۔ جعلی اقبال نے یہ نہیں دیکھا کہ اگر ’’ساز خاموش ہیں‘‘۔

پڑھیں گے اور ساز کے نیچے کسرائے اضافت (زیر) نہیں لگائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوجائے گا :’’سارے ساز خاموش ہیں‘‘ ۔ لیکن مصرع کا نصفِ آخر ’’فریاد سے معمور ہیں ہم‘‘ اس وقت تک بے معنی رہے گا جب تک ’’سازِ خاموش‘‘ نہیں کہا اور پڑھا جائے گا۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -