چوری اتوں رانے نال ریساں

چوری اتوں رانے نال ریساں
 چوری اتوں رانے نال ریساں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

برطانیہ کے ویسٹ منسٹر چرچ میں ایک کرسی پڑی ہے۔ لیکن یہ کرسی اب جلد اسرائیل چلی جائے گی۔ حالانکہ اس کرسی پر ملکہ برطانیہ بیٹھتی رہی ہیں لیکن اگر وہ چاہیں بھی تو یہ کرسی اپنے پاس نہیں رکھ سکیں گی۔ اب اس کرسی پر کسی دن اسرائیلی وزیر اعظم نے بیٹھنا ہے۔

یہ کرسی دراصل ایک پتھر پر بنائی گئی کرسی ہے۔ یہ پتھر کیا ہے؟ دراصل یہ وہی پتھر ہے جس پر حضرت داؤد ؑ کا تخت تھا یہ وہی پتھر ہے جس پر حضرت سلیمان ؑ بیٹھا کرتے تھے پھر سترہویں صدی میں روم کا بادشاہ ٹائٹس اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ پھر یہ پتھر روم آئرلینڈ، سکاٹ لینڈ سے ہوتا برطانیہ پہنچا۔ بات تو میری افسانوی لگتی ہے لیکن کیا کروں گریٹر اسرائیل کی تکمیل تھرڈ ٹمپل کی تعمیر اور اس کرسی کے ایستادہ کرنے میں ہے۔

ابلے آلو ورگے منہ والے ٹرمپ کا امریکی صدر بننا اس صدی کی سب سے بڑی سازش ہے۔ ہم سمجھے تہذیبوں کا تصادم تھم گیا۔ لیکن دراصل یہ تصادم اب نئی شکل، نئے انداز اور شرطیہ نئے پرنٹ کے ساتھ مارکیٹ میں آچکا ہے۔

وہ اپنا کام کررہے ہیں اور ہم اپنا۔ ٹرمپ ہمارے بڑے بھائی اسلامی ملک کوٹریلین ڈالرز کا اسلحہ بیچتے ہوئے پوپ فرانسس سے ملا تو تب تک ان کی جیب میں آگ بارود اور جنگ کے کھلونے ختم ہوچکے تھے اور ان کے پاس فقط امن محبت بھائی چارہ بچا تھا۔

ان کے داماد کی خلیج میں آنیاں جانیاں کیوں تھیں، آپ خود دو اور دو چار جمع کرلیں، لیکن ہم مسلم امہ سونہیں رہے جاگ رہے ہیں۔ بگ برادر اسلامی ملک میں اس کی دھرتی کا پہلا کنسرٹ منعقد ہوچکا، جس میں مشہور لبنانی سنگر ہبا توازی نے اپنے فن سے شائقین کے دل موہ لئے۔

لیبیا سے قذافی کو سڑکوں پر رولا جاچکا ہے۔ عراق میں صدام کا جھٹکا ہوچکا۔ مرسی مصر میں اب موت کے منتظر ہیں۔ شام کو داعش کی بیماری لگ چکی سعودیہ میں اکھڑ شہزادوں کو اُلٹا لٹکا کر خاصے پانجے لگ چکے، یمن میں سابق صدر اوران کے باغی بھتیجے کو مخالفین مار چکے یعنی راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

اور ہم الحمدللہ او آئی سی، او آئی سی کھیل رہے ہیں اور او آئی سی کے ارکان یا شیخ ذرا ساڈے ول ویکھ گا رہے ہیں۔ نائن الیون سے شروع ہونے والا ڈرامہ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے کھیلتا گریٹر اسرائیل کی تکمیل تک آ پہنچا ہے۔

صرف سعودی عرب ایران اور پاکستان رہ گئے، سعودی عرب کی کیا کہوں لیکن ایران ابھی محفوظ ہے اور پاکستان قسطوں میں تباہ کیا جارہا ہے۔ کبھی بم بلاسٹ، کبھی خودکش حملے، کبھی جمہوریت کی تباہی اور کبھی مذہب کے نام پر ہلچل، آہ ہم وہ کبوتر ہیں جو آنکھیں بند کرکے سمجھ رہے ہیں کہ خطرہ نہیں ہے، کہیں نہیں ہے اور موت آہستہ آہستہ دبے پاؤں ہماری طرف بڑھ رہی ہے اور ہم ایک قوم کے بجائے فرقوں، زبانوں، تہذیبوں میں تقسیم لوگ ایک کے مرنے پر تالیاں بجا رہے ہیں، حیران ہوں کیا ماؤں کی کوکھ بنجر ہوگئی کیا ہمیں اپنی طرف بڑھتی موت نظر نہیں آرہی۔

سیاستدان، علماء ،بیورو کریٹ اور فوج کوئی تو صورتحال کی نزاکت کو سمجھے، جن کے بچے باہر رہتے ہیں جن کی دولت باہر ہے، جن کے تمام سٹیکس باہر ہیں، ان کی تو خیر ہے لیکن ہم نے تو اس دھرتی پر جینا ہے اس پہ مرنا ہے، ہمارے بچوں نے کہاں جانا ہے، خدارا سب ہوش کے ناخن لیں، یہ افسانے نہیں حقیقی سکرپٹ ہے، شام، عراق، مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر کے بعد پاکستان کی باری آنی ہے۔ مرنا ہی ہے تو لڑکے کیوں نہ مرا جائے، مار کے کیوں نہ مرا جائے۔

امریکہ، اسرائیل، انڈین بہت طاقتور ہونگے لیکن اس سے زیادہ نہیں جو اس کائنات کا مالک ہے، جو اس کائنات میں نظام کو بیلنس رکھتا ہے۔


ہومیو پیتھک اور پیپلز پارٹی میں ایک چیز مشترک ہے دونوں کا اگر فائدہ نہیں تو کوئی نقصان بھی نہیں، سو اگر وہ طاہر القادری کے پاس چلی بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ کنٹینر میں دو کرسیوں کا اضافہ ہوگا، مجھے تو اب اندازہ ہوا ڈاکٹر طاہر القادری اسی انقلاب کے منتظر تھے۔

ان کی پاکباز نگاہیں آصف زرداری کا ایسے طواف کررہی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں ’’تم ہی تو ہو محبوب میرے، میں کیوں نہ تمہیں بور کروں‘‘ لڑکی نے پیر صاحب سے پوچھا میرے دو رشتے آئے ہیں کون خوش نصیب ہوگا، پیر صاحب بولے شادی پہلے رشتہ سے ہوگی اور دوسرا خوش نصیب ہوگا، لیکن یہاں لگتا ہے قائد انقلاب پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی دونوں کا رشتہ قبول کرلیں گے۔

عالم فاضل ہیں دونوں رشتے سنبھالے رکھنے کا کوئی شرعی عذر بھی تلاش کرلیں گے۔ دلہن بولی خیر سے ہماری شادی کو چوبیس گھنٹے ہوگئے۔ سردار جی بولے آہو اینج لگدا اے جیویں کل دی گل اے، ابھی کل ہی کی تو بات تھی غالباً دسمبر کی سردیوں میں قائد انقلاب نے پیپلز پارٹی کے خلاف دھرنا دیا تھا۔ بچوں اور سیاستدانوں میں ایک بات مشترک ہوتی ہے، ان کی دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں، وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔

اب تو ویسے بھی آصف زرداری نے خود کو بہترین ڈانسر بھی ثابت کردیا، انکے یہ سٹیپس مائیکل جیکسن کے تھرلر اور نرگس کے’’ نیڑے آ ظالما وے میں ٹھرگئی آں‘‘ سے زیادہ ہٹ ثابت ہوئی، نرگس تو خیر بھری جوانی میں ٹھر گئی تھیں ہمارے مرد آہن اتنے نرم نہیں پھر ڈانس سے پہلے جس طرح انہوں نے ٹھنڈا پانی پیا اس کے بعد تو انہیں ویسے ہی گرمی لگنی ہی لگنی تھی۔


آجکل ایک ریس لگی ہے کہ کون سب سے اچھا بچہ ہے، عمران خان اب تک بڑوں کا تمام کہا مانتے آئے ہیں، چودھری برادران تو ویسے بھی بڑوں کی آنکھ کا اشارہ سمجھتے ہیں، اب آصف زرداری جس تیزی سے اچھے بچے بن رہے ہیں، امید ہے کہ وہ سب کے ریکارڈ توڑ دیں گے، خاتون بچوں سے بولیں جو بچہ میرا کہنا مانے گا اسے ایک ٹافی دونگی، سب سے چھوٹا بولا اینج تے ساری ٹافیاں ابو لے لیں گے، بس دیکھتے جائیں آخر میں سب سے زیادہ ٹافیاں زرداری کی جیب سے نکلیں گی، لیکن بھائیو تے فیر بھائیو کوئی مجھے بتائے گا اس جمع تفریق کا فائدہ کیا ہے، بڑے بھیا گئے مانا چھوٹے بھیا بھی گئے پھر کیا غریبوں کی زندگی آسان ہوجائے گی؟ کیا اس تھکی ہاری مخلوق کو امن مل جائے گا، کون دے گا، امن سکون زرداری، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، جاوید ہاشمی دیں گے؟؟؟ جو اس سسٹم کے سب سے بڑے بینفشرینر ہیں، میاں برادران کو بدلنے سے کیا فائدہ بدلنا ہے تو یہ گٹر سے زیادہ بدبو دار نظام بدلو۔
چلتے چلتے رانا ثناء اللہ کا ذکر کردوں، لگتا ہے انہیں گھیرنے کا فیصلہ ہوگیا ہے، طاہر القادری سے لیکر پیر حمید الدین سیالوی سب ان کے پیچھے پڑے ہیں، مجھے ایسا لگتا ہے کہ رانا صاحب وہ طوطے ہیں جس میں پنجاب حکومت کی جان ہے، ان کے سیاسی نظریات سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن انکے دبنگ ہونے سے انکار ممکن نہیں اور دبنگ بندہ فلموں میں تو چل سکتا ہے اس ’’پیوست زدہ ‘‘نظام میں نہیں، ایک دن ایک رانا صاحب کے گھر چور آگیا رانے کی آنکھ کھل گئی، چور بھاگ نکلا، رانا صاحب اسکے پیچھے دوڑ پڑے اور بھاگتے بھاگتے چور سے یہ کہتے ہوئے آگے نکل گئے اک تے چوری اوتو رانے نال ریساں، رانا ثناء اللہ بہت تیز ہیں، صحیح بات ہے ان سے ریس لگانا ممکن نہیں وہ تو اتنا تیز دوڑتے ہیں کہ میاں شہباز شریف سے بھی آگے نگل گئے۔

مزید :

کالم -